Episode 50 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 50 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
کسی خوشگوار حیرت کا پاکستان کے موجودہ معروضی حالات میں پیش آنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مگر میں اس معاملے میں خاصا خوش قسمت واقع ہوا۔ ایک قومی نشریاتی ادارے کے ایک لائیو پروگرام کی میزبانی کرنے کے لیے مجھے اسلامیہ یورنیورسٹی بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا۔ پروگرام چونکہ لائیو تھا لہٰذا میں پروگرام کے آغاز سے قبل یونیورسٹی کے ماحول سے کچھ زیادہ آشنا نہ ہو سکا۔
مگر جب پروگرام شروع ہوا اور اسلامیہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے اپنے سوالات کے ذریعے اس میں شرکت کرنا شروع کی تو میں حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔ 
یونیورسٹی کے طلبا کا جوش و خروش قابل دید تو تھا ہی مگر جوش و خروش کے ساتھ عقل فہم، سلیقہ و بردباری جو ان طلباء میں بدرجہ اتم موجود تھی، نے مجھے خاصا متاثر کیا۔

(جاری ہے)

میں بذات خود ملک کی اکثر بڑی جامعات میں وقت فوقتاً جاتا رہتا ہوں۔

مگر اسلامیہ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کے نظم و ضبط اور ان کے علم و دانش نے مجھے کافی حیران کیا۔ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ واقعی جنوبی پنجاب کے اس نسبتاً پسماندہ خطے میں اسلامیہ یونیورسٹی ایک ایسی درسگاہ کی صورت اختیار کر چکی ہے جو نہ صرف اس خطے کی پسماندگی کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی بلکہ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علم ملک کی اجتماعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔
میں اور میرے عزیز دوست شفقت ملک جو قومی نشریاتی ادارے میں ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں اکثر پاکستان خصوصاً جنوبی پنجاب کے تعلیمی اداروں کی مسلسل دگرگوں ہوتی حالت پر تقریباً ماتم ہی کیا کرتے تھے۔ میں چونکہ بذات خود بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے کچھ واقفیت رکھتا ہوں اسی لیے دل خون کے آنسو روتا تھا۔ جب میں ملک کی تعلیمی درسگاہوں کی ابتری پر بات کرتا تھا مگر ادھر بہاولپور آنے کے بعد میں مایوسی کے اندھیروں میں اسلامیہ یونیورسٹی کی صورت میں ایک امید کی کرن دیکھ کر بہت مطمئن اور شاداں ہوں۔
اس عظیم درسگاہ میں اپنے قیام کے دوران مجھے بار بار احساس ہوا کہ گویا میں کسی بین الاقوامی درسگاہ میں موجود ہوں۔ اس احساس کی وجہ محض طالب علموں اور اساتذہ کے رویے نہیں تھے بلکہ پوری درسگاہ کے بارے میں اجتماعی تاثر کافی مختلف تھا، مثال کے طور پر میرے پروگرام سے چند گھنٹے قبل میاں محمد نواز شریف جامعہ اسلامیہ تشریف لائے تو وہاں کی انتظامیہ نے تمام معاملات انتہائی پرسکون انداز میں سر انجام دئیے۔
نہ پروٹوکول کے نام پر پوری یونیورسٹی کو ”بنکر“ اور نہ ہی جبراً کلاسوں کو معطل کیا۔ ایسا رویہ کسی پاکستانی یونیورسٹی کے لیے کافی غیر معمولی بات تھی۔
پروگرام کے دوران اور اس سے قبل بھی سارے ماحول کے پیچھے پوشیدہ وجہ جاننے کے باے میں میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ اسی دوران مجھے حضرت علی کا وہ قول یاد آیا کہ ”جب حاکم وقت تبدیل ہو جاتا ہے تو زمانہ تبدیل ہو جاتا ہے“ آخر میں اس یونیورسٹی کا حاکم وائس چانسلر کے سوا کون ہو سکتا تھا؟ لائیو پروگرام کے آغاز سے چند لمحے قبل آڈیٹوریم میں شور شرابا وائس چانسلر کی آمد پر ”سکوت“ میں تبدیل ہو گیا۔
عجیب بات یہ تھی کہ وائس چانسلر صاحب نے پروگرام کے آغاز سے قبل انتہائی شفیق طریقے سے طلباء سے پروگرام کے دوران نظم و ضبط قائم رکھنے کا کہا تھا۔ ان کا لہجہ کچھ یوں تھا گویا ایک انتہائی شفیق باپ اپنی انتہائی چہیتی اولاد سے مخاطب ہو ۔ جواب میں طالب علموں کے چہروں پر خوف کی بجائے مودبانہ تاثرات قابل رشک تھے۔ یہ وہ عزت ہے جو سخت سے سخت ڈکٹیٹر بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
پروگرام کے فوری بعد میں اپنی صحافتی جبلت کے پیش نظر وائس چانسلر صاحب کو مزید کھنگالنے اور معلومات جمع کرنے میں جت گیا۔
اس انقلابی کردار کی حامل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مختار ہیں۔ آپ اس درسگاہ کے گیارہویں وائس چانسلر ہیں۔ اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے سبب پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار کی اس درگاہ سے محبت ایک فطری عمل ہے۔
مگر یہ موجودہ وائس چانسلر صاحب کی انتھک محنت اور اپنے پیشے سے مخلص ہونے کا ہی ثمر ہے کہ محض تین سال کے قلیل عرصے میں اسلامیہ یونیورسٹی ملکی درجہ بندی میں سترہویں سے آٹھویں نمبر پر آ گئی اور بلا شبہ جنوبی پنجاب میں یہ پہلے نمبر پر ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار نے اپنی ڈاکٹریٹ (PHD) ڈریکسل یونیورسٹی فلا ڈیلفیا (امریکہ) سے مکمل کی۔
اس کے بعد کئی بین الاقوامی درسگاہوں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے مگر اپنے ملک کی خدمت سے سرشار پروفیسر صاحب نے اپنے وطن واپس آ کر جس جذبے سے خدمت کی اسی کا پھل ہے کہ آج اسلامیہ یونیورسٹی اپنی مثال آپ بن چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے تو امریکہ میں ہی مقیم رہتے۔ نہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب، نہ انتظامی سیاست، نہ لاقانونیت کا خوف لاحق ہوتا۔
ان کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے امریکہ سے جڑی تمام سہولیات کو پس پشت ڈال کر محض قومی خدمت کے جذبے سے پاکستان کا رخ کر لیا۔
پروگرام کے بعد چائے پر مختصر ملاقات کے بعد وائس چانسلر ہاؤس میں ایک پرتکلف عشائیہ کے موقع پر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ آپ نہایت نرم دل پر ایک انتہائی قابل ماہر تعلیم ہیں۔ آپ کی شخصیت کا خاص جزو شعبہ تعلیم کے لیے آپ کا بے لوث خلوص اور پاکستان سے شدید محبت ہے۔
وائس چانسلر صاحب کی زیادہ تر توجہ ہائیر ایجوکیشن کی جانب محسوس ہوئی۔ بے شک پاکستان کو اس ضمن میں بہت محنت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کو ڈریکسل یونیورسٹی (امریکہ) کی جانب سے "Sigma XI Scientific Research Award" سے نوازا گیا۔ جو واقعی بڑا اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب کے لا تعداد ایوارڈز اور خدمات ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے حکومت پنجاب نے کسی بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں اپنی نوعیت کا پہلا شمسی توانائی کا پلانٹ اسلامیہ یونیورسٹی میں لگانے کی منظوری دی ہے اور ڈاکٹر صاحب کو اس منصوبے کی کمیٹی کا سربراہ بھی مقرر کیا ہے۔
جو جامعہ اسلامیہ میں 2.5 میگا واٹ کے سولر پاور پلانٹ کی تنصیب کی نگرانی کرے گی۔
ڈاکٹر صاحب کی ذاتی شخصیت کے لحاظ سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مقام پر پہنچنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب غرور و تکبر کی چھایا سے بھی دور نظر آتے ہیں۔ آپ انتہائی عاجز طبیعت اور درویش صفت انسان ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی ہوش ربا ترقی بے شک دیگر جامعات کے لیے ایک کیس سٹڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور بے شک پروفیسر ڈاکٹر مختار پاکستان کا عظیم سرمایہ ہیں۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider