ایران نے عراق کو داعش کے حملوں سے نمٹنے کے لیے جیٹ طیارے فراہم کر دئیے،امریکہ نے بھی اپنے ڈرونز اور ہیلی کاپٹر عراق میں تعینات کر دئیے ، عراقی فضا ئیہ کو امریکی ہیل فائر میزائل بھی مل گئے

جمعہ 4 جولائی 2014 06:55

بغداد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4جولائی۔2014ء) ایران نے عراق کو داعش نامی سنی تنظیم کے حملوں سے نمٹنے کے لیے جیٹ طیارے فراہم کر دئیے۔اس سے پہلے روس نے بھی کچھ دن قبل عراق کو ہوائی جہاز دیے تھے۔ لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طیاروں کی تازہ کھیپ ایران نے فراہم کی ہے۔امریکہ نے بھی عراق کے لیے فضائی طیارے بھجوائے ہیں اور عراق کا تنازع امریکہ اور ایران کو ایک ساتھ لے آیا ہے۔

امریکہ نے اپنے ڈرونز اور ہیلی کاپٹر بھی عراق میں تعینات کیے ہیں تاکہ داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں خفیہ اطلاعات حاصل کی جا سکیں۔ واشنگٹن عراق کی فضائی فوج کو ہیل فائر میزائل بھی فراہم کر رہا ہے۔انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے ایک تجزیہ کار جوزف ڈیمسی نے عراقی حکام کی جانب سے جاری کی گئی جہازوں کی ویڈیو کا بغور مشاہدہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ عراق میں زیرِ استعمال بعض طیارے جن Sukhoi Su-25 شامل ہے یقیناً ایرانی ساختہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’تصاویر کے مشاہدے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ جہازوں پر درج نشانات، سیریل نمبر اور تبدیلیِ ہیئت سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایرانی ہیں۔‘ایران میں Su-25 کے بہت کم طیارے ہیں اور یہ ایران کے انقلابی گارڈز کے اہلکاروں کے زیرِ استعمال رہے ہیں۔

ان جہازوں کی ایک بڑی تعداد عراقی فضائیہ کے زیرِ استعمال رہی ہے تاہم پہلی جنگِ خلیج کے بعد یہ ایران آ گئے۔ یقیناً یہ بتانا مشکل ہے کہ جہاز اڑا کون رہا ہے۔تجزیہ کار جوزف ڈیمسی کا کہنا ہے کہ ’عراق میں شاید اب بھی اسے اڑانے کی قابلیت ہو کیونکہ اس نے ماضی میں اسے استعمال کیا ہے تاہم کسی بھی پائلٹ کا پچھلے 11 برس سے اسے اڑانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

‘’اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی حد تک بیرونی مدد تو درکار ہو گی۔ادھر عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے خبردار کیا ہے کہ داعش کی طرف سے ’اسلامی ریاست‘ کا اعلان پورے علاقے کے لیے خطرہ ہے۔داعش نے عراق اور شام کے اپنے قبضے والے علاقے میں اسلامی ریاست کا اعلان کیا ہے۔عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی نے کہا کہ وہ اسی قبیلہ کے ان جنگجووٴں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار ہیں جو جدوجہد میں شدت پسندوں کے ساتھ رہے، بشرطیکہ وہ کسی خون خرابے میں شامل نہ رہے ہوں۔

متعلقہ عنوان :