Episode 26 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 26 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

پاک بھارت کشیدگی اصل وجہ…؟
اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 19 فروری 1999ء کو دہلی سے براستہ واہگہ بارڈر لاہور پہنچ گئے۔ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی کابینہ کے خاص وزراء کے ساتھ وزیراعظم واجپائی کا استقبال کیا۔ دوستی بس سروس کا باقاعدہ آغاز 16 مارچ 1999ء کو ہوا۔ اس سے قبل 1998ء میں دونوں پڑوسی ممالک نے دنیا بھر کے سامنے خود کو الگ الگ جوہری طاقت ثابت کرنے کے لیے ایٹمی دھماکے کیے جن کے بعد سفارتی اور فوجی سطح پر حالات انتہائی کشیدہ صورت حال اختیار کر گئے۔
مگر عالمی ثالثوں اور خود پاکستانی حکومت کی رضا مندی سے بس ڈپلومیسی کا آغاز ہوا اور کشیدگی کی صورت حال میں خاطر خواہ کمی بھی واقع ہوئی۔ اپنے اس دورے کے دوران وزیراعظم واجپائی نے 21 فروری 1999ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے لاہور اعلامیے پر دستخط کیے۔

(جاری ہے)

یہ اعلامیہ 1972ء میں شملہ معاہدے کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین طے پانے والا پہلا انتہائی اہم سیاسی معاہدہ تصور ہوتا ہے۔

بلاشبہ اس معاہدے نے پوکھران (بھارت) اور چاغی (پاکستان) میں ہوئے ایٹمی دھماکوں کے اثر کو کم ضرور کر دیا۔ مگر یہ ”دوستی“ کی صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی تقریباً تین ماہ بعد مئی 1999 ء میں کارگل کے محاذ پر ایک محدود جنگ چھڑ گئی۔ لداخ اور سری نگر کا واحد زمینی راستہ کارگل سے ہی گزرتا ہے بھارتی افواج کے لیے سیاچن کے محاذ پر فوجی کمک و رسد کے لیے کارگل ہی واحد راستہ ہے۔
پاکستان کا موقف بہت واضح تھا کہ کارگل کے محاذ پر مجاہدین بھارتی افواج سے جنگ میں مصروف ہیں مگر اس نقطہ نظر کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ یہ بہت حیران کن امر تھا کہ پاکستانی وزیراعظم ایک طویل ڈپلومیسی کے ذریعے بھارتی وزیراعظم کو پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر چند ماہ بعد ایک جنگ چھیڑ دی گئی۔ اس کارگل جنگ کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کو چلتا کیا اور خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔
میاں صاحب کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس آپریشن کے بارے میں ایک مبہم نوعیت کی بریفنگ ضرور دی گئی مگر نہ تو میاں صاحب کو اس کاروائی کے مکمل مضمرات سے آگاہی حاصل ہوئی اور نہ ہی ان کی رضا مندی اس میں شامل تھی۔ یہ خالصتاً جنرل مشرف اور ان کے رفقاء کا ایڈونچر تھا جس کا خمیازہ کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑا۔
اس واقعہ کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی میں اعتماد کا ایسا فقدان پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بدتر ہی ہوتا چلا گیا۔ نقصان شاید جنگ کے دوران پاکستان کا بھارت کی نسبت کم ہوا ہو مگر جنگ کے ہماری جمہوری معاشی اور بین الاقوامی سفارتی سطح پر نقصانات کی فہرست طویل ہوتی رہی۔
پھر 24 دسمبر 1999ء کو ائیر انڈیا کی فلائٹ 814 آئی سی کھٹمنڈو سے دہلی کی جانب اڑان بھرنے کے بعد ہائی جیک ہو گئی اور امرتسر سے ہوتی ہوئی دبئی اور بالآخر قندھار (افغانستان) میں لینڈ کروا دی گئی۔
مبینہ طور پر ایک کالعدم تنظیم نے اس طیارے کو 176 مسافروں سمیت ہائی جیک کیا ان ہائی جیکرز کا مطالبہ تھا کہ بھارت کشمیر سے گرفتار کیے گئے مجاہدین کے چند کمانڈروں کو رہا کرے۔ جو بالآخر سات روز بعد رہا کر دئیے گئے ان میں مشتاق احمد زرگر احمد امیر شیخ اور مولانا مسعود اظہر شامل تھے۔ مشتاق احمد زرگر کا تعلق کشمیر سے تھا۔ احمد عمر شیخ برطانوی نژاد پاکستانی پر 2002 میں مشہور امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا کراچی میں بیہمانہ قتل کا الزام تھا، مولانا مسعود اظہر کا تعلق بہاولپور سے ہے۔
13 دسمبر کو نئی دہلی میں ہوئے ایک اور دہشت گرد حملے پر بھارت نے الزام پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں پر عائد کیا۔ اس بار یہ حملہ بھارتی پارلیمنٹ پر 5 دہشت گردوں نے کیا جس کی ذمہ داری جیش محمد نامی تنظیم نے قبول کی، یہ تنظیم انہی مولانا مسعود اظہر نے قائم کی تھی (جن کا ذکر طیارہ ہائی جیک میں ہو چکا) ان تمام تر بے اعتمادیوں کے بعد 2002ء میں ہوئی سارک کانفرنس کے موقع پر جنرل مشرف نے اٹل بہاری واجپائی سے مصافحہ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
اس ایک مصافحہ نے کئی سالوں پر محیط بے اعتمادی کی فضا کو قدرے کم کر دیا۔ مگر پھر 2008ء میں ہوئے ممبئی حملوں نے دونوں ممالک میں خلیج مزید بڑھا دی۔
اس اعتماد کے فقدان میں مزید اضافہ حال ہی میں بھارتی فوجیوں کے سر قلم کر دیے جانے کے واقعہ کے بعد ہوا۔ صورت حال وہی پرانی ہے۔ میاں نواز شریف کو حکومت میں آئے بھی چند ماہ بھی نہ گزرے کہ ”طاقتور“ حلقوں نے اپنا اثرو رسوخ دکھانا شروع کر دیا۔
میاں نواز شریف اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی باتیں کرنے آ رہے ہیں۔ پھر حلف اٹھانے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا۔ پاکستان میں جاری توانائی کے بحران کو حل کرنے میں بھی بھارت کی مدد لینے کی تھان لینے کے بعد کچھ وفد کا تبادلہ بھی ابھی ہونا تھا کہ یہ دالخراش واقع رونما ہو گیا اور اب گاہے بگاہے سرحد پر مختلف مقامات پر جھڑپیں معمول بن گئی ہیں۔
یہ توجہ طلب بات ہے کہ جب بھی کوئی جمہوری حکومت بھارت اور افغانستان کے ساتھ دیر پا عمل شروع کرنے کا ارادہ ہی کرتی ہے تو مشرقی یا مغربی سرحدوں پر صورت حال کشیدہ ہو جاتی ہے۔ ان حالات کی خرابی کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں اس پر شائد کبھی کوئی قرطاس ابیض (وائیٹ پیپر) شائع کرنے کی ہمت کر لے۔ ذرا غور کریں میاں صاحب نے ہندوستان سے بجلی کی خواہش ظاہر کی۔
ایک مستحکم پاکستانی بینک انڈیا میں اپنی برانچیں کھولنے کے لیے پرتول رہا تھا۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی بزرگ شہریوں کو بھارت میں قیام کے دوران پولیس رپورٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ پاکستانی افواج نے (گرین بنک 2012-13) میں مشرقی بارڈر (بھارت) کے ساتھ مغربی بارڈر (افغانستان) کی جانب توجہ مبذول کرنے کی بات بھی کی نتیجتاً بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات امن کی طرف بڑھ رہے تھے۔
اس جملہ پیش رفت کا منطقی انجام دونوں ممالک کے دفاعی بجٹ میں کمی اور مسلح غیر سرکاری گرہوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچنا ہونا تھا۔ یہ صورتحال ان مخصوص ریاستی اور بالخصوص غیر ریاستی عناصر کے لیے ناقابل برداشت تھی، آخر کون اپنا چولہا ٹھنڈا کرنا گوارا کرتا ہے خاص کر ایسے ملک میں جہاں حصول رزق حلال انتہائی مشکل ہو۔ ہمارے ملک کے ”طاقتور ترین“ حلقے ہمیشہ سے مبینہ طور پر طالبان اور مجاہدین گروپس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
افغان جنگ کے دنوں میں یہ مجاہدین ریاست کی، لاڈلی اولاد، تصور ہوتے تھے۔ ان طاقتور حلقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ افغانستان پر ہر حال میں کنٹرول انہی قوتوں کا رہے۔ افغان جنگ کے دنوں میں تربیت یافتہ مجاہدین اب درجنوں عسکری تنظیمیں بنا چکے ہیں۔ جو خود پاکستان کی ریاست کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنے کی وجہ بھی شائد یہی ہے کہ 2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانستان پر انہی قوتوں کی مدد سے اپنا اثرو رسوخ قائم رکھا جا سکے۔
اسی (80) کی دہائی میں پا لے گئے لاڈلوں نے 90ء کی دہائی سے اب تک جو گل کھلائے ہیں شائد اس سے ہمارے، مالک مکانوں، نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ان عقل کل لوگوں کی صلاحیتوں نے ملک کو دو لخت کر دیا اور آج حالت یہ کہ پاکستان کا کوئی گلی کوچہ محفوظ نہیں ہ ے۔ مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار احمد نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کوئٹہ میں حال ہی میں اپنی جنگ ہونے کی سند جاری کر دی ہے۔
امید ہے کہ چند دنوں میں بننے والی سکیورٹی پالیسی سیاست کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی کا براہ راست تعلق وزارت خارجہ اور وزارت دفاع سے ہے۔ مگر یہ دونوں قلمدان محترم وزیراعظم کے پاس ہیں تو کیا یہ صورت حال میاں صاحب کی مستقبل میں بھارت کے لیے امن اور مفاہمت پر مبنی پالیسیوں کا جواب ہیں یا امتحان؟

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider