Episode 30 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 30 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

شام میں امریکہ اور ایران کے مشترکہ مفادات!
نائن الیون کے بعد دنیا کی تاریخ واضح طور پر دو ادوار میں تقسیم ہو گئی۔ ایک نائن الیون سے پہلے کا دور اور ایک اس کے بعد کا دور۔ جب اور جہاں امریکہ کا دل کیا اس نے اپنی بھرپور فوجی طاقت کا یکطرفہ مظاہرہ کیا۔ امریکہ کی سیکورٹی پالیسی ہے کہ دہشت گردوں کا پیچھا کرو اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں میں گھس کر ان کو نیست و نابود کر دو۔
اگر یہ محفوظ پناہ گاہیں ایسے ممالک میں ہوں جو امریکہ کی دہشت گردوں تک دسترس میں رکاوٹ بنیں تو ایسی حکومتوں کو زور بازو سے روند ڈالو۔ امریکہ کی قومی سلامتی پالیسی کا یہ جزو انتہائی کارگر ثابت ہوا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد کوئی بھی قابل ذکر دہشت گردی کا واقعہ سر زمین امریکہ پر رونما نہیں ہو سکا۔

(جاری ہے)

امریکہ نے دہشت گردی کا جواب انتہائی شدید دہشت گردی کی شکل میں دیا۔

امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے امریکہ کے علاوہ دو اور ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا ان میں سے ایک ملک بھارت ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے دیگر علاقوں میں برسر پیکار اسلامی جہادی تنظیمیں افغانستان کی طرف مصروف ہو گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی افواج کی توجہ مغربی سرحدوں کی طرف مبذول ہو گئی۔ اس دوران بھارت نے لائن آف کنٹرول پر آہنی باڑ لگا لی اور اس اثناء میں بھارت میں بیرونی دراندازی میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی۔
ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے کی اس سال اپریل میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں سال 2001ء کے دوران ہوئی دراندازی سے منسلک کاروائیوں میں 4507 افراد ہلاک ہوئے جو 2012ء میں کم ہو کر محض 117 رہ گئے ہیں۔
آج کل ”شام“ کی باری ہے کون جانے کون سی شام ”شام“ کے لیے خون آشام بن جائے۔ کچھ ماضی میں جائیں تو یاد پڑتا ہے کہ مارچ 2003ء میں صدام حسین والے عراق پر حملہ کرنے سے پہلے بھی صدام کے دست خاص ”کیمیکل علی“ کے بنائے گئے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق خود امریکہ نے کی تھی۔
قصہ مختصر یہ کہ صدام حسین نے مبینہ طور پر اپنے مخالفین پر کیمیائی ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں سے حملہ کر دیا تھا۔ یہی کچھ آج شام کے بشار الاسد پر الزام ہے کہ شام کے موجودہ صدر نے اپنے باغی عوام کو ٹھکانے لگانے کے لیے زہریلی گیس کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ گیس کے استعمال ہونے کے ثبوت امریکہ کے ہاتھ لگ گئے ہیں جو ان ثبوتوں کو جواز بنا کر کسی بھی وقت شام کو سبق سکھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ بات اگر تسلیم کر لی بھی جائے کہ کچھ زہریلی گیسوں نے قیمتی معصوم جانیں لی ہیں تو یہ بات کیسے ثابت ہوئی کہ یہ کارنامہ بشارالاسد کی افواج نے سرانجام دیا ہے؟ یہ کچھ بیرونی طاقتوں کی بھی تو سازش ہو سکتی ہے جو شامی حکومت سے خائف ہیں۔ اب امریکہ ٹھہرا جنگل کا بادشاہ۔ وہ انڈہ دے یا بچہ دے۔
امریکہ نے جونہی شام پر حملے کی قرارداد پیش کی تب سے اب تک کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔
روس نے فوراً اس قرار داد کو ویٹو کر دیا اور ساتھ ہی دھمکی بھی لگائی کہ امریکہ نے شام کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کی تو روس سعودی عرب پر حملہ کر دے گا۔ ایران نے بھی نعرہ بلند کیا کہ ایسی کسی بھی جارحیت کی صورت میں ایران اسرائیل پر حملہ کر دے گا۔ اور اسرائیل کو گزشتہ ایک دہائی سے ناکوں چنے چبوا چکی اسلامی تنظیم حزب اللہ نے بھی ممکنہ امریکی جارحیت کے جواب کے طور پر اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔
اسرائیل سے ایران اور حزب اللہ کی دشمنی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مگر روس کی طرف سے سعودی عرب پر حملے کی دھمکی کچھ لوگوں کے لیے بلکہ اکثریت کے لیے ناقبل فہم ہی ٹھہری۔ افغان جنگ میں اسلحہ امریکہ کی جانب سے آیا اور بین الاقوامی جہاد اسلامی کا فلسفہ ایک عرب ملک کی جانب سے افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین کی نفسیات پر جہاد کی عظمت اور روس (کافر) کو سبق سکھانے کی فلاسفی اور تعلیمات انہی مدارس کی مرہون منت تھیں جو چند عرب ممالک کے زیر اثر تھے۔
لہٰذا روس اپنا پرانا حساب چکتا کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ اور ساتھ ہی چیچنیا میں اسلامی جنگجوؤں کی پشت پناہی کا بدلہ بھی عرب ممالک سے چکانا مقصود ہے۔
امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک بھارت کے بعد ایران ہے۔ نائن الیون سے پہلے ایران کے دائیں اور بائیں دونوں ممالک میں ایران مخالف حکومتیں تھیں۔
ایک جانب عراق تھا جہاں صدام حسین ایک سے زائد مرتبہ ایران پر چڑھ دوڑا تھا۔ اور دوسری جانب افغانستان تھا جہاں طالبان اپنی طاقت کا لوہا منوا چکے تھے۔ طالبان کے خلاف صف آراء، ناروان الائنس کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ جب امریکہ نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا تب ایران کی حمایت یافتہ حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔
دوسری جانب کچھ عرصے بعد ہی یعنی 2003ء میں عراق سے بھی صدام کا خاتمہ ہوا اور ایران کی حمایت یافتہ حکومت وہاں بھی قائم ہو گئی۔ اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے ایران کے دائیں اور بائیں فوجی کاروائی کر کے ایران سے ملحقہ عراق اور عراق سے ملحقہ شام اور شام سے ملحقہ لبنان تک یہ ان مسلم ممالک کی پٹی بن چکی ہے جہاں ایران کی حمایت یافتہ حکومتیں بھی موجود ہیں۔
اس کے علاوہ لبنان اور شام کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ بڑی ہونے کی وجہ سے ایران کو اسرائیل تک زمینی رسائی حاصل ہے۔ جو ا مریکہ اور اسرائیل کے لیے غیر محفوظ پہلو ہے۔ اس کے علاوہ ایران کا افغانستان سے لے کر لبنان تک بڑھتا ہوا اثرو رسوخ عرب ممالک کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔
تاریخی پیرائے میں دیکھا جائے تو جب تیونس سے ”عرب بہار“ شروع ہوئی تو کئی عرب ممالک میں ایران نے باغیوں کی مدد کی۔
مگر شام میں ہوئی بغاوت کی صورت میں ایران شامی حکمران کی سپورٹ کرتا رہا۔ اسی طرح ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ جس کی قیادت حسن نصر اللہ کرتے ہیں، براہ راست صرف اسرائیل کے ساتھ ہی دست و گریبان رہی ہے۔ اب حزب اللہ کی لڑائی شام میں القاعدہ سے براہ راست شروع ہو چکی ہے۔ مبینہ طور پر القاعدہ اور دیگر شام کی باغی عسکری تنظیموں کو عرب ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔
جبکہ حزب اللہ کو ایران، عراق اور شامی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
عراق اور افغانستان میں امریکہ کے علاوہ وہاں کی حکومتوں کے خلاف صف آراء القاعدہ پوری قوت سے حکومتوں کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عراق اور افغانستان میں ایران کی حمایت یافتہ حکومتیں ہیں لہٰذا جنگ اب مسلمانوں کے مسالک کی لڑائی بنتی جا رہی ہے۔ شام میں جاری بغاوت بھی اس قسم کی جنگ ہے۔
القاعدہ مبینہ طور پر سعودیہ عرب سے براستہ اردن، اپنے جنگجو شام میں بھجوا رہی ہے۔ جبکہ حزب اللہ لبنان سے شام میں داخل ہو رہی ہے۔
شام پر امریکی حملہ امریکہ تاریخ کی سب سے بڑی جنگی غلطی ہو گی۔ امریکہ اگر ایران کی حمایت یافتہ دیگر عسکری تنظیموں مثلاً حزب اللہ وغیرہ کا موازنہ القاعدہ یا ایران مخالف مذہبی عسکری تنظیموں سے کرے تو یہ فرق واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ مذہبی عسکری تنظیمیں کبھی بھی امریکی شہریوں یا تنصیبات کو دہشتگردی کا نشانہ نہیں بناتیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں محض دفاعی بنیادوں پر ہی لڑتی رہی ہیں۔
جبکہ القاعدہ اور اس کی اتحادی جہادی تنظیمیں پوری دنیا میں امریکیوں اور امریکی تنصیبات کو مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس طرح اگر امریکہ بشار الاسد کی حکومت کو تہس نہس کرتا ہے تو القاعدہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں شام پر قابض ہو سکتی ہیں۔ اس سے خطے میں ایران کا اثر و رسوخ کم ضرور ہو گا اور دوسری طرف عرب ممالک کا اثرو رسوخ قدرے بڑھ جائے گا۔
مگر القاعدہ کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملے شدت اختیار کر جائیں گے۔ اور پورے خطے میں امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہو جائے گی۔ شام وہ لانچنگ پیڈ بن جائے گا جہاں سے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کے علارہ دیگر مسلم ممالک پر دہشت گردی کے حملے کیے جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ باہمی عزت و تکریم اور اعتماد پر مبنی تعلقات کا نیا دور شروع کریں۔ آخر دشمن کا دشمن تو دوست ہوا کرتا ہے۔ ایران اور امریکہ کی دوستی پورے مشرقی وسطیٰ کو مستقبل میں امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔ اور یہ دوستی القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider