Episode 44 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 44 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

ویل ڈن عمران خان!
پاکستان میں برسر پیکار طالبان کو نہ پاکستانی افواج سے خوف ہے اور نہ ہی امریکی افواج سے۔ نہ انہیں آج کی کسی دائیں یا بائیں بازو کی سیاسی جماعت سے خوف ہے اور نہ ہی کسی مذہبی جماعت سے۔ طالبان کو اگر خوف ہے تو محض پاکستانی عوام سے۔ اور طالبان کا پاکستان کے خلاف سب سے موثر ہتھیار پاکستانی عوام کا طالبان کے بارے میں بٹی ہوئی سوچ ہے۔
ا س کے ذمہ دار گزشتہ حکومتیں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ادارے بھی ہیں۔ پی پی دور حکومت میں ڈرون حملوں پر ن لیگ تحریک انصاف اور دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں نے خوب سیاست کی۔ جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کوئی واضح موقف عوام کے سامنے نہیں پیش کر سکی۔ وکی لیکس کے مطابق ایک سابق وزیراعظم نے امریکہ کو پیغام پہنچا دیا کہ آپ ڈرون حملے جاری رکھیں ہم احتجاج کرتے رہیں گے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد آنے والی موجودہ حکومت نے پہلے سے موجود ڈرون حملوں سے متعلق امریکہ اور پاکستان کے مابین کسی بھی معاہدے کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی واضح بیان نہیں دیا۔ اسی طرح اچھے اور برے طالبان کے ” مصنوعی“ اسرار و رموز میں عوام کو الجھانے میں ہماری سیاسی جماعتوں اور مبہم دفاعی پالیسی کا اہم کردار ہے۔
اسی طرح ہماری سیاسی اور غیر سیاسی مذہبی جماعتیں بھی دفاع پاکستان کے حق میں جلسے کرتی رہیں، پر پاکستان کے محافظوں (پاکستانی افواج) اور ان کے قاتلوں (طالبان) کے مابین کسی ایک کو صحیح یا غلط قرار دینے سے اجتناب کرتی ہیں۔
ہمارے دفاعی ادارے (بشمول انتہائی طاقتور اور بے شمار وسائل رکھنے والی خفیہ ایجنسیاں) عوام کو حقائق سے روشناس کروانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکی۔ مثال کے طور پر سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بار بار اپنی تقاریر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکی جنگ ہونے کے تاثر کے برخلاف اپنی جنگ قرار دیا تھا۔ مگر یہ جنگ ہماری کیوں ہے؟ یا ایسے کون سے ثبوت ہمارے دفاعی اداروں کے ہاتھ لگ چکے ہیں جو یہ ثابت کر سکیں کہ طالبان پاکستانی ریاست کا وجود ختم کرنا چاہتے ہیں؟ نیز پاک فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے سے خود اپنی عسکری وجوہات کی وجہ سے گریزاں ہیں یا اسے حکومتی سپورٹ حاصل نہیں ہے؟ ڈرون حملے پاک افواج کی نظر میں ملک کی سالمیت کے لیے مفید ہیں یا نقصان دہ؟ ان سب سوالات پر (ISPR) کے ذریعے موثر طریقے سے روشنی ڈالی جا سکتی تھی تاکہ عوام کا قومی سلامتی کے ان معاملات پر سے ابہام دور ہو سکے۔
مثلاً کچھ عرصے پہلے وادی تیراہ میں پاک افواج کی طالبان کے ساتھ گھسمان کی لڑائی، پاک افواج کی شہادتوں اور آخر میں کامیابی کو پاکستان ک میڈیا میں بھرپور طریقے سے اجاگر نہ ہو پانا سوالیہ نشان ہے۔ ”آزاد“ میڈیا کو حکومت افواج اور طالبان کی جانب سے نہایت محدود معلومات فراہم کی گئیں۔
یقینا میڈیا بہتر رول ادا کر سکتا تھا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ میڈیا عوام تک خبر پہنچا تو سکتا ہے مگر خبر کو جنم نہیں دے سکتا۔
میڈیا کی مکمل معلومات تک رسائی نہ ہونا بھی عوام میں کنفیوژن کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ اس کی حالیہ مثال سانحہ راولپنڈی کی ہے۔اگر چوبیس گھنٹے کے اندر وزیر داخلہ یا خام اعلیٰ پنجاب پریس کانفرنس کر کے ہلاکتوں کے بارے میں درست اعداد و شمار اور باقی درست معلومات عوام کو فراہم کر دیتے تو حالات شاید بہت جلد درست ہو جاتے۔
گزشتہ پی پی دور حکومت میں غیر واضح دفاعی خارجہ پالیسی اور مکمل حقیقی نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی عوام تقسیم ہو گئے۔
دن بہ دن دہشت گردی بڑھتی جا رہی تھی۔ دوسری طرف قومی سلامتی کے معاملات پر عوامی رائے تقسیم در تقسیم ہوتی جا رہی تھی۔ کہ ایسے میں 30 اکتوبر 2011ء کو عمران خان نے لاہور میں تاریخی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد خان صاحب نے کے پی کے میں مخلوط حکومت بنا لی۔ خان صاحب کو معلوم تھا کے پی کے کے عوام کی سب سے پہلی ضرورت امن ہے۔
لہٰذا خان صاحب نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت اور ڈرون کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان کے صوبہ خیبر پختون خواہ پر حملہ آور ہونے کا اخلاقی جواز محدود کر دیا۔ اس کے باوجود طالبان نے یکے بعد دیگرے حملے کیے جن میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل، قصہ خوانی بازار دھماکہ، پشاور چرچ حملہ اور وزیر قانون کا قتل شامل ہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی تبدیل نہ کی۔
اس دوران عوام سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ جو طالبان اپنے بارے نرم گوشہ رکھنے والے کے پی کے حکومت کے ساتھ اتنا بیہمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں وہ قطعاً ”اچھے لوگ“ نہیں ہو سکتے۔ یہ بڑھتا ہوا تاثر فوجی آپریشن کی جانب ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ قریب تھا کہ طالبان کے اصل سیاسی اہداف کھل کر عوام کے سامنے آ جاتے۔ اس کا تمام تر سہرا خان صاحب کی عدم ٹکراؤ کی دانش مندانہ سیاست کو جاتا ہے۔
رائے متحد ہونا شروع ہو گئی۔ خان صاحب نے مزید استقامت سے کام لیتے ہوئے طالبان کا دفتر کھولنے کی تجویز پیش کر دی۔ اس کی وجہ سے طالبان کے پاس کے پی کے میں شدت پسندی میں کارروائی کے عذر مزید کم ہو گئے۔ حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد نیٹو سپلائی بند کرنے کی ڈیڈ لائن دینا خان صاحب کی بہترین حکمت عملی تھی۔ جس کی وجہ سے کے پی کے میں عاشورہ انتہائی پرسکون گزرا۔
اور اب نیٹو سپلائی بند کرنے کے بعد طالبان کو کے پی کے کی حد تک سیاسی اور اخلاقی دونوں محاذوں پر خان صاحب نے شکست دی۔ آخر طالبان ایسی حکومت اور ایسے صوبے کے عوام کے خلاف کس بنیاد پر کارروائی کریں جو ان کے خلاف استعمال ہونے والے اسلحے کو روکنے کے لیے شدید سردی میں شاہراہوں پر ناکے لگائے کھڑے ہیں؟ اگر اب بھی طالبان کے پی کے میں بڑی دہشت گردی کی کارروائی کرتے ہیں تو ان کے بارے میں عوامی اکثریتی رائے عامہ منفی ہو جائے گی جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔
عمران خان کو کے پی کے میں دہشت گردی کے سدباب کا مینڈیٹ ملا تھا۔ جس پر وہ پورا اترتے نظر آتے ہیں۔
اسی طرح عمران خان کی طالبان کے حق میں بھرپور حمایت کے سامنے پاکستان کی روایتی مذہبی جماعتیں خود کو بائیں بازو کی جماعت محسوس کرنے لگیں اور خود کو مزید بائیں کی طرف لے جانے کے چکر میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر کچھ سنگین غلطیاں سر زد کر بیٹھیں۔
مثال کے طور پر تحریک انصاف کی حلیف جماعت کے امیر نے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دے دیا۔ اور پھر باتوں باتوں میں دل کی بات عوام کے سامنے کچھ یوں آشکار ہوئی کہ موصوف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے ہزاروں پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اسی بوکھلاہٹ میں خود کو عمران خان سے زیادہ امریکہ مخالف ثابت کرنے کے چکر میں مولانا فضل الرحمن نے امریکہ کے ہاتھوں مرنے والے کتے کو بھی ”شہید“ قرار دے دیا۔
نتیجتاً پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے سامنے ان مذہبی جماعتوں کا واضح موقف کھل کر سامنے آ گیا۔ آئے روز میڈیا پر اور نجی محفلوں میں ان مذہبی جماعتوں پر شدید تنقید ہونے لگی۔ اس سے پہلے ان مذہبی، سیاسی جماعتوں پر میڈیا میں اس شدومدسے تنقید کبھی نہیں کی گئی تھی اور ان مذہبی سیاسی رہنماؤں کو میڈیا میں آڑے ہاتھ لینا ”شجرممنوعہ“ تصور کیا جاتا تھا۔
اسی طرح نیٹو سپلائی بند کرنے کے بعد خان صاحب نے وفاقی حکومت کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ ڈرون حملوں اور طالبان کے بارے میں ایک واضح پالیسی منظر عام پر لے کر آئیں۔ خان صاحب کی سیاست نے پاکستان کو بہت کم عرصے میں اس فیصلہ کن دوراہے پر لا کھڑا کیا جہاں حکومت پاکستان بشمول افواج پاکستان کو مجموعی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں واضح بنیادی فیصلے کرنا ہو نگے اور ساتھ ہی عوام کے سامنے اصل حقائق لے کر آنے پڑیں گے۔
ساتھ ہی عمران خان کی جانب سے روز بروز بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کی وجہ سے وفاقی حکومت زیادہ دن تک ”اسٹیٹس کو“ یعنی حالات کے جمود کو قائم نہ رکھ پائے گی۔ اور مذہبی جماعتوں کی طرح وفاقی حکومت اور پاک فوج کا دفاعی پالیسی کے بارے میں حقیقی پوشیدہ موقف اگلے کچھ عرصے میں کھل کر سامنے آ سکتا ہے۔ شاید یہ ہی ”اسٹیٹس کو“ کا ایک حصہ تھا۔ جس کے خاتمے کا نعرہ عمران خان نے حالیہ انتخابات سے پہلے لگایا تھا۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider