Episode 33 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 33 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

دہشت گرد کیسے بنتا ہے……؟
وہ چودہ سالہ ایک قبائلی علاقے کا لڑکا کسی نہ کسی طرح بھاگ کر ایک مقامی این جی او کے دفتر تک پہنچ گیا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد اس نے واپس اپنے گاؤں جانے کی ضد کر ڈالی جس پر وہ سب سوشل ورکر حیران تھے جو اسے ایک نئی زندگی کی شروعات کے لیے گزشتہ کچھ دن سے مسلسل حوصلہ دے رہے تھے۔ ”میں یتیم ہوں، ایک ٹرک ڈرائیور نے مجھے اپنے ساتھ رکھ لیا۔
مجھے کوئی کام کرنا نہیں آتا۔ نہ میں پڑھا لکھا ہوں۔ میں یہاں کیا کروں گا۔“ وہ مسلسل یہی بات دہرائے جا رہا تھا۔ اس لڑکے نے بتایا کہ اس کے گاؤں میں ایک شخص اسے کچھ کام دے سکتا ہے وہ پہلے بھی کچھ لڑکوں کو کام پر لگا چکا ہے۔ اب ان لڑکوں کی عزت ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف اور جیب میں ڈھیروں روپے ہیں۔

(جاری ہے)

“ میں بھی گاؤں جا کر اس سے ملوں گا اور ایک دن اس ٹرک ڈرائیور اور مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے سے اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کا حساب چکتا کروں گا۔

“ اس پختون لڑکے نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے رشتہ داروں نے انتہائی کم عمر میں اسے مدرسے میں داخل کروا دیا تھا۔ مولوی صاحب اکثر اسے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ ایک دو بار اس نے بھاگنے کی ناکام کوشش کی تو زنجیروں میں جکڑ کر کئی دن تک بھوکا بھی رکھا گیا۔ وہ وہاں سے بھاگ کر ایک ہوٹل میں ملازمت کرنے لگا تو ایک ٹرک ڈرائیور اسے دگنی اجرت کا لالچ دے کر اپنے ساتھ لے گیا اور پھر کئی روز اس پر تشدد کرتا رہا اور کام کے عوض اسے اجرت بھی نہ ملی۔
اب حال یہ تھا کہ چودہ سال کا وہ لڑکا اپنے تئیں کسی نام نہاد جہادی تنظیم سے منسلک ہو کر سب سے اپنا بدلہ خود لینا چاہتا ہے۔ قارئین کرام نہ تو یہ پہلا لڑکا ہے جس کے ساتھ یہ سب ہوا اور نہ ہی آخری…
افغان جنگ کے دوران لا تعدادبچے یتیم ہوئے اس وقت کے مجاہدین روس کو خاک چٹانے میں تو کامیاب ہوئے مگر ہمارے بیشتر قبائلی علاقوں میں سینکڑوں ہزاروں بچے یتیم ہو گئے۔
ناقص سہولیات اور حکومتی مشینری کی بے حسی کے باعث اس وقت کے یہ یتیم بچے مختلف مدارس میں چلے گئے۔ بہتر تعلیم اور کوئی خاطر خواہ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے یا تو مختلف ہوٹلوں میں ”چھوٹے“ بن گئے یا پھر کسی سفاک اور حیوانی فطرت والے ٹرک ڈرائیور کے ہتھے چڑھ گئے۔ جب افغانستان سے روسی افواج کا انخلاء ہوا تو ملک کے ان علاقوں میں جہادی پیدا کرنے کی انڈسٹری اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔
افغان جنگ کے بعد کشمیر کے محاذ پر لڑنے کے لیے دھڑا دھڑ نوجوانوں کو جہاد کے لیے بھرتی کیا جانے لگا۔ یہ جہادی گروپس بلاشبہ کسی ٹرک مالک اور ہوٹل والے سے زیادہ بہتر آپریشن تھے۔ یہ جہادی تنظیمیں ان نوجوانوں کو نا صرف باعزت شناخت دیتیں بلکہ معاشرے سے انتقام لے کر اپنے غصے کی تسکین کا راستہ بھی فراہم کرتیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا میں مجاہد اور غازی کا لقب اور راہ جہاد میں شہادت کی صورت میں جنت کا کنفرم ٹکٹ۔
لہٰذا استحصال کا شکار نوجوان طاقت کے حصول کی خاطر جوق در جوق ”جہادی“ بنتے گئے۔ میڈیکل سائنس اور سائیکالوجی کی رو سے ایسے بچے جو کم سنی میں تشدد کا شکار ہوتے ہیں ان میں بے چینی اضطراب، غصہ اور انتقام اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اور موقع ملنے پر سالہا سال سے دل و دماغ میں پکنے والا آتش فشاں پھٹ جاتا ہے۔ ان جہادی گروپس کو ان نوجوانوں پر ہوئے تشدد کے نتیجے میں ان کے اندر موجود غصے کی شدت کا ادراک تھا۔
اسی لیے انہوں نے ان نوجوانوں کو اپنا غصہ اور بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ پھر غربت بھی ان محرکات میں سے ایک اہم محرک تھا۔ اکثر شدت پسندوں کے بڑے بڑے لیڈران ماضی میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارتے تھے۔ کوئی بس ڈرائیور تھا تو کوئی دیہاڑی دار مزدور۔ مختصراً، لاکھوں میں کھیلتے ہوئے ان جہادی لیڈران کے پاس اسلحے کی طاقت نہ ہو تو وہ اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر کسی بنک کے سکیورٹی گارڈ بننے کے لائق بھی نہیں۔
مگر دیکھتے ہی دیکھتے ان کے پاس پہلے ہتھیار آئے پھر پیسہ آیا۔ پھر طاقت بڑھی اور درجنوں گاڑیاں ان کی گاڑی کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو گئیں۔ انہی مذہبی شدت پسند کمانڈروں کو بطور رول ماڈل نوجوانوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ جو جتنا زیادہ سفاک ہوتا وہ اتنا ہی بڑا لیڈر بن سکتا تھا۔
نوجوان جہادیوں کی ایک اور قسم جو افغان جہاد میں ہلاک ہونے والے افراد کی اولادیں تو نہیں بلکہ ان کا تعلق پنجاب کے متوسط اور پسماندہ ترین خاندانوں سے ہے۔
ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو تعلیمی میدان میں ناکام ترین نوجوان تھے۔ ان میں سے اکثر بار بار فیل ہو کر تعلیم کو خیرآباد کہہ چکے تھے۔ کیونکہ جہادی بننے کے لیے کسی تعلیمی میرٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے بندوق چلانے کی خواہش ہی کافی ہے۔ اسی طرح ایک اور نوجوان جہادیوں کی قسم جو تعداد میں بہت کم مگر خطرناک ترین ہیں۔ یہ اچھے خاصے پڑھے لکھے تو ضرور ہیں مگر خطرناک ترین ہیں۔
یہ اچھے خاصے پڑھے لکھے تو ضرور ہیں مگر معاشرے میں موجود رشوت اقربا پروری، اور سفارشی وغیرہ جیسی برائیوں کی وجہ سے حلال روزگار ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئے تو ”جہاد“ کے ذریعے اپنے معاشی حالات کی درستگی سے شروعات کرتے ہوئے ساری دنیا میں موجود برائیوں کا خاتمہ کرنے نکل پڑے۔ اس طرح ان سب اقسام کے نوجوانوں نے ہتھیار اٹھائے اور آج یہی لوگ ساری دنیا کیخلاف اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔
ان شدت پسندوں کا تاریخی پس منظر سمجھنے کے لیے 80ء اور 90ء کی دہائی میں قائم جہادی کیمپوں کا تجزیہ کرنا اہم ہے۔ عسکری مقاصد کے لیے تیار کیے جانیوالے جہادیوں کو مخصوص کیمپوں میں رکھا جاتا تھا جہاں ماہر نفسیات قسم کے مولوی حضرات مذہب کی خاص قسم کی تشریح کر کے ناپختہ ذہنوں والے نوجوانوں کو مرنے مارنے کے لیے تیار کر لیتے تھے۔ یہ سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کی ایک واضح مثال ہے۔
پھر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان ماہر نفسیات/ مذہبی اساتذہ میں سے کچھ خاص طور پر خود کش بمبار تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ خودکش بمبار زیادہ تر 10 سے 20 سال کے درمیان کی عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے ذہن انتہائی ناپختہ ہوتے ہیں جنہیں اپنی مرضی کے نظریے پر ڈھال لیا جاتا ہے۔ یہ تمام اقسام کے شدت پسند اپنی ہی مرضی کی شریعت پر ناصرف خود عمل پیرا ہیں بلکہ اس کا نفاذ پورے پاکستان میں چاہتے ہیں۔
حکومت ان شدت پسندوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذاکرات کیونکر کامیاب ہوں گے؟ شدت پسند محض ہتھیار اٹھا کرا پنے مطالبات کو منوانا جانتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی اعلیٰ یا رسمی تعلیم ہے اور نہ ہی کوئی ہنر ہے۔ اگر مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ملک میں امن قائم ہو بھی گیا تو ان جہادی تنظیموں میں شامل ہزاروں افراد کا روزگار کیا ہو گا؟ کیا یہ لوگ جن میں اکثریت قبائلی علاقوں کے مکینوں کی ہے محنت مزدوری کریں گے؟ ایسا قطعاً نہیں ہو گا۔
اگر مذاکرات کامیاب ہوئے اور یہ جنگ ختم ہو گئی تو ان شدت پسندوں کو ملنے والی ”بیرونی امداد“ بند ہو جائے گی۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص جو بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوا اور بعد ازاں اپنے اندر چھپے اور مسلسل بڑھتے ہوئے غصے اور انتقام کی خاطر ہتھیار اٹھا کر نا صرف اپنا انتقام لے رہا ہے بلکہ اپنی معاشی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے وہ کیونکر امن معاہدہ کر کے پھر کسی ہوٹل پر ”چھوٹا“ بننا چاہے گا؟

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider