Episode 58 - Bay Laag By Syed Zeeshan Haider

قسط نمبر 58 - بے لاگ - سید ذیشان حیدر

سندھ یاترا
راقم الحروف کو چند روز قبل اپنے ایک دوست کی شادی پر اس کے آبائی گھر تحصیل روڈ ضلع نوابشاہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ذہن و خیال میں کافی تجسس تھا کیونکہ پہلی دفعہ اندرون سندھ جا رہا تھا۔ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہاں کی آب و ہوا، لوگوں کا رہن سہن اور سیاسی و سماجی حالات کیسے ہیں؟ میں بذریعہ ٹرین رات دو بجے ریلوے اسٹیشن پر اترا۔
جہاں موجود میرے دوست نے میرا گرمجوشی سے استقبال کیا اور اسٹیشن پر ہم نے گرما گرم چائے پی۔ چائے ختم ہوئی تو میرے دوست نے کہا کہ ”ابھی گھر جانا درست نہیں (کیونکہ میرے دوست کا گھر شہر سے باہر ایک گاؤں میں تھا)۔ اس لیے کل صبح جب سورج نکلے گا تو دن کے اجالے میں گھر جائیں گے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا ”وہ کیوں؟“ اس نے جواب دیا کہ اندرون سندھ کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی مسلح راہزن ہماری گاڑی چھین لے گا، اس لیے اگر ہم 10 سے 12 افراد ہوں تب گاؤں جا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس لیے رات ہمیں اسی شہر میں گزارنی ہو گی۔ اس طرح رات اپنے دوست کے قریبی عزیز کے گھر گزاری۔ صبح جب آفتاب طلوع ہوا۔ تو ہم گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر پہنچے، ناشتہ کیا۔ جس کے بعد میرا دوست مجھے اپنے قریبی عزیز کے اوطاق (پنجاب میں جس کو ڈیرہ کہتے ہیں) پر لے گیا۔ جہاں پر موجود لوگوں سے میرا تعارف کرایا۔ اور میں وہاں پر موجود لوگوں میں گھل مل گیا۔
گفتگو کے دوران جو بات رات سے میرے دماغ میں چپکی بیٹھی تھی تو وہ حاضرین محفل سے پوچھ ہی ڈالی کہ ”اندرون سندھ کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں کہ آپ 10سے 12 افراد کے بغیر سفر نہیں کر سکتے؟“ تو محفل میں موجود ایک شخص نے بتایا کہ آپ پنجاب سے آئے ہو کالم نویس ہو۔ اندرون سندھ کے حالات پر بھی لکھو کہ ہم لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟ ہماری روزانہ کی سرگرمیاں صرف دن کے اجالے تک محدود ہیں۔
رات کو ہم کوئی کام نہیں کر سکتے حتیٰ کہہ ہم رات کو ایک گوٹھ (سندھ میں گاؤں کو گوٹھ کہتے ہیں) سے دوسری گوٹھ میں نہیں جا سکتے ہیں۔ اگر ہماری کوئی چیز چور ی دوران سفر کوئی راہزن چھین لے تو وہ چیز واپس تو مل جاتی ہے۔ لیکن ہمیں ”بھونگ“ ادا کرنا پڑتی ہے۔ جب میں نے یہ سب کچھ سنا تو تجسس بھری نظروں سے اس شخص کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ ”بھونگ“ کیا چیز ہے؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ اندرون سندھ کے اندر آپ کو ڈاکوؤں سے اپنی چیز صرف اس صورت میں مل سکتی ہے اگر اس چیز کی مالیت کی نصف رقم اس ڈاکو گروہ کو ادا کریں۔
میں نے کہا اندرون سندھ میں کوئی چیز دو قسطوں میں چوری ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئی چیز دوبار چوری ہو یا چھین جائے تو مطلب اس چیز کی نصف نصف مالیت ادا کر کے اس چیز کو دوبارہ خرید لیا۔ تو اس شخص نے کہا کہ آپ نے بالکل درست کہا۔ میں اندرون سندھ کے یہ حالات دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا۔ میں نے حاضرین محفل سے پوچھا کہ ”اندرون سندھ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟“ تو محفل میں موجود ایک اور شخص نے بتایا کہ یہاں صرف قیمتی اشیاء نہیں لوٹ لی جاتیں بلکہ لوگوں کو بھی اغوا کر لیا جاتا ہے جس کی بازیابی کے لیے تاوان کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔
یہ سب باتیں سن کر میں خود کو گاؤں کی کھلی فضا میں غیر محفوظ سمجھنے لگا۔
اس کے بعد میں اور میرا دوست واپس گھر آئے۔ دوپہر کا کھانا کھایا۔ کچھ دیر آرام کیا اور عصر کی نماز کے بعد کرکٹ کھیلی۔ شام کو میرے دوست نے کہا کہ ”تم نے پنجاب یوتھ فیسٹیول تو دیکھا ہے ”آج میں تمہیں ”اندرون سندھ فیسٹیول“ دکھانے لے چلتا ہوں۔ میں نے دوست کی یہ پیش کش قبول کر لی۔
ہم 12 دوست قافلے کی صورت میں گاؤں سے 10 کلومیٹر دور فیسٹیول دیکھنے موٹر سائیکلوں پر چل پڑے۔ فیسٹیول میں پہنچے پارکنگ میں موٹر سائیکلیں کھڑی کیں۔ ٹوکن لیا اور فیسٹیول کے اندر داخل ہو گئے تو وہاں میرے لیے بڑی حیران کن صورت حال تھی کیونکہ وہاں پر ہر طرف سپیکروں کا بے ہنگم شور تھا اور وہاں موجود خواجہ سرا رقص کی بجائے اعضاء کی نمائش کر رہے تھے۔
ان خواجہ سراؤں کی چیخ و پکار سن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے میں تھری ڈی سینما پر کوئی ڈراؤنی فلم دیکھ رہا ہوں۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ یہ سب مناظر دیکھ کر میں نے دوست سے گھر واپس جانے کا کہا تو اس نے میرے چہرے پر موجود پریشانی کے آثار کو بھانپتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ دی اور کہا کہ ٹھیک ہے چلو، چلتے ہیں۔ ہم 12 دوستوں کا قافلہ فیسٹیول سے واپس گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔
میرے دوست نے کہا کہ رات کافی ہو چکی ہے اب ہمیں ایک قافلے کی صورت میں واپس اپنے گاؤں جانا ہو گا کیونکہ اگر ایک بھی دوست کی موٹر سائیکل پیچھے رہ گئی تو وہ کسی بھی مشکل میں پھنس سکتا ہے۔ ہم ایک گروہ کی شکل میں اللہ کو یاد کرتے ہوئے واپس اپنے گھر پہنچے۔
رات کافی ہو گئی تھی اور بستر پر لیٹتے ہی مجھے نیند آ گئی۔ صبح جب آنکھ کھولی۔ گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور پورے گاؤں کا نظارہ کیا تو مجھے وزیر مملکت پانی، بجلی عابد شیر علی کی یہ بات غلط لگی کہ اندرون سندھ میں 99 فیصد بجلی بذریعہ ”کنڈا سسٹم“ چوری ہو رہی ہے۔
لیکن میرے سامنے جو مناظر تھے۔ اس میں 100 فیصد بجلی چوری کی جا رہی تھی۔ ہر گھر پر کنڈے ہی کنڈے نظر آ رہے تھے جن کے ذریعے دھڑلے سے بجلی چوری کی جا رہی تھی۔ جب اس صورتحال کے بارے میں مَیں نے ایک دوست سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ گاؤں میں جب بھی میٹر ریڈر آتا ہے تو اس کو ہر گھر منتھلی دے کر اس کی آنکھیں بند کر دیتے ہیں اور وہ بھی جیب گرم کر کے زبان بند کر لیتا ہے۔
دوست کی شادی ختم ہوئی۔ میں نواب شاہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچا جہاں میں نے لاہور کا ٹکٹ خریدا اور پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا۔ جہاں مجھ سے نوابشاہ کا ایک صحافی ملنے آیا تو میں نے اس صحافی دوست سے پوچھا کہ یہاں قانون و انصاف نام کی کوئی چیز کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ اتنے عدم تحفظ کا شکار کیوں ہیں؟ اس نے بتایا کہ اندرون سندھ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار قومی اور صوبائی اسمبلی میں بیٹھے اندرون سندھ کے نمائندے ہیں۔
یہاں لوٹ مافیا اور ڈاکو کلچر کی سرپرستی یہ نمائندے کر رہے ہیں۔ میرے صحافی دوست نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جس صوبے کا وزیراعلیٰ ”سست“ ہو اس صوبے کا یہی حال ہو گا۔ اگر ہمارے صوبے کا سربراہ میاں شہباز شریف جیسا چست اور تیز آ جائے تو اندرون سندھ کے حالات کافی درست ہو سکتے ہیں۔ میں خود شریف برادران کا بہت بڑا نقاد ہونے کے باوجود حالیہ تجربے کے تناظر میں صحافی دوست کی بات پر کوئی رد عمل نہ دے سکا۔ گفتگو کے دوران ہی ٹرین آ گئی اور میں ٹرین پر سوار ہو کر واپس لاہور آ گیا۔

Chapters / Baab of Bay Laag By Syed Zeeshan Haider