Episode 9 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 9 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

کنفیوژن
بنیادی طور پر پاکستان کا ہر باشعور شہری وطن عزیز سے متعلق بہت سے معاملات کے بارے میں مسلسل ابہام کا شکار ہے۔
پاکستان میں لبرل اور سیکولر سیاست کی ابتداء ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور مسٹر بھٹو ہی اس طرز سیاست کے علمبردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مگر 70 کی دہائی میں جنرل نصیر اللہ بابر نے انہی بھٹو صاحب کے احکامات کی روشنی میں گلبدین حکمت یار کی بھرپور معاونت کی اور اس طرح افغانستان میں اسلامی بنیاد پرست تنظیم ”حزب اسلامی“ وجود میں آ گئی۔
تو بنیادی طور پر اس خطے میں اسلامی شدت پسندی کی بنیاد کیا بھٹو صاحب کے سر جاتی ہے؟ پھر یہی نصیر اللہ بابر ”لبرل اور پروگریسو“ بے نظیر حکومت میں 93 سے 96 تک ملک کے وزیر داخلہ رہے۔ اور اسی دوران 1995ء میں پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان افغانستان میں نمودار ہو گئے۔

(جاری ہے)

حیران کن بات یہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی انہی طالبان کی ہٹ لسٹ پر ہے۔

اکثر ٹاک شوز میں ن لیگ کے عہدیداران پچھلی حکومت کی کارکردگی پر تقریباً نوحہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
چاہے مسئلہ ”گڈگورننس“ کا ہو یا قومی مالیاتی مسائل کا، صحت عامہ کی دگرگوں حالت ہو یا پھر بے روزگاری، ن لیگ کی قیادت ہر وقت اس بات کو دہرائے جاتی ہے کہ گزشتہ حکومت نے ملک کو بے دردی سے لوٹا ہے۔ یہ سن کر ایک عام پاکستانی پھر ایک کنفیوژن کا شکار ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں ن لیگ ملک کی ساٹھ فیصد آبادی پر حکومت کرتی رہی پھر میاں صاحب کس حکومت کی بات کرتے ہیں؟ ماضی کی حکومت کو دوش دینا کیا میاں صاحب کی خود احتسابی کی ایک روشن مثال ہے یا پھر موصوف بشمول چھوٹے میاں صاحب خود فریبی کا شکار ہیں؟
اسی طرح پچھلی حکومتوں کی ہی اگر بات کی جائے تو ق لیگ کے پرویز الٰہی صاحب مشرف دور میں پانچ سال پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔
ادھر ق لیگ اور مشرف کے ماضی میں بپا ہوئے رومانس نے تو پرویز مشرف کو سید پرویز مشرف بھی بنوا دیا تھا۔ اور یہی چوہدری برادران اب عوام کو مزید کنفیوژ کر رہے ہیں کیونکہ کل تک مشرف کو بار بار وردی میں منتخب کروانے کے دعویدار اب ان کا نام لیتے کیوں گھبراتے ہیں اور ہچکچاتے ہیں؟
اب میرے تعارف سے گریزاں ہے تو لیکن
کل تک تری پہچان کا معیار بھی میں تھا
اسی طرح تحریک انصاف کے انقلابیوں میں بھی کنفیوژن ضرور موجود ہے۔
ملک کے طول و عرض میں سونامی برپا کرنے کے دعویدار عمران خان صاحب وثوق سے کہتے رہے کہ وہ کسی ایسی سیاسی پارٹی سے اتحاد نہیں کریں گے جو ماضی میں حکومت کا حصہ رہی۔ تو کیا سیاسی جماعتیں عہدیداران سے ہٹ کر کوئی علیحدہ وجود بھی رکھتی ہیں؟ اگر سیاسی جماعتیں سیاسی طور پر ہم خیال افراد کے مجموعے کو کہا جاتا ہے تو جس طرح پچھلے پانچ سال میں حکومت میں رہنے والی سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران محض نظریے میں ردوبدل کی بنیاد پر خان صاحب کے لیے قابل قبول ہو گئے ہیں تو کیونکر مذکورہ سیاسی جماعتیں کسی بھی حالت میں الحاق کے قابل نہیں؟ تو کیا خان صاحب ان سیاسی جماعتوں کو بھی نظریات کی تبدیلی کی سند جاری کر کے مستقبل میں نظریہ ضرورت کے تحت ان سے مفاہمت پر آمادہ ہو جائیں گے؟
آئین و قانون کی بالا دستی پر ”بے لاگ“ تبصرے کرتے ہوئے روزانہ آپ کے نیوز چینلز پر بیٹھے دانشور اور سیاستدان اکثر بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ٹھوس دلائل دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے آئین کے اندر ایک ایسا قانون بھی موجود ہے جس کا نام FCR ہے کنفیوژن یہ ہے کہ پورے پاکستان کے ایے مساوی بنیادوں پر آئین پاکستان کی ایک بھاری بھرکم کتاب موجود ہے مگر اسی کتاب میں فاٹا اور پاٹا کے لیے FCR کی صورت میں ایک ایسا قانون موجود ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق ہی ختم کر دیتا ہے۔ اب یا تو فاٹا اور پاٹا میں رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں یا پھر آج تک اس ”لاقانونیت“ پر کسی کی نظر نہیں پڑی؟ مجھے تو محسن نقوی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچا میرے بیان کا ہے
اسی طرح پاکستان کا آئین و قانون کسی سویلین کو مسلح جدوجہد کی اجازت نہیں دیتا ہے جسے ماضی میں مختلف مسلح لشکر کی سرپرستی کی گئی۔ آج بھی امن لشکر کے نام سے مسلح گروہ کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کھلے عام کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ مستقبل میں اگر یہی امن لشکر اپنی بندوقوں کا رخ موڑ لیتے ہیں تو کیا پھر ان سے نمٹنے کے لیے نئے امن لشکر تشکیل دیے جائیں گے؟
مزید یہ کہ کسی بھی ریاست کے امور کو متوازن اور بہترین طریقہ کار سے چلانے کے لیے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ریاست کے ہر ادارے کے قیام کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے اسی طرح وہ ادارہ اپنی آئینی اور اخلاقی حدود سے ہرگز تجاوز نہ کرنے کا بھی پابند ہے۔
آج کل پاکستان نگرانوں کے حوالے ہے۔ یہ بحث بھی عام ہے کہ ان نگرانوں کو نیوٹرل یا غیر جانبدار سمجھنا چاہیے سیاستدانوں نے محض یہ تاثر دیا ہے کہ یہ مکمل غیر جانبدار لوگ ہیں۔ عوام میں کنفیوژن یہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی کلی طور پر غیر جانبدار کیسے ہو سکتا ہے۔
ہر شخص کی ہمدردیاں کسی بھی جماعت کے ساتھ ہو سکتی ہیں۔ ویسے نگران وزیر داخلہ نے میاں نواز شریف کی پارٹی بارے بیان دے کر اپنی غیر جانبداری کا پول خود ہی کھول دیا۔ کیا ضرورت آئین و قانون پر عملدرآمد کی ہے؟ یا کسی شخصیت کو غیر قانونی جانبداری کا لیبل لگا کر قابل قبول بنا دینے کی؟ آزاد عدلیہ اور مضبوط الیکشن کمشن کے ہوتے ہوئے یہ نگران حکومت بنانے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ مزید یہ کہ نگران حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ کہہ کر پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کی کارروائی سے ہاتھ کھڑے کر لیے کہ یہ نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
تو کیا نگران حکومت کا مینڈیٹ انہیں منتخب حکومت کی طرح پروٹوکول، تنخواہیں اور مراعات کے مزے اڑانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر فرائض کی ادائیگی کے وقت ان کے ہاتھ باندھ دیتا ہے؟ ہمارے ملک کی آزاد عدلیہ نے جنرل مشرف کو جیل کی ہوا کھلوا دی ہے آج کل اس بات پر گرما گرم بحث جاری ہے کہ کیا جنرل پرویز مشرف آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت چلے گا یا نہیں؟ اب وہ تمام افسران جنہوں نے مشرف کو اختیار دیا کہ وہ حکومت کرے۔
چیف سیکرٹری کی سطح کے افسران سے لے کر چپڑاسی تک تمام ملازمین جنہوں نے پرویز مشرف کے احکامات کو مانا۔ اسمبلی جس نے پانچ سال حکومت کی۔ تو کیا ان تمام اداروں اور افراد کو بھی اس مقدمے میں شامل تفتیش کیا جائے گا؟
بقول فیض احمد فیض
مشتعل ہو کے بھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider