Episode 32 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 32 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

دہشت گردی کا کیا ہو گا……؟
چند دن قبل ایک محفل میں میری ملاقات سکیورٹی ادارے کے ایک سابق آفیسر سے ہوئی۔ موصوف حال ہی میں انتہائی اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ باتوں باتوں میں ملک میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت کے دوران محترم سابق ”اعلیٰ“ آفیسر صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ملک میں خصوصاً شمالی علاقہ جات اور وزیرستان میں موجود مسلح گروہوں میں سے چند ایسے گروہ ہیں جو قیمتی سرمایہ ہیں یہ افراد پاکستان کے خلاف کسی بھی ممکنہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ ماضی میں کر بھی چکے ہیں۔
یہ گروہ انتہائی منظم اور پیشہ وارانہ جنگی امور پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ سابق آفیسر کی بات سن کر ہمارے ایک اور دوست نے کہا کہ اگر یہ مسلح گروہ اتنے ہی منظم اور پیشہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن بھی ہیں تو فوج کی کیا ضرورت ہے، ملک کا دفاع ان مسلح گروہوں کے سپرد ہی کر دینا چاہیے۔

(جاری ہے)

کم خرچ بالا نشین فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ملک میں معاشی خوشحالی بھی آ سکتی ہے اور مارشل لاء کے خوف سے آزاد جمہوری حکومتیں بھرپور طریقے سے امور حکومت انجام دے سکتی ہیں۔

پھر بحث طویل ہوئی اور وہی ہوا جب قیامت کا ذکر چھیڑتے ہیں تو بات کسی کی جوانی تک چلی جاتی ہے۔ یعنی بات ان مسلح گروہوں اور پاکستان میں جاری دہشت گردی میں ایسی الجھی کہ محفل برخاست ہوئی مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔
اگر تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو وطن عزیز میں جاری دہشت گردی 80 اور 90 کی دہائی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی تک محدود ہوا کرتی تھی۔
مگر 9/11 کے بعد اس کا دائرہ کار بڑھ گیا۔ بات اب فرقہ وارانہ دہشت گردی سے بڑھ کر ریاست مخالف دہشت گردی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ 9/11 کے بعد امریکی صدر بش نے واضح حکمت عملی کا اعلان کیا کہ ”یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا مخالف ہیں۔“ ہماری ہاں شدت پسندوں کے فلاسفی بھی قدرے یہی رہی ہے کہ جوان کی حمایت کرے وہ ان کا ساتھی جو مخالفت کرے وہ کافر اور دشمن جو شدت پسندوں کی نافذ کردہ خود ساختہ شریعت کو من و عن تسلیم کرے گا وہی اپنی جان کی امان پائے گا اور جو ان کے مخالفین کے ساتھ محض رسمی تعلقات بھی رکھے گا وہ ان کا دشمن تصور ہو گا۔
اسی طرح ان شدت پسندوں کا مذہبی اقدار کی رو سے پاکستان میں قائم جمہوری حکومتیں اور آئین پاکستان غیر اسلامی ہیں اور ہماری افواج چونکہ اس آئین کی پابند ہیں لہٰذا وہ بھی ان شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر آ گئیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ابھی تک امن معاہدوں کی بات کی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کن بنیادوں پر یہ معاہدے ہوں گے؟
11 مئی کو ہوئے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کی بھاری مینڈیٹ والی حکومت نے حال ہی میں کل جماعتی کانفرنس بھی کر ڈالی۔
مشترکہ اعلامیے میں عسکریت پسندوں کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کی شرط بھی شامل تھی۔ کیا آئین پاکستان اس بات کی اجازت فراہم کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ امن مذاکرات کیے جائیں؟ آئین پاکستان کی رو سے کوئی بھی شخص اگر قانون یا آئین کو پامال کرے گا اسے قرار واقعی سزا ضرور ملے گی۔ چوری پر بھی سزا ہے اور قتل دہشت گردی پر بھی۔ سزائیں ضرور مختلف ہو سکتی ہیں مگر مجرم کے ساتھ مذاکرات کی آئین میں کوئی اجازت نہیں ہے۔
کل جماعتی کانفرنس کے بعد جاری کردہ اعلامیے کی آئینی و قانونی حیثیت مشکوک ہے۔ لہٰذا اعلیٰ عدلیہ اس پر نوٹس لے سکتی ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دہشت گردوں سے غیر آئینی معاہدے کرے اور انہیں ماورائے قانون آزاد بھی کر دے۔ مذاکرات سے قبل ہی طالبان کی طرف سے دو ایسی شرائط سامنے آ گئیں جو ناقابل فہم ہیں۔ پہلی یہ کہ گرفتار طالبان رہنماؤں کو رہا کر دیا جائے اور فاٹا سمیت شمالی علاقہ جات سے فوج کو فوری واپس بلایا جائے۔
اس کا تو صاف مطلب یہ ہوا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ فوج اپنے ہی ملک کی سرزمین ان کے حوالے کر دے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مذاکرات کی ضرورت کسے ہے؟ کیا یہ پاکستان کی فوج اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ حکومت پاکستان غیر مشروط مذاکرات پر تلی ہوئی ہے؟ حقائق کی بنیاد پر پاکستانی افواج اور طالبان کی صلاحیتوں کے مابین غیر جذباتی تقابلی جائزہ لیتے ہوئے مجھے ایک سینئر فوجی اہلکار سے چند سال پہلے ہوئی ملاقات یاد آ رہی ہے۔
اس ملاقات میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ سوات سے شدت پسندوں کا خاتمہ کرنا پاک فوج کے لیے اتنا مشکل کام نہیں کہ جس حد تک حکومت کمزوری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ مئی 2009ء میں شروع ہوئے آپریشن راہ راست میں سوات سے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا۔ پاک جری فوج یہاں بھی نہ رکی اور 19 جون 2009 کو آپریشن ”راہ نجات“ کا جنوبی وزیرستان میں آغاز ہوا۔
اور پاک فضائیہ نے بمباری کرتے ہوئے شدت پسندوں کو تہس نہس کر دیا۔ اس بمباری میں جے ایف 17 تھنڈر اور F-16 طیاروں نے بھرپور شرکت کی اور 12 دسمبر تک جنوبی وزیرستان کو شدت پسندوں کے تسلط سے واگزار کروا لیا گیا۔ پھر نجانے کیا ہوا ہماری افواج شمالی وزیرستان کے بارڈر پر جا کر رک گئی۔ اگر شمالی وزیرستان سمیت چھوٹے موٹے اور علاقوں سے بھی شدت پسندوں کا اسی آپریشن کے تسلسل میں صفایا کر دیا جاتا تو پورے پاکستان کو شدت پسندی کے عفریت سے نجات دلوائی جا سکتی تھی۔
پر ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یہی سوال چند ماہ قبل ایک فوجی افسر (جو فاٹا میں دوران آپریشن اپنی خدمات دے چکے تھے) سے میں نے پوچھا کہ آپ نے اتنی قربانیاں دے کر جوانمردی سے سوات اور جنوبی وزیرستان کو شدت پسندوں سے پاک کر دیا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ آپ شمالی وزیرستان میں داخل نہیں ہو سکے؟ موصوف نے کہا کہ شمالی وزیرستان انتہائی دشوار گزار اور وسیع علاقہ ہے۔
ان کا یہ جواب مجھے ہضم نہ ہوا۔ مبینہ طور پر شمالی وزیرستان سے اجتناب کی وجہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے گروپ کی موجودگی تھی۔
جب دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کی حکومت شدت پسندوں سے غیر مشروط مذاکرات کی بات کرتی ہے۔ تو ہر غیرت مند پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارے ایک سینئر صحافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ جن طالبان کو اپنے جذبہ ایمانی کی وجہ سے امریکہ جیسی سپر پاور شکست نہیں دے سکی تو پاکستان کی افواج کیسے شکست دے سکتی ہے؟ موصوف کی بات میں تو دم ہے۔
پر شاید وہ بھول گئے کہ یہ جذبہ ایمانی افغان مجاہدین کو پاک فوج سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوا تھا اور آج کے طالبان کا ان مجاہدین کی ہی باقیات ہیں۔ تو جذبہ ایمانی کا حقیقی سرچشمہ تو گویا پاکستانی فوج اور اس کے ادارے ٹھہرے لہٰذا پاک فوج کا امریکہ سے موازنہ کرنا غیر مناسب ہے۔ چند دنوں کے دوران خوش بختی ہماری قوم کی رہی ہے کہ دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک مکتبہ فکر کے مطابق اس کی وجہ میاں صاحب کے عرب ممالک کے ساتھ بہترین مراسم بھی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں عرب ممالک کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ دلیل کے طور پر خود طالبان نے مذاکرات سے قبل امام کعبہ کی گارنٹی بھی طلب کی ہے۔ شاید دوسری وجہ ملک میں دہشت گردی میں کمی کی یہ بھی ہے کہ وہ دہشت گرد جو ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں جیل سے فرار ہوئے اور ان کے دیگر بیشتر ساتھی مبینہ طور پر ”شام“ میں بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایکسپورٹ ہو چکے ہیں۔
یہ خبریں بھی ذرائع سے ملتی ہیں کہ شامی فوج نے یہاں سے گئے زیادہ تر دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
میں پہلے بھی اور آج بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ بالآخر فوج کو ایک بھرپور آپریشن کرنا ہی ہو گا۔ ایسی ہی خاموشی پہلے 2007 والے سوات آپریشن سے قبل بھی تھی۔ مگر ابھی آپریشن جاری ہی تھا کہ وکلا تحریک شروع ہو گئی اور آپریشن روکنا پڑا۔ پھر مذاکرات ہوئے جو بے نتیجہ رہے۔ مگر ان مذاکرات کا فائدہ شدت پسندوں کو زیادہ ہوا کیونکہ انہیں ایک بار پھر منظم ہونے کا وقت مل گیا۔ اب بھی خدانخواستہ شدت پسند مذاکرات میں الجھا کر خود کو منظم کرنا چاہ رہے ہوں گے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider