کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جنوری2021ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے اچھی کوالٹی کی روئی کی خریداری میں دلچسپی کی وجہ سے روئی کے بھاؤ میں مسلسل تیزی کا عنصر غالب رہا۔ مناسب بھا ؤحاصل ہونے کی وجہ سے جنرز بھی اسٹاک کم کر رہے ہیں جس کے باعث کاروباری حجم بھی مناسب رہا۔ اچھی روئی کا بھاؤ بڑھ کر فی من 11000 روپے گزشتہ 10 سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا انتہائی کم فصل اور بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھا ؤمیں اضافہ کی وجہ سے فی الحال بھاؤ میں کمی آنی مشکل لگ رہی ہے البتہ اضافہ کا امکان ہے۔
ٹیکسٹائل ملز کے بیشتر گروپوں نے بیرون ممالک سے وافر تعداد میں روئی کے درآمدی معاہدے کرلئے ہیں جس کے سبب ان کی خریداری کم ہے لیکن جن ملوں نے اپنا کوٹہ پورا نہیں کیا ہے وہ مارکیٹ میں موجود ہیں جبکہ بڑے گروپ اکا دکا خریداری کررہے ہیں دوسری جانب پولیسٹر فائبر کے بھا ؤمیں بھی گاہے گاہے اضافہ ہوتا جارہا ہے حکومت کی جانب سے آئے دن توانائی اور
بجلی کے ریٹ میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور سب سے بڑی مصیبت تو فروری میں Capative
گیس استعمال کرنے والی صنعتوں کو
گیس کی فراہمی منقطع کرنے کی منظوری دی گئی ہے برآمدی صنعتوں کی
گیس یم مارچ سے منقطع کرنے کی منظوری دی گئی ہے جس کے باعث صنعتوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔
(جاری ہے)
ویلیو ایڈٹ کی برآمدی صنعتوں کی
گیس منقطع کرنے کا ان کے ادارے CAPTA نے مخالفت کی ہے۔صوبہ
سندھ میں روئی کا بھاؤ فی من 10200 تا 10700 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 4000 تا 4900 روپے بنولہ کا بھا ؤفی من 1600 تا 1900 روپے جبکہ صوبہ
پنجاب میں روئی کا بھا ؤفی من 10300 تا 11000 روپے پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 4000 تا 5500 روپے بنولہ کا بھاؤ فی من 1700 تا 2200 روپے صوبہ
بلوچستان میں صرف دلبدین میں پھٹی دستیاب ہے جس کا بھا ؤفی 40 کلو 5500 تا 5600 روپے چل رہا ہے۔
کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 200 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 10800 روپے کے بھاؤ پر بند کیا
۔کراچی کاٹن برورز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں بھی روئی کے بھا ؤمیں تیزی کا عنصر برقرار ہے۔خصوصی طور پر نیویارک کاٹن کا بھاؤ بڑھ کر فی پانڈ 82 امریکن سینٹ ہوگیا ہے USDA کی روئی کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ میں گزشتہ ہفتہ کے نسبت 10 فیصد برآمد کم بتائی گئی ہے جس کی وجہ سے بھاؤ مستحکم رہنے کی توقع ہے اس دفعہ
چین نے
درآمد نہیں کی ہے بلکہ 22 ہزار گانٹھوں کے سودے کینسل کئے۔
برازیل، وسطی ایشیا میں روئی کے بھاؤ میں اضافہ کا رجحان برقرار ہے۔ خصوصی طور پر
بھارت میں روئی کا بھاؤ مستحکم ہے وہاں نئی فصل 21-2020 کی سیزن کا کاٹن وافر مقدار میں تیار ہورہا ہے کپاس کی فصل بھی تسلی بخش بتائی جاتی ہے CCI حکومت کی Minimum Support Price پر خاصی تعداد میں کاشتکاروں سے پھٹی خرید کر جننگ کروائی جاتی ہے اور جنرز سے بھی روئی کی خریداری کی جاتی ہے جس کے باعث وہاں کے کاشتکار اور جنرز کو خاص support ملتا ہے علاوہ ازیں حکومت بھی کاشتکاروں اور جنرز کو مراعات دیتی ہے جس سے کپاس کے کاشتکاروں اور جنرز کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن ہمارے کاشتکاروں اور جنرز کو معمولی مراعات دی جاتی بلکہ معیاری بیج اور معیاری ادویات کا بھی فقدان ہے جس کے باعث کاشتکار اور جنرز بری طرح دلبرداشتہ ہوگئے ہیں۔
نسیم عثمان کے کہنے کے مطابق کپاس کے
کاروبار سے منسلک کئی اسٹیک ہولڈرز حکومت کے متعلقہ احباب سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے فوجی بنیادوں پر حکمت عملی کی جائے فی الحال PCGA اور کاٹن بروکرز متحرک نظر آرہے ہیں اور کاشتکاروں کی انجمنیں متعلقہ سرکاری اداروں، APTMA اور KCA کو بھی کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے حدالامکان کوششیں جاری رکھنی چاہئے فی الحال کسی ذمہ دار کے کان پر جو نہیں رینگتی نئی فصل کی بوائی کے دن نزدیک آرہے ہیں لیکن کوئی پرسانے حال نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کپاس کی فصل بڑھانے کیلئے ایپٹما کے مرکزی رہنما گوہر اعجاز کی سربراہی میں Cotton Crop Task Force تشکیل دے رکھی ہے گوہر اعجاز کے کہنے کے مطابق وہ ٹیکسٹائل کے 5 بڑے گروپوں کے ساتھ ملکر کپاس کی فصل بڑھانے کیلئے کوشش کریں گے بیرون ممالک سے ٹیکنولوجی مہیا کریں گے لیکن اب تک کوئی عملی اقدام نظر نہیں آرہا وہ اس کے متعلق خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ان سے رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا اس کے متعلق کوئی اپ ڈیٹ دیں تو دیگر فکرمند اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔
پی سی جی اے کپاس کی فصل بڑھانے اور جنرز کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے دو مہینے پہلے
اسلام آباد میں Cotton Seminar منعقد کیا گیا تھا جس میں وفاقی مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داد اور وفاقی وزیر MNFSR سید فخر امام شامل تھے ان دونوں حکومت کے مشیروں نے Cotton Seminar میں اپنے خطاب میں ہی واضح کر دیا تھا کہ حکومت کپاس کی پیداوار بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس سیمینار میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا Seminar ختم ہونے کے بعد میں نے PCGA کے چیئرمین
ڈاکٹر جیسومل لیمانی سے کہا تھا کہ سیمینار سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ موصوف سید فخر امام نے اپنے خطاب میں واضح کردیا تھا کہ ہم کپاس کے بیج
درآمد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مقامی طور پر نئے معیاری بیج تیار کریں گے۔
کب دوسری جانب موصوف عبدالرزاق داد نے کاٹن کو سلور Silver نہیں بلکہ گولڈن Golden گردانا تھا لیکن انہوں نے بھی وضاحت کردی تھی کہ حکومت کا کپاس کی امدادی قیمت Support Price مقرر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے دونوں وزرا کا انکار ہوگیا کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے کیا رہ گیا ہے۔دوسری جانب گزشتہ تقریبا تین ماہ سے ہم اپنے کالموں میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے تجاویز پیش کر رہے ہیں دو مہینے سے کہہ رہے ہیں کہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے مثبت پالیسی ترتیب نہ کی گئی اور پوری سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ کپاس کی پیداوار مزید کم ہو جائے گی ہم حکومت کے ذمہ داروں کو متنبہ کرتے رہے کہ "ابھی نہیں تو کبھی نہیں" کیونکہ کپاس کے کاشتکاروں کو گزشتہ کئی سالوں سے زبردست
نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
وہ دیگر فصلوں کی جانب چلے گئے تو پھر دوبارہ ان کو کپاس کی فصل پر آمادہ نہیں کیا جاسکے گا لیکن اب نئی فصل کی بوائی سر پر آ چکی ہے اور ہنوز کوئی مثبت اقدام ناپید ہے ہمارے کئی ساتھی کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے اپنی تجاویزات پیش کر رہے ہیں تبصرہ اور آرا بھی پیش کر رہے ہیں جس میں میجر محمد کاشف، احسان الحق ، سید مدبر شاہ وغیرہ سرگرم عمل ہیں لیکن اب تجاویز اور تبصرہ کا وقت ختم ہوتا جارہا ہے۔حکومت کے متعلقہ اداروں کی جانب سے دلچسپی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ان پر کسی طرح دبا ڈالا جاسکے تو ہی مسئلوں کا حل ہوسکے گا۔