15 ممالک کے تجارتی معاہدے پر امریکہ خائف

کیا ”آر سی ای پی“ آئندہ 20 برس میں کئی اشیاء کی برآمد پر ٹیکس ختم کر دے گا؟

منگل 1 دسمبر 2020

15 mumalik k tijarti muahide per america khaef
محبوب احمد
آزاد معیشت کا نیا اتحاد امریکہ،میکسیکو اور کینیڈا کے اتحاد کے علاوہ یورپی یونین سے بھی بڑا ہے کیونکہ ”آر سی ای پی“ کے اراکین ممالک کی کل پیداوار مجموعی عالمی پیداوار کا 29 فیصد ہے۔”آر سی ای پی“ کے تحت ہونے والے اس معاہدے کو کثیر الجہت سوچ اور آزاد معیشت کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔”ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ“میں جنوبی کوریا،چین،جاپان،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت 10 جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے جو سب سے بڑا تجارتی اتحاد قائم کیا ہے وہ عالمی معیشت کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔

اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہیں کہ”کورونا“ عالمی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے لہٰذا موجودہ عالمی صورتحال کے پیش نظر اس معاہدے کے دور رس نتائج حاصل ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ 8 برس سے ”آر سی ای پی“ سے متعلق مذاکرات جاری تھے بالآخر جس معاہدے پر ”ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز“ کے ورچوئل اجلاس کے موقع پر دستخط کئے گئے ہیں اس میں جملہ حقوق کے حوالے سے ٹیلی کمیونیکیشنز،مالیاتی سروسز،ای کامرس اور دیگر متعدد پیشہ وارانہ سروسز کے حوالے سے خصوصی شقیں موجود ہیں۔


کیا ”آر سی ای پی“ آئندہ 20 برس میں کئی اشیاء کی برآمد پر ٹیکس ختم کر دے گا؟،یہاں قابل غور امر یہ بھی ہے کہ اس معاہدے کے رکن ممالک میں سے کئی ایک کے درمیان پہلے ہی فری ٹریڈ معاہدے ہیں تاہم ان میں کچھ باتیں محدود کی گئی تھیں لیکن موجودہ فری ٹریڈ معاہدے آر سی ای پی کے مقابلے میں کافی پیچیدہ ہیں جن کاروباروں کی سپلائی چین یعنی اشیاء کی رسد کئی ممالک پر محیط ہے ان پر فری ٹریڈ معاہدے کے باوجود ٹیکس لگ سکتا ہے کیونکہ ان کی اشیاء کے جز کسی دوسرے ملک سے لائے گئے ہوتے ہیں،مثال کے طور پر اگر انڈونیشیاء میں بنی کوئی چیز میں آسٹریلیا سے لائے گئے اجزاء ہیں تو آسیان کی فری ٹریڈ زون میں اسے برآمدگی کے ٹیکس کا سامنا ہو سکتا ہے۔

”آر ای سی پی“ کے تحت کسی بھی چیز کو بنانے کے لئے کسی اور رکن ملک سے لائے گئے اجزاء کو برابر تصور کیا جائے گا اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کمپنیاں اب اپنی اشیاء بنانے کے لئے خطے کے ممالک سے ہی اجزاء خریدنے کی کوشش کریں جس سے مقامی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے، اس معاہدے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں کچھ ممالک ایک دوسرے سے ایسے جڑ گئے ہیں جو کہ عام طور پر تجارت کے معاملے میں سفارتی تعلقات میں خرابی کی وجہ سے مل کر کام نہیں کرتے تھے جیسے کہ جاپان اور چین یہی صورتحال آسٹریلیا اور چین کی بھی ہے لہٰذا اس معاہدے کو چین کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو امریکہ اور بعض مغربی ممالک کیلئے درد سر بن چکا ہے۔

امریکہ کو اس معاہدے میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اس نے 2017ء میں ایک مخالف ایشیاء پیسیفک تجارتی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں منصب صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ”ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ“ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا اس معاہدے میں 12 ممالک شامل تھے اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسے سابق امریکی صدر باراک اوباما کی حمایت بھی حاصل تھی۔

بھارت بھی ان مذاکرات کا حصہ تھا لیکن گزشتہ برس اس نے علیحدگی اختیار کی تھی۔
دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ اور چین کی اقتصادی ترقی نے امریکہ کو ایک نئے دور اہے پر لا کھڑا کیا ہے۔چین نے عسکری محاذ پر الجھنے کے بجائے امریکہ کے اقتصادی غبارے سے ہوا نکالنے کی ٹھانی ہوئی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں کشیدگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔

معیشت اور مالیاتی کے شعبے میں امریکہ کا سب سے بڑا زوال یہ ہے کہ وہ آج قرض دینے والے ملک کے بجائے ”مقروض“ ملک میں تبدیل ہو چکا ہے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے دفاعی اور سماجی شعبے کے منصوبوں سے متعلق اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ترقی پذیر ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے نکالنے کیلئے چین نے نیا ایشیائی بینک بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے بھی ایک مثبت قدم اٹھایا۔

چینی حکومت جو تجارتی اصول متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اس سے دنیا بھر میں پھیلا ہوا امریکہ کا کاروبار بری متاثر ہو رہا ہے۔امریکہ اور نیٹو افغانستان میں جس بری طرح سے شکست سے دو چار ہوئے اس کے اثرات آج پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رہے ہیں۔
افغانستان کی جنگ امریکی تاریخ کی مہنگی اور طولانی ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس جنگ میں ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 10 کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

سوویت یونین سے کہیں زیادہ بڑی طاقت ہونے کی وجہ سے امریکہ کی عالمگیر بالادستی کا رعب اس وقت پوری دنیا پر طاری ہے چنانچہ امریکہ کے زوال کے ذکر پر کوئی چونکتا ہے،کوئی طنز سے مسکراتا ہے اور کوئی خفگی کا اظہار کرتا ہے حالانکہ اب یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں کے زوال کی طرح امریکہ بھی تباہی کی طرف گامزن ہے۔ 2003ء کے بعد امریکہ پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل تقریباً 500 ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہوا تھا جو 2008ء میں قرضوں میں ایک کھرب ڈالر 2009ء میں 2 کھرب ڈالر،2010ء میں 1.7 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ جون 2011ء تک امریکہ کے واجب الادا قرضوں کا حجم مجموعی طور پر 14.46 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا۔

امریکہ کا حریف بننے کی صلاحیت رکھنے والے چین نے جہاں اپنی معاشی طاقت اور بلند شرح پیداوار کے ذریعے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا ہے وہیں دنیا کی سب بڑی معاشی طاقت امریکہ کی گزشتہ چند برس سے معیشت سست روی کا شکار ہونے سے لاکھوں شہری بے روزگار ہیں،بجٹ خسارے اور سیاسی پارٹیوں میں اختلافات پروان چڑھ رہے ہیں۔
امریکہ اور چین کی عالمی تجارتی جنگ سے دنیا کے گلوبل ویلج کے تصور کو شدید دھچکا لگا ہے۔

عالمی منظر نامے پر امریکہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہوا ہے اور اس کا نظارہ دنیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دیکھ بھی چکی ہے،برطانیہ اور یورپ جیسے دیرینہ اور بھارت جیسے نئے دوست بھی یروشلم کے معاملے پر امریکہ سے دور کھڑے نظر آئے۔چین نے امریکہ کے مقابلے میں سب سے بڑے عالمی تجارتی معاہدے کی بنیاد رکھی ہے جو مستقبل میں ان ممالک کی خارجہ پالیسیوں کو بھی متاثر کرے گا جس سے دھیرے دھیرے یہ بھی ”آر سی ای پی“ کی جانب کھنچے چلے آئیں گے جس سے امریکہ کے تجارتی تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے۔

بحیرہ چین کے جنوبی حصے میں امن و امان اور سکیورٹی صورتحال چین کے عالمی منصوبے ”ون بیلٹ ون روڈ“ کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ چین ”ایشین“ تنظیم کے رکن ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بحیرہ چین کے جنوب میں واقع رکن ممالک سے تعلقات کو فروغ دے کر اس خطے میں موجود تنازعات کی شدت میں کمی لانے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔


چین ”آر سی ای پی“ کے ذریعے بحراوقیانوس کے اطراف ممالک میں تجارتی سر گرمیاں انجام دے سکتا ہے ان ممالک کی منڈیوں میں چین کی موجودگی اسے امریکہ کے مقابلے میں مزید طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات نے چین کو اقتصادی سرگرمیوں میں وسعت لانے کا موقع فراہم کیا ہے کیونکہ اس وقت ٹی پی پی میں شمولیت کے خواہش مند ممالک آر سی ای پی میں شامل ہو چکے ہیں۔

1995ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا آغاز ہوا تو عالمی تجارت میں اسے نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن ڈبلیو ٹی او کے تحت ابتدائی چند برس ہی میں ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کو اندازہ ہونے لگا کہ فری ٹریڈ کے اس عالمی فریم ورک کے پردے میں ترقی یافتہ ممالک نے قوانین و ضوابط کو کچھ یوں ترتیب دیا کہ بیشتر صورتوں میں عالمی تجارت پر ان کی برتری قائم رہے۔

سارک ممالک کے درمیان سا فٹا کے نام سے ایک فری ٹریڈ معاہدہ 2006ء سے بظاہر نافذ العمل ہے لیکن یہ علاقائی معاہدہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور خطے میں تسلط کے جنون کی نذر ہو رہا ہے بظاہر سارک ممالک میں بھرپور باہمی تجارت کے امکانات موجود ہیں لیکن عملاً صورتحال اس کے الٹ ہے۔چین نے مختلف علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے آسیان،افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ گہرے تجارتی تعاون استوار کرکے اس ممکنہ تجارتی حصار کا توڑ کرنے کی کوشش کی ہے۔


چین کو مغربی دنیا کی بڑھتی ہوئی تجارتی بے چینی کا اندازہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ کئی برس سے تجارتی اور سرمایہ کاری کے متبادل راستے بنا رہا ہے۔شنگھائی فری ٹریڈ زون،ون بیلٹ ون روڈ،ایشیائی انفراسٹرکچر بنک اور بی آر آئی سی بینک جیسے منصوبوں کے ذریعے اس نے مہارت سے اپنے لئے متبادل راستے اور امکانات تراشنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کا معاملہ ہو یا جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کا یا پھر بات فلسطین،کشمیر اور اسرائیل کے جھگڑے کی ہو ہر بڑے بین الاقوامی تنازع اور حل طلب مسئلے پر امریکہ کا مصالحتی قد گھٹتا اور چین کا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔”آر سی ای پی“ کئی لحاظ سے چین کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل معاہدہ ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 2 ممالک جاپان اور جنوبی کوریا ہیں جو ایشیاء میں بڑے کردار کے حامل ہیں لہٰذا ان ممالک کی موجودگی مستقبل میں ”ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ“ کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنے گی۔

چین اس معاہدے کی برکت سے جاپان اور جنوبی کوریا سے تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر ان ممالک کے پاس موجود ہائی ٹیک سے بھی مستفید ہو سکتا ہے۔2 برس میں اس عظیم عالمی معاہدے جو دنیا کی 30 فیصد تجارت پر مشتمل ہے پر دستخط کے بعد اگلا مرحلہ ہر ملک کی اسمبلی میں اس کی منظور ی ہے۔توقع یہی کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں عالمی سطح پر انجام پانے والی تجارت میں امریکہ کی نسبت چین کی شمولیت بڑھ جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

15 mumalik k tijarti muahide per america khaef is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.