Episode 21 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 21 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

حزب اللہ، اسرائیل جنگ اور ہم…
کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند سال پہلے اسرائیل کی مضبوط فوج نے ایک ہمسایہ ملک پر بھرپور زمینی حملہ کیا؟ اس جنگ میں اسرائیل کو بری طرح شکست ہوئی۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی قوم تو ایک طرف مسلم امہ کے اکثر ممالک میں لوگ اس تاریخی واقعہ سے نابلد ہیں۔ 2006ء میں چند ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک تنظیم جس کا نام حزب اللہ ہے نے اسرائیل کو شکست فاش دی۔
تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ماضی میں عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین جنگوں میں ہمیشہ اسرائیل فاتح رہا ہے۔ اس تاریخی تناظر میں چند ہزار جنگجوؤں کے ہاتھوں اسرائیل جیسے طاقتور ملک کو شکست انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس غیر معمولی واقعہ کو مغربی میڈیا تو ایک طرف مسلم ممالک کے میڈیا نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے رونما ہونے والا تاریخی واقعہ ہماری اکثریتی نوجوان نسل کے اذہان سے پوشیدہ ہے۔ پر سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کو مسلم امہ میں اتنی اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اسلامی ممالک میں کارفرما فرقہ وارانہ منافرت اور عرب اور عجم کی تقسیم جیسی سوچ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل سے مصر، شام، اور اردن جیسے نمایاں عرب ممالک کی تاریخ میں شکست کے بعداس خطے میں کسی نیم فوجی جتھے کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست ان عرب ممالک کی عرب انا پر گراں گزری۔
اس بیگانگی کی دوسری وجہ حزب اللہ کا مخصوص مسلک سے تعلق اور ایران کی حمایت بھی تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی مسلمان ممالک فرقہ واریت اور عربی عجمی جیسے تفرقے کا شکار ہیں۔
اب ذرا دسمبر 2010ء میں شروع ہوئی عرب بہار پر نظر ڈالیں۔ اس انقلاب کی لہر میں جہاں بہت سے عرب ممالک مثلاً تیونس، مصر، لیبیا اور شام میں بادشاہتوں اورآمریتوں کا خاتمہ ہوا وہاں دو ممالک بحرین اور شام پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
شام میں حاکم ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ شامی عوام کی اکثریت دوسرے مسلک سے تعلق رکھتی۔ ایرانی حکومت شام میں متحرک حکومت مخالف متحارب گروپس کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ اس صورت حال کے برعکس بحرین میں ایرانی حکومت کی بھرپور حمایت مخالف گروپس کے ساتھ ہے اور عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بحرینی حکومت کی ہر سطح پر معاونت کر رہے ہیں۔
یہ صورت حال مسلم امہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اسی طرح عراق میں صدام حسین کے جانے کے بے بعد جو حکومت تشکیل پائی وہ وہاں کے اکثریتی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ عراق کی موجودہ حکومت کو شام اور ایران کی بھرپور حمایت حاصل ہے جبکہ دیگر عرب ممالک ہر بین الاقوامی فوج پر اس نئی قائم شدہ حکومت پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مبینہ طور پر عراق میں سرگرم حکومت مخالف گروپس کو عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
ایسے حالات میں ہم آئے روز مغربی ممالک کو مسلم ممالک میں موجود برے حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے رہتے ہیں۔ جبکہ ہم خود فرقہ واریت، لسان اور قومیت کی بنیاد پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو تقسیم در تقسیم کرتے جا رہے ہیں۔ نا جانے اس تقسیم کے رجحان کا خاتمہ کب ہو گا اور امت مسلمہ کب متحد ہو کر ترقی کی منازل طے کر پائے گی؟
دوسری طرف مغربی ممالک کے بین الاقوامی سطح پر مسلم ممالک سے پیوستہ مفادات قدرے مختلف نوعیت کے ہیں۔
مثال کے طور پر روس اور چین کی طرف سے شام کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں کسی بھی ممکنہ فوجی آپریشن کی شدت سے مخالفت کی جا رہی ہے۔ جدید دنیا میں ملکوں کے مفادات مذہب، لسان اور قومیت سے ہٹ کر زیادہ تر معیشت کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ چین اور شام میں نہ سرحدیں مشترکہ ہیں اور نہ کسی قسم کی نظریاتی ہم آہنگی موجود ہے۔ تو پھر شام کے خلاف بین الاقوامی فوجی جارحیت کی مخالفت چین کیوں کر رہا ہے؟ ہم عام پاکستانی آج بھی دشمن کا دشمن دوست اور دشمنی برائے دشمنی کے فلسفوں کو جدید دنیا کے ممالک کے مابین تعلقات کی اہم کسوٹی سمجھتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم کنوئیں کا مینڈک بن کر رہ گئے ہیں اور بین الاقوامی حقائق سے نابلد ہوتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ہمارے وزیراعظم چائنہ تشریف لے گئے تو چائنہ کی حکومت نے پر زور انداز میں پاک ایران گیس پائپ لائن سے استفادہ کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ اس بات پر میرا ماتھا ٹھنکا اور بین الاقوامی سیاست کے چند رموز آشکار ہوتے معلوم ہوئے۔
سادہ سی بات ہے ایران شام کو عسکری معاشی اور تقریباً ہر قسم کی معاونت فراہم کر رہا ہے۔ چائنہ اگر ایران سے گیس خریدتا ہے تو اس کے عوض ملنے والا سرمایہ بلا واسطہ شام تک پہنچ جائے گا۔ یہاں پر روس کے مفادات سامنے آ جاتے ہیں۔ روس نے سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ سے ممکنہ جنگ میں استعمال ہونے والے روایتی ہتھیاروں کے ڈھیر لگا دئیے جو اب گل سڑ رہے ہیں۔
روس یہ سامان حرب شام کی حکومت کو فروخت کر رہا ہے۔ اس طرح چائنہ اور روس کے مفادات ایران اور شام سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے مقتدر حلقوں کے لیے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دوست اور دشمن تو تبدیل کیے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے تبدیل نہیں ہوتے۔ ہمیں تاریخ کے تجربات سے سیکھتے ہوئے، اپنے ہمسایوں سے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔
نئی دنیا میں اگر ہمارے ہمسائے میں امن نہیں ہو گا تو اس بدامنی کی حدت سے ہم خود بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ آج کیا وجہ ہے کہ افغان صدر پاکستان سے جنگ کی صورت میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ بیشک تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ لیکن کم از کم ہم اپنے ہاتھ کے تو خود ذمہ دار ہیں۔ ہم اپنے عزیز دوست چائنہ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔
جو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہوئے معاشی خوشحالی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔
اسی طرح اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے باہمی چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر اپنے عوام کی معاشی بہتری کو اولین ترجیح دیں ورنہ تمام دنیا معاشی طور پر مستحکم ہوتی چلی جائے گی اور مسلم مالک اپنے برادر اسلامی ممالک کے ساتھ دست و گربیاں ہو کر بدتر سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider