Episode 49 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 49 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

نماز، روزہ اور حج
میں دنیا کو روک سکتا ہوں۔ صرف میں ہی نہیں ہر مسلمان یہ کام دن میں ایک آدھ مرتبہ بھی نہیں بلکہ پانچ مرتبہ کر سکتا ہے۔ جب ہم نماز کی نیت کر کے قبلہ رخ کھڑے ہوتے ہیں تب پوری دنیا ہمارے لیے رک جاتی ہے۔ زندگی ٹھہر جاتی ہے۔ دنیا بھر کی چاہت ہر لذت، ہر خوشی اور ہر پریشانی بے نیاز ہو کر ہم محض خدائے بزرگ و برتر کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی حمد ثناء میں ہمہ تن گوش ہوتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کے دل میں یہ تمنا ضرور مچلتی ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح اس دنیا کو فتح کر لیں۔ یہ انتہائی آسان کام ہے۔ ہم اگر دنیا کی چاہت چھوڑ دیں تو ہم بآسانی دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ جب ہم نماز کی نیت کر چکتے ہیں تو دنیا کی ہر شے ساکت ہو جاتی ہے۔ ہم دنیا کو اس کی اوقات پر لے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی بات نماز ہمیں دن میں پانچ بار بتاتی ہے کہ یہ دنیا آپ کی مالک نہیں ہے بلکہ آپ اس دنیا کے مالک ہیں۔

جیسے مالک خادم کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ خادم اپنے مالک کا منتظر ہوتا ہے۔ اسی طرح نماز کی منتظر دنیا ہوتی ہے نا کہ نمازی دنیا کا منتظر ہوتا ہے۔ نمازی دنیا کو نماز کے وقت ٹھکرا کر خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی سوچ کو مادی دنیا سے نکال کر روحانیت کے محور میں بند کر لیتا ہے۔ نماز کے وقت دنیا کو ترک کرنا انسان کی فتح اور دنیاوی معاملات کا انسانی سوچ پر حاوی آ جانے سے نماز کو ترک کرنا انسان کی شکست ہے۔
گھر میں شادیانے بج رہے ہوں تب ہم خوشی کو روک کر نماز ادا کرتے ہیں۔ اگر میدان جنگ میں وقت نماز آن پہنچے تو ہم ہر خوف ہر رنج کو بالائے طاق رکھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔ ہم اپنے کمزور ایمان کے ساتھ جب نماز پڑھتے ہیں تو دل میں نا جانے کون کون سے وسوے امڈ آتے ہیں۔ مگر ہم ان پر قابو پا کر اپنی نماز مکمل کرتے ہیں۔ نماز ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم نے عام روز مرہ حالات میں اپنے ذہن کو اور اپنی حرکات کو کس طرح کنٹرول کرنا ہے۔
 
بے شک مصروف زندگی نماز کو مشکل بنا دیتی ہے۔ مگر نماز مصروف زندگی کو آسان کر دیتی ہے۔ پریشانی یا اضطراب کی صورت میں ہم کبھی ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں تو کبھی کسی عامل بابا کے دربار میں بار بار حاضریاں لگواتے ہیں۔ کبھی اضطراب کو ختم کرنے کے لیے خواب آور گولیاں پھانکتے ہیں تو کبھی عامل بابا کے مشورے سے چلے کاٹتے ہیں۔ کبھی کسی مزار پر ماتھا رگڑتے ہیں تو کبھی نجومیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
مگر علاج مکمل نہیں ہوتا۔ زندگی کی مصروفیات میں اکثر ہمیں اپنی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علم نہیں رہتا۔ مثلاً ایک کاروباری شخص جب اپنے کاروبار کے سلسلے میں مصروف ہوتا ہے۔ تب اسے محض دنیا داری کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ مگر جیسے وہ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو دنیاداری ختم ہوتے ہی اسے اپنے جملہ روحانی اور جسمانی عارضوں کا احساس ہونا شروع ہوتا ہے۔
گویا نماز انسان کو خود اپنی ذہنی، جذباتی اور روحانی کیفیات جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک دفعہ یہ جاننے کے بعد انسان اپنی غیر معمولی کیفیت کو درست کرنے کے اقدامات کر سکتا ہے۔ اگر انسان کو اپنی کیفیات سے ہی آگاہی نہ ہو تو وہ کیسے اس کی درستگی کا سوچ بھی سکتا ہے؟ اقبال نے خوب کہا ہے کہ #
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ عالی شان ہے کہ جسم میں ایک عضو ایسا ہے کہ اگر یہ عضو تندرست تو انسان تندرست، اگر یہ عضو بیمار تو انسان بیمار، یہ عضو دل ہے۔
بہت سی مستند تحقیقات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نماز بے شک دل کی بیماریوں سے بچاتی ہے۔
اب جب میں نے تحقیق کی بات کی ہے تو پھر ایک اور تحقیق آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں ایک کمرے میں چند بچوں کو ایک چاکلیٹ دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ اگر وہ چاکلیٹ دو گھنٹے تک نہیں کھائیں گے تو انہیں بطور انعام ایک اور چاکلیٹ ملے گی اور جو اسے کھالیں گے تو انہیں کوئی مزید چاکلیٹ نہیں ملے گی۔
کچھ بچوں نے چاکلیٹ کو دیکھ کر صبر نہ کیا اور کھا لی۔ کچھ ایسے تھے جو دوسری چاکلیٹ آنے کی وجہ سے وہ پہلی چاکلیف سینے سے لگاے بیٹھے رہے۔ چند سالوں بعد جب یہی تمام بچے اپنی پریکٹیکل لائف میں گئے تو وہ بچے جو پہلی چاکلیٹ کھا گئے تھے وہ کچھ زیادہ ترقی نہیں کر پائے اور جنہوں نے دوسری چاکلیٹ کے حصول کے لیے پہلی نہیں کھائی ایسے بچے زیادہ مستحکم اور عملی زندگی میں زیادہ کامیاب ثابت ہوئے۔
اس لمبی تمہید کا مقصد یہ بات بار آور کروانا تھا جب ہم اپنی قلیل المدتی خوشیوں کو طویل المدتی خوشیوں کے لیے قربان کرنا سیکھ لیں تب ہم نسبتاً زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بالکل یہی سبق ہمیں ”روزہ“ سکھاتا ہے۔ 
ر وزہ انسان کو اپنی جسمانی خواہشات کو کچھ دیر کے لیے موخر کرنے کا طریقہ بتاتا ہے۔ اپنی لمحاتی خواہشات اور اس سے منسلک لمحاتی خوشیوں کو اپنی بڑی خواہشات اور بڑی خوشیوں کے حصول کے لیے کچھ دیر موخر کر دینا انسان کی اپنی شخصیت میں کئی مثبت تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔
مثال کے طور پر ہم جتنا کماتے ہیں اتنا ہی خرچ کر دیتے ہیں تاکہ ہمیں وقتی آرام میسر آ جائے۔ اگر ہم کچھ پیسے جمع کریں اور تھوڑا خرچ کر کے مستقبل میں اسی جمع شدہ رقم کو کسی اچھی جگہ انویسٹ کر کے خطیر رقم کما کر خوشیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ انسان کے جسم کی ساکھ ایسی ہے کہ اسے جس تناسب سے خوراک دی جائے یہ اسی خوراک کا عادی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسانی جسم کو کچھ وقت کے لیے خواہشات سے علیحدہ کرنے کا مطلب ہی ”روزہ“ ہے۔
ر وزے کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ڈسپلن لا سکیں۔ اپنی زندگی میں ہم جن اشیاء پر انحصار کرتے ہیں ان کا پتہ لگا سکیں اور غیر ضروری انحصار سے پرہیز کرنا سیکھیں۔ ایک سابق آمر نے ”احترام رمضان آرڈیننس اس لیے جاری کیا کہ مسلمانوں کی روزہ کی حالت میں ”بے ادبی“ نہ ہو سکے۔ روزہ دار کا اصل امتحان ہی یہ ہے کہ وہ چیزوں کو اپنے سامنے پا کر بھی انہیں نا کھائے تو پھر اس آرڈیننس کی منطق میری سمجھ سے ماورا ہے۔
 مارشل میک لاہن (Marshall Mcluhan) نے 1962ء میں گلوبل ویلیج کا نظریہ پیش کر کے تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس کے مطابق دنیا کی تمام ثقافتیں اب تقریباً ہر مقام پر یکساں ہی نظر آئیں گی۔ یعنی ایشیاء کی ثقافت اب یورپ اور امریکہ کے لیے اجنبی نہیں رہی اور نہ عرب کی ثقافت افریقہ وغیرہ کے لیے اجنبی ٹھہری۔ مگر اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی پوری دنیا کے گلوبل ویلج ہونے کا نظریہ پیش کر دیا تھا۔
اس کی عملی صورت ہمیں ہر حج بیت اللہ کے موقع پر نظر آتی ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان حجاز مقدس آتے ہیں اور مختلف معاشروں میں پرورش پانے کے باوجود ایک ہی طریقے کا لباس زیب تن کرتے ہیں اور ایک ہی قسم کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دین میں شامل بہت سی بدعات کی حوصلہ شکنی بھی اس عبادت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
حج ہمیں یہ معلومات دیتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کیا ہیں۔ آج بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں مسلمان شاید اب تک زمانہ جاہلیت میں جی رہے ہیں۔ عورتوں کو گھروں میں قید رکھنے کی جاہلانہ رسوم کی بھی حج حوصلہ شکنی کرتا ہے کہ ہر مرد پر لازم ہے کہ اگر وہ استطاعت رکھتا ہے تو اپنی خواتین کو حج ضرور کروائے۔ اپنا گھر، محلہ، شہر اور ملک چھوڑ کر خواتین کو حج کروانا مرد پر واجب ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں نام نہاد اسلامی سکالرز ” خواتین کے پردے“ کے حوالے سے اختلافات کا شکار ہیں۔ ہر اسلامی ممالک کو بلاشبہ خواتین کے اس ”حجاب“ کو معیار مقرر کر لینا چاہیے جو حج کے دوران خواتین کی زینت ہوا کرتا ہے۔ اس بارے واضح احکامات موجود ہیں۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider