ہمارے پاس طاقت نہیں کہ انگریزوں کے دور کے قوانین بدل سکیں، چیف جسٹس

قاضی اپنے مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں اس قانون پر ہی عمل کرلیں تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے گی، عدلیہ سے لوگوں کو امید ہے وہ انہیں انصاف دلائیں گے لیکن محسوس کر رہا ہوں ہم اپنی صلاحیتیں مطلوبہ معیار کے مطابق استعمال نہیں کر رہے عدلیہ ریاستی ادارہ ہے جس کے بغیر اس کا قیام ناممکن ہے کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے مگر ظلم و ناانصافی کا معاشرہ نہیں چل سکتا عدلیہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے عوام کو انصاف دینا ہوگا عوام کئی کئی سال ٹرائل کورٹ میں مقدمہ بازی کرتے ہیں30 چالیس سالوں تک عوام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں انصاف کا طلبگار انصاف کیلئے اتنا عرصہ لگاتا ہے تو اس کا ذمہ دار ہے میں خود کو زمہ دار سمجھتا ہوں،جسٹس میاں ثاقب نثار کا بلوچستان ہائیکورٹ میں تقریب سے خطاب

بدھ 11 اپریل 2018 21:05

"کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ 11 اپریل 2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے پاس طاقت نہیں کہ انگریزوں کے دور کے قوانین بدل سکیں، قاضی اپنے مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں 1908 میں جو قانون بنایا گیا اسے تبدیل کیا جائے، اس قانون پر ہی عمل کرلیں تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے گی عدلیہ سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ انہیں انصاف دلائیں گے لیکن محسوس کر رہا ہوں ہم اپنی صلاحیتیں مطلوبہ معیار کے مطابق استعمال نہیں کر رہے عدلیہ ریاستی ادارہ ہے جس کے بغیر اس کا قیام ناممکن ہے کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے مگر ظلم و ناانصافی کا معاشرہ نہیں چل سکتا عدلیہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے عوام کو انصاف دینا ہوگا عوام کئی کئی سال ٹرائل کورٹ میں مقدمہ بازی کرتے ہیں30 چالیس سالوں تک عوام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں انصاف کا طلبگار انصاف کیلئے اتنا عرصہ لگاتا ہے تو اس کا ذمہ دار ہے میں خود کو زمہ دار سمجھتا ہوں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہا رانہوں نے بلوچستان ہائیکورٹ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے کیا چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثارنے کہا ہے کہ جن معاشروں میں آزاد عدلیہ نہ ہو وہاں اللہ کا قہر ہوتا ہے عدلیہ سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ انہیں انصاف دلائیں گے بدقسمتی سے کہتا ہوں ہم اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کررہے آپ معمولی لوگ نہیں آپ کو قانون آنا چاہیے وہ قابل ججز کہاں گئے جو ہاتھوں سے منطق کے مطابق قوانین پر فیصلہ کرتے تھے ہمارے پاس ماضی کے قابل ججز ناپید ہوگئے ہیں پارٹیوں کے مواخذہ میں بھی بنیادی قوانین کا خیال نہیں رکھا جاتا انہوں نے کہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہیں پرکھا جاتا عام آدمی کو اگر آپ کے زریعے انصاف ملے تو آپ کا درجہ کتنا بڑھ جاتا ہے ملک کے بنیادی ستونوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ہم لوگوں کو انصاف کی فراہمی کا رخ دکھاتے ہیںمجھے انصاف اس طرح ہوتا نظر نہیں آتا جیسی ضرورت ہے قانون سمجھے اور جانے نچلی عدالتوں میں فیصلہ درست ہوگا تو اعلی عدالتوں میں بھی اس کے اثرات دیکھے جائیں گے انہوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کو قانون کے مطابق انصاف دیں وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے گھر میں تبدیلی لانا ہوگی بلوچستان میں کم مگر پنجاب اور سندھ میں بڑی شکایات ہیں آپ عام قاضی نہیں آپ کو ویژن اور رول آف بزنس کے مطابق فیصلے کرنے ہیں میرے تصور میں بھی کبھی نہیں آیا کہ میرے لوگ کرپٹ ہیں جوڈیشل مجسٹریٹ تک سب قانون کی عملداری کیلئے کام کریں نئی گاڑیوں سے آپ کی زندگی میں رفتار بڑھے گی اسی طرح مقدمات کے فیصلوں کی رفتار بھی بڑھائیں اگر آپ لوگوں کو انصاف دیئے بغیر جائیں گے یو اللہ کے سامنے سرخرو نہیں ہوں گے ہمیں قوانین کے اندر رہتے ہوئے عوام کو انصاف دینا ہوگا عوام کئی کئی سال ٹرائل کورٹ میں مقدمہ بازی کرتے ہیں30 چالیس سالوں تک عوام عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں انصاف کا طلبگار انصاف کیلئے اتنا عرصہ لگاتا ہے تو اس کا ذمہ دار ہے میں خود کو زمہ دار سمجھتا ہوں ہر لیول کا لا آفیسر زمہ دار ہے ہمیں حکومت کی طرف سے تعاون اور وسائل میسر نہیںہمارے پاس طاقت نہیں کہ انگریزوں کے دور کے قوانین بدل سکیں، قاضی اپنے مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں 1908 میں جو قانون بنایا گیا اسے تبدیل کیا جائے، اس قانون پر ہی عمل کرلیں تو انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے گی عدلیہ سے لوگوں کو امید ہے کہ وہ انہیں انصاف دلائیں گے لیکن محسوس کر رہا ہوں ہم اپنی صلاحیتیں مطلوبہ معیار کے مطابق استعمال نہیں کر رہے عدل کی بنیادوں کو مضبوط نہیں کر پائے تو اللہ کے سامنے کیسے سرخرو ہوں گے، جس کا حق مارا گیا وہ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور کئی کئی سال تک فیصلے کا انتظار کرتا ہے، اس کا کون ذمہ دار ہے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں ہوں یا کوئی اور ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے، لوگوں کو بروقت انصاف نہ ملے تو لوگ متنفر ہوتے ہیں، اللہ نے توفیق دی ہے کہ آپ انصاف کرسکیں، سمجھ نہیں آتی ہے کہ سول کیسز میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے کہ چار چار سال مقدمہ چلتا رہتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حیران ہوں کہ وہ قابل ججز کہاں گئے جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے تھے، ایسے ججز تھیکہ ان کے فیصلے سپریم کورٹ آتے تو تبدیل نہیں ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کے طور پر برملا کہتا ہوں سول جج، جوڈیشل مجسٹریٹ اور چیف جسٹس کے کام میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا، کسی بھی معاشرے میں انصاف ہونا ضروری ہے، ناانصافی پر مبنی معاشرہ نہیں چل سکتاچیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ بازی معاشرے کی بیماری ہے لیکن ہر شہری کا حق ہے کہ اسے بروقت انصاف ملے۔ منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ محمد نور مسکانزئی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی موجودگی میں تمام لمحات خوبصورت ہیںہم امید کرتے ہیں کہ عدالتی اصلاحات پر آپ ہمیں ہدایات دیں گے کیسز میں 39 ہزار 3 سو فیصلے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی موجودگی میں تمام لمحات خوبصورت ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ عدالتی اصلاحات پر آپ ہمیں ہدایات دیں گے ہماری کوشش ہے کہ پالیسی پر عمل پیرا ہوکر عوام کو انصاف فراہم کریں صوبے کی عدلیہ کی کارکردگی سے میں مطمئن ہوں کیسز میں 39 ہزار 3 سو فیصلے ہوئے عدالتی عملہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔

متعلقہ عنوان :