طالبان کی مزاحمت کمزور پڑ رہی ہے، عام افغانوں میں طالبان کی حمایت میں کمی آرہی ہے ،امریکی جنرل کا دعوی،امریکہ نے 2014ء کے بعد افغانستان میں جن 9800 امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے آٹھ ہزار اہلکار افغان فوج کو تربیت اور معاونت فراہم کریں گے،جنرل جوزف ڈنفورڈ

جمعہ 6 جون 2014 06:54

برسلز(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ 6جون۔2014ء) افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی مزاحمتی تحریک کمزور پڑ رہی ہے اور عام افغانوں میں طالبان کی حمایت میں کمی آرہی ہے۔ برسلز میں ہونے والے 'نیٹو' کے ایک اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ کا کہنا تھا کہ طالبان کو عام افغانوں کی حمایت حاصل کرنے میں مشکل درپیش ہے۔

جنرل جوزف نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ نے 2014ء کے بعد افغانستان میں جن 9800 امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں سے آٹھ ہزار اہلکار افغان فوج کو تربیت اور معاونت فراہم کریں گے۔

امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ 'نیٹو' کے اندازے کے مطابق 2014ء کے بعد افغان فورسز کی تربیت اور معاونت کے لیے اتحادی فوج کے 12 ہزار اہلکاروں کی ضرورت پڑے گی جن میں آٹھ ہزار امریکی فوجی بھی شامل ہوں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ باقی ماندہ 1800 امریکی فوجی اہلکار انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے مجاز ہوں گے۔ جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ 'نیٹو' کے باقی رکن ممالک بھی افغان مشن کے لیے فوجی فراہم کرنے کا اعلان کریں گے اور 12 ہزار اہلکاروں کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔'نیٹو' حکام کے مطابق امریکہ کے علاوہ اٹلی، جرمنی اور ترکی بھی 2014ء کے بعد افغانستان میں اپنے فوجی تعینات رکھنے پر راضی ہوگئے ہیں جو 'نیٹو' فورس کا حصہ ہوں گے۔