Episode 48 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 48 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

دہشت گردوں کا جو یار ہے……
27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے نا صرف عملی سیاست میں آنے کا اعلان کیا بلکہ ساتھ ہی ایک صورت میں طالبان کے ساتھ اعلان جنگ بھی کردیا۔ بلاول بھٹو نے طالبان سمیت تمام انتہا پسندوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ یہ دہشت گرد انسان نہیں بلکہ حیوان ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وہ ان دہشت گردوں سے کسی صورت بھی مذاکرات کی حمایت نہیں کر سکتے جو بے گناہ پاکستانیوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔
بلاول بھٹو نے شدت پسندوں کے خلاف واضح موقف اختیار کیا تو دو تاریخی واقعات کی یاد تازہ ہو گئی۔ ایک جب ذوالفقار علی بھٹو نے 15 دسمبر 1971ء بطور وزیر خارجہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا احتجاجاً بائیکاٹ کیا اور جارحانہ انداز میں کاغذ پھاڑ کر پھینک دیے اور دوسرا جب بے نظیر بھٹو نے لال مسجد کے آپریشن کے بعد ایک غیر ملکی نیوز چینل پر اس آپریشن کی حمایت کی اور وہ اس طرح شدت پسند عناصر کی ”دشمن اول“ بن گئی۔

(جاری ہے)

بلاول بھٹو نے موجودہ حکومت پر بھی تنقید کے نشتر خوب چلائے اور ساتھ ہی تحریک انصاف کی سونامی کو چند لوٹوں میں پانی ڈال کر لے گئے ”طوفان“ سے تشبیہہ دی۔ سیاسی جماعتوں سے اختلافات کو خیر جمہوریت کی ایک ”صحت افزا“ روایت ہے مگر طالبان کے خلاف بلاول بھٹو نے جو بھی کہا اس کا پس منظر کافی معنی خیز ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت میں بیت اللہ محسود کے ملوث ہونے کے چند شواہد منظر عام پر آنے کے بعد طالبان سے پاکستان پیپلز پارٹی کی نفرت ایک فطری عمل ہے۔
اگر بلاول بھٹو کی حال ہی میں کی گئی تقریر میں طالبان کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کو مدنظر رکھا جائے تو یہ امر قابل ذکر ہے کہ طالبان اور لال مسجد کا آپس میں تعلق کافی گہرا ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے لال مسجد آپریشن کیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے حکومت کے اس آپریشن کی حمایت کی تھی اسی حمایت کے بعد طالبان کی جانب سے محترمہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہونا شروع ہوئیں جو بعد ازاں حقیقت کا روپ دھار گئیں۔
بلاول بھٹو کی اپنی تقریر بیشک ان قوتوں کے لیے ایک پیغام تھی جو پہلے درپردہ اور آج کل طالبان کی کھلم کھلا حمایت پر کمربستہ ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کے فوجیوں کی شہادت کے بارے میں دیے گئے بیان کے بعد صورتحال مزید واضح ہو چکی ہے کہ عوام دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ کچھ مذہبی رہنما ابھی تک ضیاء الحق کے 80ء کی دہائی میں تخلیق کردہ نام نہاد جہادی فلسفے کے اثر سے باہر نہیں آ سکے جن میں نہ بین الاقوامی سرحدوں کی تکریم شامل ہے اور نہ ہی ملکی مفاد کو اولین ترجیح حاصل ہے۔
اس سے کافی حد تک ملتی جلتی وہ سوچ ہے جو ٹیکس نہ دینے (یا چوری کرنے)کو عین حلال قرار دیتی ہے۔ یہ اسمگلنگ کو تجارت سمجھتے ہیں (کیونکہ ان کے مطابق بین الاقوامی سرحدوں کا اسلام میں کوئی وجود نہیں)۔ اصل میں ہمارا حافظہ بہت کمزور ہے۔ سید منور حسن کے اس بیان پر آج ہمارا بے باک میڈیا کھل کر بات کر رہا ہے۔ اس بیان کا پس منظر ہماری نگاہوں سے اوجھل تھا۔
2004ء میں بعض علماء کرام کے دستخطوں کے ساتھ ایک فتویٰ جاری ہوا تھا۔ جس کی رو سے ”وانا“ میں جاری آپریشن میں حصہ لینے والے پاک فوج کے جوان اگر ”شہید“ ہو جاتے ہیں تو ان کی نماز جنازہ بھی جائز نہیں۔ اس فتوے کے بعد بہت سے فوجی جوانوں نے وزیرستان آپریشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر اس فتوے کے بارے میں زیادہ بات نا جانے کیوں نہ کی جا سکی؟ جس طرح آج سید منور حسن کے بیان کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی اور میڈیا نے اس بیان پر کئی دن تک رونق لگائے رکھی تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ 2004ء کی نسبت آج کا میڈیا بھی کھل کر بات کرنے کی پوزیشن میں ہے اور پاک فوج بھی شاید اب یہ جان چکی ہے کہ اس مخصوص سوچ سے ”یارانہ“ قومی سلامتی اور قومی مفاد کے لیے قطعاً ”غیر مناسب“ ہے۔
لال مسجد سانحہ اس وقت کی حکومت کے مطابق ”ریاست کے اندر ریاست“ قائم کرنے کے خلاف ایک آپریشن تھا ”لوگوں کو ہراساں کر کے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کا یہ طریقہ شدت پسندوں کی کوئی پہلی کارروائی نہیں تھا۔ مشرف حکومت نے لال مسجد میں چیچن اور ازبک قومیتوں کے چند افراد کی موجودگی بھی ظاہر کی تھی۔ امریکہ سمیت بہت سے ممالک کی دہشت گردی کے خلاف واضح پالیسی ہے کہ وہ دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتے۔
بات بھی ٹھیک ہے اگر آپ دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتے۔ بات بھی ٹھیک ہے اگر آپ دہشت گردوں سے چند یرغمالیوں کی جان بچانے کے لیے مذاکرات کر لیں تو ایک طرح سے یہ عمل دہشت گردوں کے لیے مزید ایسی کاروائیاں کرنے میں حوصلہ افزائی کا سبب ہو گا۔
آئین پاکستان کی رو سے آئین کو توڑنے والے غدار ہیں۔ یہی غداری کا مقدمہ آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق پرویز مشرف پر چلایا جا رہا ہے۔
اسی آرٹیکل 6 میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ آئین شکن غدار ہے۔ اور ساتھ ہی اس آئین شن کا ساتھ دینے والا بھی غدار ہے۔ اسی طرح دہشت گرد نہ آئین پاکستان کو مانتے ہیں اور کھلم کھلا ریاست پاکستان سے جنگ کر رہے ہیں۔ اس جنگ اور بربریت کا حالیہ مظاہرہ شمالی وزیرستان میں نماز میں مصروف فوجیوں کو شہید کر کے کیا گیا۔ چنانچہ اس زاویے سے دیکھا جائے تو بلاول بھٹو کا ظاہراً جذباتی نعرہ آئینی، قانونی اور زمینی حقائق کے لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے کہ ”دہشت گردوں کا جو یار ہے غدار ہے۔ غدار ہے۔“

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider