Episode 12 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 12 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

نئی حکومت اور پرانی مشکلات
فی الحال ایسے شواہد منظر عام پر نہیں آ سکے کہ کسی ادارے یا کسی غیر ملک کی طرف سے حالیہ انتخابات میں منظم اندازی میں دھاندلی کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہو۔ مبینہ دھاندلی سے متاثر حلقوں میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج نے اپنی تمام تر توجہ امن و امان اور ممکنہ دہشت گردی سے نبردآزما ہونے تک محدود رکھی۔
فوج اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔ ادھر یہ امر قابل غور ہے کہ الیکشن کے روز ملک بھر سے کوئی ایسی اطلاع سامنے نہیں آئی جس میں الیکشن کمشن آف پاکستان نے الیکشن کے دن کسی پولنگ اسٹیشن کے اندر اپنی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا ہو۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یا تو پورے ملک میں انتخابی عمل بخیر و خوبی انجام پایا بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر فوج کو طلب نہیں کیا۔

(جاری ہے)

ممکنہ طور پر فوج نے از خود الیکشن کے عمل میں کسی بھی طرح کی مداخلت سے پرہیز کیا۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی فوج پر انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا الزام نہیں لگا سکتی۔ اگر فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر ہونے والی کارروائی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی تو کافی حد تک انتخابات کی شفافیت میں اضافہ ہو سکتا تھا۔
حال ہی میں میاں نواز شریف نے الحمراء میں منعقد تقریب کے دوران ن لیگ کے نو منتخب اراکین اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی ابتر معاشی صورت حال کا خوب ذکر کیا اور بجلی کے بحران کو اس معاشی صورتحال سے جوڑا۔
یہ اس بات کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے کہ کل مشرف صاحب کسی خفیہ معاہدے کے تحت بیرون ملک پرواز کر جائیں اور اس کے اگلے روز میاں صاحب بطور وزیراعظم حلف اٹھا لیں۔
اپنے پہلے خطاب میں میاں صاحب معاشی بدحالی، بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ سے ستائے ہوئے عوام کو اچھے دنوں کی نوید کچھ اس طرح سے سنا سکتے ہیں کہ اس سودے کے عوض وہ مزید قرضے یا کچھ امداد کی مد میں تیل حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اگر ایسا ہوا تو قوم کو میاں صاحب کا جلسوں میں بارہا دہرائے جانے والا علامہ اقبال کا شعر شدت سے یاد آئے گا۔ شعر کچھ یوں ہے #
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
میاں صاحب کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور سقوط ڈھاکہ پر کی گئی تحقیقات کو سرد خانے میں ڈال کر بھٹو صاحب نے جو غلطی کی ویسی غلطی کارگل اور پرویز مشرف کی آئین شکنی کے معاملے میں انہیں نہیں دہرانی چاہیے ورنہ آمریت کا جن کبھی بوتل میں بند نہ ہو پائے گا۔
الحمراء میں منعقد ہوئی اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف صاحب نے انتخابی جلسوں کے دوران شہباز شریف کے سینہ ٹھوک ٹھوک کر لوڈ شیڈنگ کے محدود وقت میں خاتمے کے بارے دعووں کو محض ”جوش خطابت“ کا نام دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک ڈالا۔ راجہ پرویز اشرف نے تو وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد اپنے بیانات بدلے تھے مگر میاں صاحب نے حکومت میں آنے کا انتظار بھی نہ کیا اور اپنے چھوٹے بھائی کے تمام وعدوں اور اعلانات جو انہوں نے ن لیگ کی طرف سے قوم سے کیے تھے بڑی آسانی سے غیر موثر قرار دے دیے۔
جہاں تک ملک بھر میں جاری دہشت گردی کا تعلق ہے تو گزرتے وقت کے ساتھ طالبان پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ دفاعی اور خارجہ پالیسی دونوں میاں صاحب کی وفاق میں حکومت کے تابع ہیں۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی خیبر پختون خواہ میں حکومت اے این پی کی طرح طالبان سے محاذ آرائی قطعاً نہیں کرے گی۔ اسی طرح طالبان کی ساری توجہ اسلام آباد اور پنجاب پر مرکوز ہونے کا خدشہ ہے۔
دوسری طرف مثبت پہلو یہ ہے کہ عرب ممالک جو افغان طالبان کی ان کی جنگ آزادی کے لیے پس پشت حمایت کرتے ہیں میاں صاحب ان کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ اسی لیے عین ممکن ہے کہ عرب ممالک طالبان پر اپنا اثرو رسوخ میاں صاحب کی حکومت کے حق میں استعمال کریں۔ جس سے وقتی طور پر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے مگر نظریاتی طالبان جو پاکستان میں سرگرم عمل ہیں ان کی کارروائیوں میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت ڈرون حملوں کی مخالفت جاری رکھے گی اور اس طرح سارا ملبہ وفاقی حکومت پر گرے گا۔ میاں صاحب کی بغیر بیساکھیوں کی حکومت کو واضح خارجہ اور دفاعی پالیسی بنانی ہو گی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی کمزور مخلوط حکومت دہشت گردی کے بارے کوئی واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہی تھی جس کا خمیازہ پچھلے پانچ سال پوری قوم نے عام انتخابات میں خود پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھگت لیا۔
اب وقت آ گیا ہے جب فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ آیا پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی سیاستدان بنائیں گے یا ماضی کی طرح یہ معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہی رہیں گے۔ یہ فیصلہ خود میاں صاحب نے کرنا ہے۔ا سی طرح بلوچستان میں سکیورٹی اداروں کا اثرو رسوخ جو سیاستدانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح کراچی کی صورتحال مستقبل بعید میں بہتر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
اب بہت عرصے کے بعد کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو تحریک انصاف کی صورت میں کڑا چیلنج درپیش ہے۔ نواز لیگ کے وفاق میں واضح مینڈیٹ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی سادہ اکثریت کی وجہ سے ماضی کے برخلاف ایم کیو ایم سیاسی تنہائی کا شکار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی صوورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ سمیت سندھ کی باقی ماندہ روایتی سیاسی جماعتوں نے اگر اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider