Episode 31 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 31 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

کراچی میں آپریشن
روشنیوں کا شہر کراچی اب تقسیم ہو چکا ہے۔ بنارس، کٹی پہاڑی اورنگی سمیت کئی مقامات پر اے این پی سے ہمدردی رکھنے والے پختونوں کی اجارہ داری ہے۔ لیاری پر پاکستان پیپلز پارٹی کا کنٹرول ہے۔ ڈیفنس سمیت مختلف پوش علاقوں میں تحریک انصاف اب ایک قوت بنتی جا رہی ہے۔ جبکہ ابھی تک تقریباً 60 سے 70 فیصد کراچی پر متحدہ قومی موومنٹ کا اثرو رسوخ قائم ہے۔
اس شہر میں پاکستان میں بسنے والے ہر رنگ و نسل ہر زبان و ثقافت کے لوگ بستے ہیں۔ اسی مناسبت سے کراچی کو ”منی پاکستان“ بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی کے حالات بین الاقوامی سازش کی وجہ سے مخدوش ہونا ایک رسمی بیان بن چکا ہے۔ مگر مجھے اس بات پر اختلاف ہے کہ کراچی کی خراب صورت حال صرف بیرونی سازشوں کی وجہ سے ہے آپ کے دشمن ممالک آپ کے خلاف سازش نہیں کریں گے تو کیا امن و سلامتی کی دعائیں کریں گے؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ آپ پاکستان کے دشمن ممالک کے بارے میں کیا جذبات رکھتے ہیں؟
گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی کا ہنگامی دورہ کیا اور اپنی وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی کراچی ہی میں منقعد کر لیا۔

(جاری ہے)

اس سے قبل وزیراعظم نے سکیورٹی اور امن عامہ کے بارے میں بہت سی بریفنگ بھی لیں اور کئی اجلاسوں کی صدارت کرنے کے بعد میاں نواز شریف اس نتیجے پر پہنچے کہ کراچی کے جملہ مسائل کا حل اب محض آپریشن سے ہی ممکن ہے۔ بلاشبہ یہ اتنا سادہ مسئلہ ہے نہیں جتنا سادہ اکثر حکومتی اراکین اسے پیش کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز تو بہت عرصے سے اس شہر میں کام کر رہے تھے مگر ممکنہ طور پر اس شہر میں طالبان بھی اپنا اثرو رسوخ قائم کر چکے ہیں۔
کراچی میں جب بھی آپریشن کلین اپ کی بات کی جاتی ہے تو دو مختلف سیاسی جماعتیں خوب واویلا کرتی ہیں جو کراچی میں اپنا اثرو رسوخ رکھتی ہیں۔ کچھ ہلکے پھلکے آپریشن کی صورت میں گرفتار افراد کو بھی یہ سیاسی پارٹیاں آزاد کرا لیتی ہیں۔
اب جبکہ کراچی میں ”ٹارگٹڈ آپریشن“ تقریباً شروع ہو چکا ہے تو میں عرض کرتا چلوں کہ میں نے 19 مئی کو شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں اس حکومت کے قائم ہونے کے فوراً بعد لکھ دیا تھا کہ کراچی میں آپریشن ہونے جا رہا ہے۔
لوگ اس وقت مجھ سے بہت اختلاف کر رہے تھے مگر اب میں قدرے پرسکون ہوں کیونکہ بطور صحافی میں نے اپنی معلومات اور مشاہدے کی روشنی میں بات کی تھی جو درست ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مجوزہ آپریشن کی کامیابی میں بہت سے مسائل حائل ہیں جب تک وہ حل نہ ہوں آپریشن کی کامیابی مشکل ہے۔ کیونکہ چودہ سال بعد تیسرے وزیراعظم بننے والے اب قدرے محتاط میاں نواز شریف 18 ویں ترمیم کے بعد کے مضبوط صوبوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
وہ زرداری سٹائل کی مفاہمتی سیاست پر چلتے ہوئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے وفاق اور صوبہ ٹکرا جائے اور ایک بار پھر ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کمزور جمہوری حکومت کو گھر بھیج دے۔ وفاقی حکومت کو اگر پیپلز پارٹی کا کوئی عسکری ونگ ہے تو پھر اسے نذر انداز کرنا ہی پڑے گا۔
اس طرح اس آپریشن کی ناکامی کی ممکنہ طور پر دوسری وجہ 9 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرس میں طالبان اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کا اعلان کر کے کراچی میں موجود طالبان اور دیگر کالعدم مذہبی تنظیموں کو تاحکم ثانی استثنیٰ دے دیتا ہے۔
تو جناب! طالبان کو استثنیٰ مل گیا۔ پیپلز پارٹی سے مفاہمتی سیاست کا اظہار، زرداری صاحب کے الوداعی ظہرانے میں تو ہو گیا تو باقی کراچی کے سٹیک ہولڈرز میں بچے اے این پی اور ایم کیو ایم زیادہ تر طالبان پختون علاقوں میں موجود ہیں جو غالباً سوات آپریشن کے بعد یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ تو حفظ ماتقدم اس چیز سے بچنے کے لیے کہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے۔
جرائم پیشہ لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا تو آخر میں بچی متحدہ قومی موومنٹ اس صورتحال میں 92ء جیسے ”آپریشن کا ری ایکشن پلے ہو سکتا ہے اور آپریشن در حقیقت مخصوص جماعت تک محدود ہونے کی وجہ سے اپنی سیاسی اور اخلاقی قدر و قیمت کھو دے گا۔ اس طرح یہ آپریشن ایک بار پھر ہمارے سیاستدانوں کی مصلحتوں کی نذر ہونے جا رہا ہے۔ مگر پھر بھی وفاقی حکومت کے موڈ کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ حکومت اب کراچی میں آپریشن کا ارادہ کر چکی ہے۔
اب ذرا اس آپریشن کی جزئیات پر غور کریں تو یہ امر روز محشر کی طرح عیاں ہے کہ وفاقی حکومت کراچی میں آپریشن رینجرز کے ذریعے کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جب 1992ء میں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے تب کراچی میں آپریشن کلین اپ کا آغاز ہوا تھا۔ اس آپریشن کا نام ”آپریشن بلیک فوکس“ تھا۔ اس وقت بھی آپریشن رینجرز کی نگرانی میں ہوا۔ اس آپریشن کو بعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے دوسرے دور حکومت میں مزید شدت سے جاری رکھا۔
جنرل نصیر اللہ بابر نے بے نظیر دور میں وزیر داخلہ تھے۔ انہوں نے آپریشن کی نگرانی براہ راست خود فرمائی تھی۔ اس آپریشن کے بعد بھی مگر کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا تھا۔ تو سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر رینجرز سے آپریشن کروانے میں کیا حکمت ہے؟
میرے نزدیک رینجرز سے آپریشن کروانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وفاقی حکومت کو سندھ کی صوبائی حکومت پر مکمل اعتبار نہیں ہے۔
رینجرز چونکہ صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں ہوا کرتے تو یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ اس آپریشن کا ”کپتان“ وزیراعلیٰ سندھ کو بنا دیا گیا ہے۔ سندھ پولیس ہو یا پنجاب پولیس ہمارے پولیس اہلکار کسی بھی طرح کسی سے کم نہیں ہیں مثلاً سندھ پولیس کو اگر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی پولیس کی طرح ٹریننگ دی جائے اور اس کے اندر جدید اسلحے سے لیس اعلیٰ تربیت یافتہ ٹیمیں تشکیل دی جائیں تو ایک مرض کے لیے دو مختلف ادویات کے استعمال جیسے فیصلے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔
انٹیلی جنس کا کام اندرون ملک CID پولیس بہتر انجام دے سکتی ہے۔ مگر ہمیں تو توپ سے چڑیا مارنے کی عادت ہو گئی ہے۔ مزید یہ کہ کون سا پولیس اہلکار نہیں جانتا کہ کون سا ٹارگٹ کلر بھتہ مافیا یا دہشت گرد وغیرہ وغیرہ کراچی میں کہاں کہاں پائے جاتے ہیں۔ نا جانے ہم اس قسم کی خفیہ ایجنسیوں سے کراچی میں کس قسم کے تعاون کے طلب گار ہیں؟ جب تک ہم ملک کے اندرونی امن و امان کو خالصتاً پولیس اور پولیس کے اعلیٰ تربیت یافتہ کمانڈو ٹیموں کے ذریعے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور فوجی اور نیم فوجی سکیورٹی اداروں کو واپس بارڈر تک (جو ان کا اصل کام ہے) محدود نہیں کر دیں گے تب تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔
کراچی ہو یا کوئٹہ، سبی ہو یا پشاور ان شہروں میں امن و امان کی ذمہ داری پولیس کے ذمے کر دینی چاہیے اور ہمیں اپنی پولیس پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی آپریشنل ضروریات کو پورا کر کے مستقل امن و امان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات قانون اور آئین شکن افراد کے بارے سرکاری پالیسی ہے۔ جو بھی قانون و آئین توڑے اسے مجرم تصور کرتے ہوئے قرار واقعی سزا دئیے بغیر کو ئی بھی حکومتی و سیاسی داؤ پیچ جذباتی سا آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider