Episode 17 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 17 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

ایران گیس پائپ لائن… کھڈے لائن
بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی طلب میں بھی بے پناہ اضافہ ہو رہا تھا۔ 1960ء کی دہائی کے وسط سے 1970ء کی دہائی کے وسط تک ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی دولت میں مسلسل اضافہ ہوا مگر اس دولت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ ایران کے عوام شدید کرب میں مبتلا تھے اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
مگر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔ جس نے اس جرم کا ارتکاب کیا وہ سخت ترین انجام سے دو چار ہوا۔ رضا شاہ پہلوی کو امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی۔بادشاہ وقت کو زعم تھا کہ ان دو بڑی طاقتوں کے ہوتے ہوئے اقتدار اس کی ذاتی جاگیر ہے۔ پھر اکتوبر 1977 سے مظاہروں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

(جاری ہے)

بادشاہت کے درو دیوار لرز گئے۔

اور آخر کار 16 جنوری 1979 کو رضا شاہ پہلوی ایران سے فرار ہو گیا۔ پھر 11 فروری 1979 کو انقلابیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور آیت اللہ خمینی کی سرپرستی میں انقلاب ایران مکمل ہوا۔ بقول آیت اللہ خمینی اس انقلاب کی جدوجہد میں 70 ہزار افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ بعد ازاں مشہور تاریخ دان عماد الدین باغی کے مطابق اس جدوجہد میں 3164 افراد شہید ہوئے۔
انقلاب ایران کے بعد عرب ممالک پر قائم بادشاہتوں میں بے چینی بڑھ گئی۔ ایران نے اپنے اس بادشاہت کش ”اسلامی انقلاب“ کے نظریے کو اپنی سرحدوں تک محدود نہ رکھا۔ یہ دور پاکستان میں ضیا الحق کی سخت ترین مارشل لا کا دور تھا۔ جب ایک جمہوری حکومت کو ختم کر کے ایک فوجی ڈکٹیٹر ”بادشاہ“ بننے کی راہ پر گامزن تھا۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک جہاں بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ رائج تھی وہاں کے عوام کو انقلاب ایران نے ایک نئی راہ دکھا دی تھی۔
یہ پیش رفت عرب ممالک کے بادشاہوں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ایران نے اپنے انقلابی نظریات پوری دنیا میں بالخصوص اسلامی ممالک میں پوری شدومد کے ساتھ پھیلانے شروع کر دیے جس نے عرب ممالک کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایران کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو دیکھتے ہوئے بالآخر ستمبر 1980 میں عراق کے حکمران صدام حسین جو درحقیقت ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا، کی افواج نے ایران پر حملہ کر دیا۔
یوں پہلی خلیج فارس جنگ (First Persian Gulg War) کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں جن عرب ممالک میں بادشاہت قائم تھی انہوں نے ایران کے خلاف عراق کی بھرپور اخلاقی اور فوجی امداد کی۔ عراق نے ایران کی سرحد کے اندر وسیع علاقے پر قبضہ بھی کیا مگر ایران نے 1982ء میں اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیے۔ یہ طویل ترین جنگ اگست 1988 تک جاری رہی۔ تقریباً تمام عرب اسلامی ممالک نے عراق کی حمایت کی۔
اس جنگ میں دونوں اطراف سے تقریباً 5 لاکھ افراد لقمہ اجل بنے اور تقریباً 10 لاکھ افراد زخمی ہوئے۔ اگر اس تاریخی پس منظر میں پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو ایک بات بہت واضح ہے کہ پاکستان میں عرصہ دراز سے جاری فرقہ ورانہ تناؤ کا بھرپور آغاز دراصل اسی انقلاب ایران کے بعد سے ہوا۔ انقلاب ایران کے بعد پاکستان میں بہت سی ایران کی حمایت یافتہ مذہبی سیاسی جماعتیں منظر عام پر آنا شروع ہو گئیں۔
ایران سے حمایت یافتہ تنظیموں کی ایرانی نظریات کے اشاعت کے بارے ضرورت سے زیادہ ”گرم جوشی“ بھی پاکستانی مذہبی اور دیگر حلقوں میں بے چینی کا باعث بنی۔ اس پیش رفت کے ردعمل کے طور پر یا یوں سمجھ لیجئے انقلاب ایران اورایرانی نظریات کے آگے بند باندھنے کے لیے عرب بادشاہتوں کی حمایت یافتہ مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آ گئی۔ بین الاقوامی سطح پر ایران اور عرب ممالک کے مابین نظریاتی جنگ جہاں ساری دنیا میں لڑی گئی وہاں اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا۔
اسی رسہ کشی نے پاکستان کی اقدار، معیشت اور سب سے بڑھ کر ”قومی اتحاد“ کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایران عراق جنگ کے شروع ہوتے ہی مسلم دنیا میں مسلکی تفریق گہری ہو گئی۔ اس واضح تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ کیونکہ ان دو نظریاتی طور پر مخالف طاقتوں نے اپنی ”پراکسی وار“ اپنی سرحدوں کے بجائے پاکستان کے میدان میں لڑنا شروع کر دی۔
پاکستان میں قائم زیادہ تر حکومتوں کا رخ عرب ممالک اور امریکہ کی طرف رہا اسی وجہ سے پاک ایران تعلقات ماضی میں کچھ زیادہ بہتر نہیں رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ پانچ سال میں جو چند ایک بہترین کام کئے ان میں سے ایک گوادر بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنا اور دوسرا ایران سے گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس حاصل کرنا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی بلاشبہ بھٹو کی جماعت ہے۔
اور ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو کا تعلق ایران کے شہر اصفہان سے تھا۔ لہٰذا بھٹو خاندان کی ایران کے ساتھ وابستگی فطری عمل ہے۔ شاید اسی ”فطری عمل“ کا پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ میں ایک کردار بھی ہے۔ مجھے اور مجھ جیسے دیگر پاکستانی جو اس منصوبے کی تکمیل کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ اس وقت شدید صدمے سے دو چار ہوئے جب ”موجودہ حکومت“ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
جبکہ گوادر پورٹ کے لیے کچھ رقم ضرور مختص کی گئی ہے اسی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بھی جاری رکھا۔ انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنے سے یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ حکومت سے کوئی بغض نہیں رکھتی مگر ایران کے ساتھ اس منصوبے کو ”کھڈے لائن“ لگانے کے پیچھے جو محرکات ہیں ان کی کڑیاں ”ایران عرب سرد جنگ“ سے کسی حد تک ضرور ملتی ہیں۔
کیا پاک ایران گیس منصوبہ برادر عرب اسلامی ملک کی خوشنودی حال کرنے کے لیے تو کھڈے لائن نہیں لگایا جا رہا؟ ہمارے حکمران بھارت سے بنی بنائی بجلی لینے کے لیے بھرپور تیار نظر آتے ہیں اور اس بات کا ہر فورم پر برملا اظہار بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہمسایہ مسلم ملک ایران سے گیس درآمد کر کے بجلی پیدا کرنے کے بارے میں لیت و لعل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں تک کہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے بین الاقوامی معاہدے کا احترام بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ ”آئین پاکستان“ نامی ایک کتاب کی رو سے پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے۔ اس میں کہیں بھی یہ تحریر نہیں کہ ہم بحیثیت پاکستانی اپنے قومی معاملات میں برادر اسلامی ممالک کی خوشنودی کو ملحوظ رکھیں گے۔ اب فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے ہمیں مسلک اور نظریات میں بٹے رہنا ہے یا ایک پاکستانی قوم بن کر صرف و صرف پاکستان کے مفاد کو سب سے مقدم جاننا ہے۔
کیونکہ یہی واحد طریقہ ہے جس سے ہمارا ملک اور ہم قومی یکجہتی اور اخوت کے راستے پر چلتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں جب راجہ پرویز اشرف وزیر بجلی ہوا کرتے تھے تب رینٹل پاور کیس نے خوب شہرت کمائی تھی۔ اور سپریم کورٹ نے دھڑا دھڑ پیشیوں کے بعد اسے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ میری درخواست ہے کہ محترم افتخار چوہدری صاحب اسی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو ختم کیے جانے پر از خود نوٹس لیں۔ کیونکہ ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے خود مختار پاکستان کا روشن مستقبل وابستہ ہے۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider