Episode 47 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 47 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

بین الاقوامی معاہدے
اسلام کی بہترین روایات اور سنہری اصولوں میں سے ایک اصول معاہدے کی پاسداری ہے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ مارچ 628ء کو حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ اور مسلمانوں کے مابین طے پایا۔ اس معاہدے کی شرائط آنحضرت محمد اور سہیل بن عمرو کے مابین کچھ یوں طے پائیں کہ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود ایک تو جنگ سے محفوظ رہے اور دوسرا اس معاہدے کے تحت اگلے برس یعنی 629ء میں مسلمان بے خوف و خطر حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کر سکے۔
اس معاہدے کی پاسداری نبی اکرم نے خود فرمائی۔ اگرچہ یہ معاہدہ ظاہری طور پر یکطرفہ تھا (مسلمانوں نے کفار کی اکثر شرائط تسلیم کر لی تھیں) مگر اس معاہدہ کی پاسداری کی صورت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوئی اور اسلام کی اشاعت کا کام مزید آسان ہو گیا۔

(جاری ہے)

صلح حدیبیہ میں طے پایا کہ مکہ مکرمہ سے اگر کوئی شخص قبول اسلام کے لیے مدینہ آئے گا تو اسے مشرکین مکہ کی جانب واپس بھیج دیا جائے گا۔

ابھی معاہدے طے پایا ہی تھا کہ ابو جندل نامی نوجوان (جو مسلمان ہو چکے تھے اور قریش مکہ کی قید میں تھے) بھا گ کر حضور اکرم کے پاس آ گئے مگر نبی پاک نے معاہدے سے روگردانی نہ کی اور انہیں قریش مکہ کو واپس کر دیا۔ اس معاہدے کے بعد ”سورة فتح“ نازل ہوئی جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس صلح کو ”فتح مبین“ قرار دیا۔ تاریخ اسلام اس معاہدے کو صلح حدیبیہ کے نام سے جانتی ہے۔
71ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد حالات بہت دگرگوں صورتحال اختیار کیے ہوئے تھے۔ 2 جولائی 1972ء میں شملہ کے مقام پر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے مابین ”شملہ معاہدہ“ طے پایا جس کے نتیجے میں پاکستان کے تقریباً نوے ہزار فوجی بھارتی قید سے آزاد ہوئے اور ساتھ ہی 17 دسمبر 1971ء کو ہوئے سیز فائر کے نتیجے میں جموں و کشمیر لائن آف کنٹرول کو دونوں ممالک نے تسلیم کر لیا۔
اس کے علاوہ معاہدے کی رو سے طے پایا کہ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا فروغ ہو گا اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی دونوں ممالک تعاون کریں گے۔ باہمی اختلاف دونوں فریقین ہی حل کریں گے اس میں کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی منفی پروپگنڈے میں نہ شامل ہوں گے اور نہ ہی اسے تخلیق کریں گے۔
دونوں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کی خودمختاری کا مکمل احترام کریں گے۔
مگر آج صورت حال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ بھارت میں اگر کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو بھارتی دفتر خارجہ اور وزارت داخلہ فوراً الزام پاکستان پرہی عائد کرتے ہیں۔ جبکہ ہم خود افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ اکثر عسکری اور خارجہ امور کے ماہرین پاکستان میں جاری دہشت گردی کو بھی ”را“ اور ”موساد“ کا گٹھ جوڑی ہی سمجھتے ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے کی جانے والی شدت پسندی کی کارروائیوں میں بھی ”را“ کے ملوث ہونے کا الزام لگتا ہے۔ اعتماد کا فقدان ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت مسلسل اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیے جا رہے ہیں۔ دونوں جانب یہ سوچ عام ہے کہ بھارت میں ہوئی ہر دہشت گردی میں پاکستان اور پاکستان میں ہوئی ہر دہشت گردی میں ”را“ ملوث ہے۔
اس رویہ کے پیچھے مسئلہ کشمیر بنیادی وجہ تصور کی جاتی ہے۔
ہم یہ بات ناجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ 71ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان گنوا دینے کے بعد ہم نے شملہ کے مقام پر اپنے بہت سے مطالبات ”نامنظور“ ہی چھوڑ کر خود کو سرنڈر کر دیا تھا۔ کشمیر کے بارے میں شملہ معاہدے میں واضح تحریر ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت باہمی سطح پر بغیر کسی تیسری قوت کے ہی حل کریں گے۔
مگر ہم ناجانے کیوں آج بھی اقوام متحدہ کو شامل کرنے کی بات کرتے ہیں؟ ہمارے سیاستدان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کبھی امریکہ کی ثالثی کی مطالبہ کرتے ہیں تو کبھی عوام کی امیدیں اقوام متحدہ سے منسلک کر دیتے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ شملہ معاہدے کی رو سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے سوا کسی بھی تیسری طاقت کی شمولیت کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
نا جانے ہمارے سیاسی رہنما عوام کو حقائق کیوں نہیں بتاتے اور مسلسل لال بتی کے پیچھے کیوں دوڑا رہے ہیں؟ ہمیں اور ہمارے سیاستدانوں کو قوم سے سچ بولنا ہو گا کہ کشمیر کے مسئلہ میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ اب جو بھی معاملات طے ہوں گے وہ بھارت اور پاکستان کو خود ہی طے کرنے ہیں۔
ہماری مغربی سرحد پر افغانستان واقع ہے۔
14 اپریل 1988ء کو ہوئے ”جنیوا معاہدے“ کے تحت پاکستان یا افغانستان کسی طور بھی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ مگر یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہم افغانستان میں کس قدر مداخلت کرتے آئے ہیں۔ اس ”جنیوا“ معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی ہم آج دہشت گردی جیسے ناسور کا شکار ہیں۔ مگر پھر بھی پاکستان کے کچھ طاقتور حلقے افغانستان میں "Strategic Depth" کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں بدقسمتی سے ان دو معاہدوں (شملہ معاہدہ جنیوا معاہدہ) کے بارے میں عوام کو شدید ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لاعلم ہی رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں مارشل لاء اور ادوار انتہائی طویل ہونے کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی پر اس کے اثرات بہت نمایاں رہے ہیں۔ آمرانہ ادوار میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ ذرا غور کیجئے اگر ایک لوہار اپنے بیمار لخت جگر کا علاج کسی قابل ڈاکٹر کے بجائے خود کرنے کی ٹھان لے تو اس کے مخلصانہ جذبات اپنے لخت جگر کو فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنیں گے۔
اسی طرح ملک کی تمام پالیسیاں، بشمول خارجہ پالیسی بنانا سیاستدانوں کا کام ہے کسی اور ادارے کا نہیں۔ آپ یقینا اپنے علاج کے لیے کسی قدرے نالائق ڈاکٹر کو کسی بہترین لوہار پر ترجیح دیں گے۔
اسی طرح ایک تجارتی نوعیت کا معاہدہ ایران اور پاکستان کے مابین طے پایا۔ اس معاہدہ کے تحت پاکستان کو اپنے حصے کی پائپ لائن 2014ء تک مکمل کر کے گیس لینا شروع کر دینا تھی۔
مگر زمینی حالات یہ ہیں کہ پاکستانی کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو سنگین توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الوقت بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کی اہمیت پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی ہے۔ آج کی جدید ریاست کے لیے بین الاقوامی معاہدوں سے رو گردانی کرنا بین الاقوامی سطح پر انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ پاکستان کو بھارت سے کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات کو شملہ معاہدے کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں افغانستان کے اندرونی معاملات مداخلت سے اجتناب برتنا چاہیے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider