Episode 13 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 13 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

ہائے گرمی…!!
الحمد للہ! جمہوری سفر پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ نئی نویلی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے نو منتخب اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے۔ سیاسی ماحول میں گزشتہ ایک ہفتے سے گرمی کی شدت میں بھی نمایاں کمی محسوس کی جا رہی ہے مگر آج سیاست پر کچھ لکھنے کو دل نہیں کر رہا۔ کیونکہ میرا زیادہ فوکس آج اس حریف کی طرف ہے جو قطعاً کسی کا سیاسی حریف تو ہو نہیں سکتا کیونکہ قوت اور صلاحیت میں اس کی ہمسری کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
اپریل کے آغاز سے ستمبر کے اختتام تک پاکستان کے اکثر میدانی علاقوں کے موسم کے بارے عمومی رائے یہی ہوتی ہے کہ ”کل شدید گرمی تھی اور آج مزید گرمی ہے۔“ گرمی کی شدت تو غسل سے بھی دور نہیں ہو پاتی۔ یقین کریں غسل خانے سے باہر آتے ہی لگتا ہے کہ ابھی نہانے کا پروگرام بنایا ہے۔

(جاری ہے)

آج تک جھنجھلا کر میں نے ان اسباب پر توجہ دینا شروع کر دی جن کی بنیاد پر شہری آبادی کو گرمی سے زیادہ شکایات ہیں۔

پرانے وقتوں میں گھروں کی ساخت کچھ اس طرح ہوا کرتی تھی کہ دیواریں کچی مگر خوب موٹی اور چھتیں نہایت اونچی ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے روشن دان ہوا کو ادھر سے ادھر گزارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ موٹی دیواریں دھوپ کے اثر کو کم کرتیں اور روشن دان سے ہوا کمرے کو ٹھنڈا رکھتی تھی۔ ڈبل سٹوری کا تصور صرف وہ کرتے جن کے پاس زمین کم اور بہود آبادی سے ناراضگی زیادہ ہوتی تھی۔
آج کل اگر ہم اپنے گھروں کی ساخت دیکھیں تو چھتیں چوبیبس فٹ سے دھڑام دس یا بمشکل بارہ فٹ پر آ چکی ہیں۔ نو انچ کی دیوار پر فولادی ٹائپ سیمنٹ اور لینٹر میں دہکتا سریا۔ پکی اینٹیں گرمیوں میں مزید پک جاتی ہیں۔ پھر ستم یہ کہ ڈبل سٹوری تو ایک طرف تین سے چار منزلہ گھر ساتھ والے دو منزلہ گھر کو تکبر سے منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ گرمی اور حبس کے موسم میں بالا ئی منزلیں ”مثل تنور دہکتی ہیں۔
“ ہمارے آرکیٹیکٹ صاحبان شدید اس امر سے نابلد ہیں کہ اس ملک میں 18 کروڑ عوام کے ساتھ ساتھ ایک لوڈ شیڈنگ نام کی بلا بھی رہتی ہے۔ جس کا شکار تیر سے بھی نہ ہو پایا تو میدان میں شیر آ گیا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے ہاں پراپرٹی کے ریٹس کافی بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی لیے گھر بھی بلندی کی جانب گامزن ہیں۔ لہٰذا ہمارا رہن سہن ہمیں گرمی لگوانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
مگر کردار ہمارے سیاستدانوں کا بھی ہے جنہوں نے جھوٹے وعدے، غیر مناسب نامعقول قسم کی منصوبہ بندی اور اپنی نالائقی کی وجہ سے ملک سے بجلی ایسے غائب کروا دی جیسے بجلی جانے پر کچھ منچلوں کے کپڑے غائب ہو جاتے ہیں۔ ابھی تو اترے ہوئے کپڑوں کی بات ہو رہی تھی تو چلو کچھ پہنے ہوئے کپڑوں کا بھی حال دیکھ لیجئے۔ سخت گرمی میں گھریلو خواتین اپنے شوہر نامدار کا لٹھے کا سوٹ دھونے کے بعد اس پر محبت سے مایا (کلف) کی تہہ چڑھا دیتی ہیں پھر اسے استری کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
کئی گھنٹوں کی محنت اور مہنگی و نایاب بجلی کے قیمتی یونٹس ضائع کرنے کے بعد جو شاہکار تیار ہوتا ہے وہ صبح دفتر جاتے ہوئے زیب تن ہونے کا وقت عموماً صبح کے ساڑھے آٹھ کے قریب ہوتا ہے۔ نو بجے تک پسینہ بہہ چکا ہوتا ہے اور لٹھے کا سوٹ، سوٹ کم، پکاسو کی ناسمجھ آنے والی کسی پینٹنگ کا کینوس لگنے لگتا ہے۔ دفتر میں بجلی نایاب ہونے کی صورت میں پرفیوم اور باڈی سپرے بہت یاد آتا ہے۔
(عرض کرتا چلوں پرفیوم اور باڈی سپرے موصوف کے ساتھ بیٹھے شخص کو زیادہ یاد آتا ہے۔) ہم الحمد للہ ایک مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام صفائی ستھرائی کا درس دیتا ہے مگر لوڈ شیڈنگ نے ہم مسلمانوں کی نصف مسلمانیت ختم کر کے رکھ دی ہے۔ باقی نصف ہم حکمرانوں کو نازیبا الفاظ میں یاد کر کے گنوا رہے ہیں۔ مسجدوں میں بھی پانی ناپید ہے۔ ہر نماز سے پہلے موذن اعلان کرتا ہے کہ وضو گھر سے کر کے آئیں مسجد میں پانی نہیں۔
کوئی بھلا کب تک تیمم سے کام لے…!! اب ذرا خواتین سے معذرت…! مگر قصور ان کا بھی نہیں ہے، گرمی ہے ہی بلا شے۔“ خواتین بازاروں میں یا دفاتر میں برقع اور عبایا اڑوھے نکلتی ہیں۔ عموماً یہ دونوں اشیاء سیاہ رنگ کے انتہائی موٹے کپڑے سے بنی ہوتی ہیں۔ یہ ایک سائنسی اصول ہے کہ سیاہ رنگ گرمی زیادہ جذب کرتا ہے۔ تو میرا مشورہ کہ خواتین سفید رنگ استعمال کریں چاہے روز ہی دھونا کیوں نہ پڑے۔
مگر اس کے لیے پانی کی فراوانی ضروری ہے۔ لہٰذا مجھے اگلی سطر لکھتے ہوئے ہی احساس ہوا کہ میرا مشورہ انتہائی بوگس ہے۔ دوسری طرف میں سلام پیش کرتا ہوں ہماری قوم کے نوجوانوں کو جو شدید گرمی میں کسی پارک کے کونے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھو جاتے ہیں۔ یہ رومانٹک جنونی نا جانے اتنے حبس اور گرمی میں سانس کیسے لے لیتے ہیں؟ بات کیا کرتے ہیں؟ محبت واقعی اک آگ کا دریا ہے جس میں ڈوب کر جانا پڑتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم لوڈ شیڈنگ کے عذاب مسلسل کا شکار ہے۔ مگر تھوڑی سی احتیاط اور ترکیبوں سے ہم اپنے گردو نواح کے لوگوں کی زندگی سہل کر سکتے ہیں۔ کبھی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں یا ہسپتال اور ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں انتظار کرنا پڑے تو گرمی کے ساتھ ساتھ جسم سے اٹھنے والا تعفن دم گھٹنے کا باعث بنتا ہے۔ اگر ہم سو سوا سو روپے کا باڈی سپرے استعمال کریں تو اپنے گردو پیش کے ماحول کو نسبتاً قابل برداشت بنایا جا سکتا ہے۔
خاص کر پبلک ڈیلنگ کرنے والے خواتین و حضرات اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والوں کو باڈی سپرے یا پرفیوم کا لازمی استعمال کرنا چاہیے۔ اچھے کپڑے حسین چہرے اور پرکشش شخصیت کے باوجود جسمانی تعفن کی وجہ سے سارا تاثر مٹی میں مل جاتا ہے۔
بچے قدرت کے معصوم تحفے ہوتے ہیں مگر گرمی سے بے حال یہ بچے جب صبح سکول جاتے ہیں تو وہی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی کا پنکھا برقی توانائی سے بے بہرہ جامد و ساقط کھڑا ہوتا ہے۔
ایک کمرے میں گنجائش سے زیادہ بچے ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ اچانک استاد دیکھ لے تو لگتا ہے سب عید مل رہے ہیں۔ یہ قوم کے معمار بس یہی سوچتے ہیں کہ بجلی بنانے کا طریقہ ہماری درسی کتاب میں تو بہت آسان ہے پھر ہمارے حکمران شاید انڈر میٹرک رہے ہوں گے؟
اب کچھ ذکر اس کا جو کسی دور میں میرا بھی محبوب مشغلہ تھا ہمارے پکوان…! ماضی میں غذائیں سادہ ہوا کرتی تھیں۔
سبزیاں اور لسی کا استعمال خوب ہوا کرتا تھا۔ پھر ”ستو“ کی صورت میں انرجی ڈرنک بھی موجود تھا۔ مگر اب مرغن غذائیں ہمارے دستر خوان کا حصہ بن گئیں۔ مرچیں اتنی کہ سردیوں میں گرمی کا احساس ہوتا ہے تو گرمیرں میں کیا حال ہو گا یہ سب ہی جانتے ہیں۔ ”ستو“ اور لسی کی جگہ چائے اور کافی نے لے لی۔ ماضی کی چیزیں اور غذائیں چاہے کم یا نایاب ہو گئی ہیں مگر ناپید نہیں ہوئیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ہم صبح ناشتے میں لسی کا تقاضا کریں تو ہمیں سٹیٹس کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ باہر ہوں تو ڈبے میں پیک انرجی ڈرنک ہمارا سٹیٹس سمبل بن گیا ہے کیونکہ ”ستو“ سے ذرا دیہاتی ٹچ آتا ہے۔
غریب کا کیا ہے جھونپڑی تو سالہا سال سے ایک جیسی ہی رہی ہے۔ پرانے وقتوں میں بھی اس کا سائز یہی تھا جو آج کل ہے، بس بھیک یا خدا ترسی کے نام پر جو کھانا ملتا ہے وہ بدل چکا ہے۔ سردی ہو یا گرمی غریب اپنے آپ کو سب سے بہتر ایڈجسٹ کرتا ہے۔
لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider