50لاکھ سستے مکانوں کی فراہمی،کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

پی ٹی آئی کا ”نیا پاکستان ھاؤسنگ پروگرام“․․․․․ اپوزیشن کی نکتہ چینی ،ماضی کی حکومتوں سے یہ منصوبہ منفرد کیوں

منگل 23 اکتوبر 2018

50 laakh sastay makanon ki farahmi kitni haqeeqat kitna fasana
 سید ساجد یزدانی
پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں معاشی مسائل کی وجہ سے اپنے مکان کے حصول کی خواہش کو پوری کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور اسی وجہ سے ہر نئی آنے والی حکومت عوام سے سستے مکانات فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہے ۔حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے سے پہلے کم آمدن والے طبقے کے لئے سستے مکانوں کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا اور اب اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں جس کے تحت ابتدائی مرحلے میں7شہروں میں مکان تعمیر کئے جائیں گے اور مجموعی طور پر مکانات کی تعداد 50لاکھ ہوگی،اس منصوبے کے لئے الگ سے ”نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی “قائم کی جارہی ہے لیکن اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا کتنا ممکن ہے جبکہ پچھلی اور موجودہ حکومت کے منصوبے میں فرق کیا ہے ؟۔

(جاری ہے)


وزارتِ ہاؤسنگ اینڈورکس کی پارلیمانی سیکریٹری تاشفین صفدر کے مطابق یہ مکان کم آمدن کے طبقے کے لئے ہے جو اپنا مکان بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کیلئے اتنے وسائل نہیں ہوتے ہیں کہ زندگی بھر اپنا مکان بنا سکیں ،مختلف آمدن والے طبقات کے لئے مختلف کیٹگری کے مکان ہوں گے جس میں حقیقی آمدن اور خاندان کے افراد کی تعداد کے بارے میں قومی رجسٹر یشن اتھارٹی یعنی نادر ا اور دیگر متعلقہ ادارے جانچ پڑتال کریں گے ،ابتدائی مرحلے میں 7شہروں ،اسلام آباد ،کوئٹہ،فیصل آباد ،گلگت ،سوات ،سکھر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں 10,7,5,اور 15مرلے کے مکان شامل ہوں گے لیکن ان کو مزید چھوٹے یونٹس میں لے جائیں گے جس میں 3مرلے کے مکانات شامل ہوں گے ۔


پارلیمانی سیکریٹری تاشفین صفدر نے کہا کہ یہ مکانات کئی جگہوں پر سنگل سٹوری ہوں گے اور کئی جگہوں پر فلیٹس کی صورت میں ہوں گے جہاں ابھی کچی آبادیاں ہیں ،ابھی حکومت نے طے نہیں کیا ہے کہ پہلے مرحلے میں کتنے یونٹ تعمیر کئے جائیں گے کیونکہ بقول تاشفین صفدر کے حکومت یہ نہیں چاہتی کہ پہلے مکانات تعمیر کیے جائیں اور بعد میں ان میں رکھنے کے لیے لوگوں کو تلاش کیا جائے تو پہلے حکومت مکانات کی طلب کو دیکھے گی اور پھر اس کے لحاظ سے 50لاکھ مکانات مختلف مراحل میں تعمیر کئے جائیں گے ۔


سینےئر انجنینےئر سر فراز احمد پر وگریسو کنسلٹنٹ کے ایم ڈی ہیں جو تقریباً 4دہائیوں سے پاکستان میں کئی تعمیراتی منصوبوں میں معاونت فراہم کررہی ہے ،ان کے خیال میں ملک میں موجودہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بڑا منصوبہ ہے جس میں ادارہ تو ہے لیکن اس کے ساتھ سرمایے اور شہروں کے اندر زمین کا حصول ایک مشکل کام ہوگا اور ان عوامل کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے گزشتہ حکومت تک حکومت منصوبے تو شروع کرتی آئی لیکن جو ادھورے رہ گئے ۔


حکومت 4سے5منزلہ فلیٹس کی بجائے مکانات تعمیر کرتی ہے تو اس کے لئے جگہ شہر سے دور دیکھنی پڑے گی جس میں پہلے تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہو گا کیونکہ لوگوں نے شہروں میں کام کرنا ہے لیکن اس سے اہم یہ ہوگا کہ اس کی لاگت بہت بڑھ جائے گی کیونکہ مکانوں کو پھیلاتے کی صورت میں تعمیراتی مواداتنا ہی زیادہ چاہئے ہو گا ان مکانات پر لاگت کتنی آئے گی ،ادائیگیوں کا کیا طریق کار ہو گا اور اس کے لئے سرمایہ کہاں سے لایاجائے گا تو اس پر وزارتِ ہاؤسنگ اینڈورکس کی پارلیمانی سیکریٹری تاشفین صفدر نے کہا کہ ابھی یہ معاملات ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن ان مکانات کو آمدن کے لحاظ سے15سے20 سال کی قسطوں پر دیا جائے گا اور قسطیں پوری ہونے تک مکان کو فروخت نہیں کیا جاسکے گا۔

انھوں نے کہا کہ مکانات کی تعمیر کے منصوبے میں حکومت کا کا م صرف معاون کا ہو گا جس میں نجی شعبے اور دیگر لوگوں کو مدد فراہم کی جائے گی تا کہ یہ منصوبہ مکمل ہو سکے۔
پاکستان مین بینک سے قسطوں پر مکان حاصل کرنے کی شرح صفر کے برابر ہے کیونکہ اعتبار نہیں ہے تو اس کے لئے موجودہ حکومت گارنٹی اور سہولت دے گی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ قسطیں پوری نہ ہونے تک مکانات کی فروخت روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی ،خیال رہے کہ دنیا بھر میں جن ممالک میں مکانوں کی مورگیج کا ماڈل کامیابی سے چل رہا ہے وہاں اس سیکٹر میں شرحِ سود چار فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں فی الوقت بنیادی شرح ساڑھے آٹھ فیصد ہے اور حکومت کے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد اس میں مزید اضافے کا امکان بھی ہے سینےئر انجنینےئر سر فراز احمد کے مطابق موجودہ حالات میں اگر کم آمدن والے طبقے کو 5سے7مرلے کا مکان قسطوں پر بھی دیتے ہیں تو وہ ادائیگیاں نہیں کر سکے گا کیونکہ کم آمدن سے مطلب ماہانہ 25ہزار آمدن بھی ہوتو کیا وہ مکان کی دس ہزار روپے قسط دے سکے گا اور اگر قسط اس سے کم ہوتی ہے تو اس میں بیسیوں سال لگ جائیں گے تو کون اتنی معاشی قیمت چکائے گا ۔


پاکستان سرکاری سکیم میں قرض پر کوئی چیز لینا اور اس کی قسطیں ادا کرنا ماضی میں ایک بڑ ا مسئلہ رہا ہے اور اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ اس میں نجی شعبے کو شامل کیا جائے گا لیکن یہ شعبہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہے انہیں فائدہ پہنچے کیونکہ وہ منافع کے لئے کام کریں گے عبادت کے طور پر نہیں ،تو اس سے مکانات کی تعمیر کی لاگت بڑھے گی۔
پاکستان میں ماضی کی حکومتوں نے سستے مکانات کا علان کیا اور کئی منصوبوں پر کام بھی ہوا اور کئی منصوبوں پر جاری بھی تھا جس میں حالیہ دنوں لاہور کا آشیانہ ہاؤسنگ منصوبہ بھی کم آمدن کے طبقے کے لئے تھا،اس پر پارلیمانی سیکریٹری تاشفین صفدر نے کہا کہ پچھلے پروگرام کسی منصوبے کے بغیر بنائے گئے تھے اور ان کا مقصد شاید صرف ووٹ کا حصول تھا اور اسی وجہ سے ناکام ہوئے لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ ان منصوبوں کو استعمال میں لایا جائے جس میں ہمارا منصوبہ تعمیر کے مرحلے میں داخل ہو گا تو اس وقت لازمی یہ نہیں ہو گا کہ 50لاکھ نئے مکانات تعمیر کیے جائیں بلکہ ان میں وہ مکانات بھی شامل ہو سکتے ہیں جو اس وقت بن رہے ہیں یا بن چکے ہیں اور ہمارے اداروں کی نگرانی میں ہیں ۔


پارلیمانی سیکریٹری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اتنے بڑے منصوبے میں جو حکومتی ادارے نجی شعبہ اور غیر ملکی سر مایہ کارشامل ہو ں گے تو اس میں سب سے پہلے نوجوانوں کو روزگار ملتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی سامان سے منسلک صنعت کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو مکانات کی تعمیر کی تربیت بھی دی جائے گی اور ساتھ رہائشی منصوبوں کے اندر بھی روزگار کے یونٹس قائم کیے جائیں گے ۔


انجنینےئر سرفراز احمد نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہاؤسنگ کا کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا جائے تو اس میں بڑی تعداد میں صنعتوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے ،اس میں سیمنٹ ،کرش ،بجلی کے تار ،سینٹری ،لکڑی کا سامان ،سوئچ وغیرہ کی صنعتوں کو آرڈر ملنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ گھروں کی تعمیر میں بھی اچھی خاصی افرادی قوت درکار ہوتی ہے ۔


پاکستان میں ماضی میں مکانات کی عوامی سکیمیں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی ہیں لیکن موجودہ حکومت نے ماضی کے برعکس منظم انداز میں اس سکیم کو شروع کرنے کا عزم کیا ہے ،تا ہم ماہرین کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ معاشی طور پر اس میگا پراجیکٹ کوحکومت کس طرح ٹریک پر رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے اور اس میں مکانوں کی چابی کو سرمایہ کاروں کی بجائے ان کے اصل حق داروں تک پہنچنے کا مقصد پورا کرنا ہے ۔


پی ٹی آئی کے چےئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اگر روایتی طرز حکومت اپنا یا گیا تو عوام ان کو بھی غضب کا نشانہ بنائیں گے ،ان پر آج سب سے بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے ،تحریک انصاف کا اقتدار چیلنجزسے بھر پور ہے ،عوام حکومت سے روایتی طرز سیاست وحکومت کی امید نہیں رکھتی ۔عمران خان کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ خود مثال بنیں گے اور باقی سب کو بھی مثال بننے کی تلقین کریں گے ،وہ برطانیہ کی طرز پر ہر ہفتے بطور وزیر اعظم ایک گھنٹہ سوالات کے جواب دیا کریں گے اور وزراء کو بھی صحیح معنوں میں جوابدہ بنائیں گے ۔


تحریک انصاف کی قیادت کا سب سے بڑا امتحان ایک طرف مضبوط اور تجربہ کار حزب اختلاف کی چالوں سے نمٹنا اور دوسری طرف عوام سے کئے گئے وعدوں کو نبھانے کی اخلاص ودیانت کیساتھ پوری پوری کوشش کرنا ہے ،یقینا یہ دونوں ہی آسان کام نہیں لیکن تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت جس عزم اور نوجوانوں کی تائیدو حمایت کے ساتھ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے منجد ھار میں کو د پڑی ہے وہ حوصلہ افزاء اور امیدیں وابستہ کرنے کے قابل ہے ۔


حقیقت پسند انہ صورتحال یہ ہے کہ نئی حکومت کو ابتداء ہی میں سخت معاشی ومالیاتی مسائل کا سامنا ہو گا جن سے حکمت وبصیرت کیساتھ نمٹا جائے تو یہ احسن عمل گردانا جائے گا اس لئے نئی حکومت سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا عوام کا حق ہونے کے باوجود حقیقت پسند انہ ا مر نہ ہو گا لیکن چونکہ عوام کو یقین دہانی کرائی گئی ہے اور متوقع حکمران جماعت پر عزم اور با اصرار اس کا اعادہ کرتی ہے اس تناظر میں عوامی تو قعات کی وابستگی فطری امر ہے ،اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ان وعدوں اور دعوؤں کو کس طرح عملی شکل دیتے ہیں جس کی عوام کو شدت سے انتظار ہے ۔


،فی الوقت اس امر کی توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ عمران خان جس قسم کی حکومت چلانے کے خواہاں ہیں ان کا انتخاب بھی اس کے مطابق ہو گا نہ کہ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جائیں ،اتحادی حکومتوں کی سب سے بڑی مشکل یہی ہوتی ہے کہ اتحادی جماعتیں شراکت اقتدار میں دریا کے دوکناروں کی طرح ساتھ تو نظر آتی ہیں مگر ان کی ترجیحات یکساں نہیں ہوتیں پھر حکومت کی صرف سیاسی مجبوریاں اور مصلحتیں ہی سدر اہو نہیں ہوتیں اور بھی کئی عوامل راستے کی دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہیں جن سے نمٹنے اور ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف متصور ہو تا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

50 laakh sastay makanon ki farahmi kitni haqeeqat kitna fasana is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.