اور شہہ رگ کٹ گئی

کشمیری عوام گزشتہ 70 سالوں سے تحریک آزادی کی راہ میں90 ہزارسے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ کشمیریوں کے مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں اوران کی عزت وآبروکچھ بھی قابض 7 لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں محفوظ نہیں

عائشہ نور بدھ 7 اگست 2019

aur shah rag kat gayi
'' اور شہہ رگ کٹ گئی '' یہ الفاظ جتنے ایک محب وطن پاکستانی کیلئے کرب ناک ہیں،اتنے ہی میرے لیے بھی ہیں۔ 5 اگست 2019 کو بھارت میں برسراقتدار انتہا پسند ہندو جماعت '' بھارتیہ جنتا پارٹی '' نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 A کو آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی صوبے کا درجہ دے دیا۔

اس کے علاوہ وادی کولداخ اور جموں و کشمیر میں بھی تقسیم کردیاگیا۔ اور غیرریاستی باشندوں کو وادی میں جائیداد کی خریدو فروخت کی اجازت دے کرجموں وکشمیرمیں ہندوؤں کی آبادکاری کی راہ ہموارکردی۔
 بھارت کے عزائم اب کھل کرسامنے آ چکے ہیں۔ بھارت جموں و کشمیرمیں اسرائیل کی طرزپرغیرمسلم آبادیاں بساکرمسلم اکثریت کواقلیت میں بدلنے کی منصوبہ بندی کرچکاہے۔

(جاری ہے)

بھارت اب فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کوانہیں ان ہی کے مادروطن میں اجنبی اورگمنام کرنیکا خواہاں ہے۔
 کشمیری عوام گزشتہ 70 سالوں سے تحریک آزادی کی راہ میں90 ہزارسے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ کشمیریوں کے مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں اوران کی عزت وآبروکچھ بھی قابض 7 لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ اب صورتحال مزید ابتر ہونیوالی ہے کیونکہ خصوصی حیثیت میں کشمیرکے امورِدفاع،خارجہ اورکرنسی بھارت کے پاس تھے،باقی ماندہ اختیارات ریاست جموں وکشمیرکی حکومت کے پاس تھے۔

مگراب صحت،تعلیم اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سمیت کئی دیگراہم محکموں پردلی سرکارقابض ہوکرکشمیری مسلمانوں کا جینا مزید دوبھرکردیگی۔ صرف اتنا ہی نہیں ریاست جموں وکشمیرکی سول سروس بھی بھارتیوں کی بھرتیاں ہونے لگیں گی۔ واضح رہے کہ ریاست جموں وکشمیر اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پرپاکستان اوربھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے اورجس کے مستقبل کا فیصلہ کرنیکا اختیارصرف کشمیری عوام کے پاس ہے۔

اور اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں کیمطابق کشمیرمیں رائے شماری کروانے کی ذمہ دارہے مگرافسوس 70سال گزرنے کے باوجود بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث کشمیری عوام ''حق خودارادیت '' سے محروم رہے جوان کا بنیادی حق ہے۔ جہاں تک کشمیرکی خصوصی حیثیت میں ردوبدل کا سوال ہے تووہ بھارتی پارلیمنٹ اس وقت تک نہیں کرسکتی, جب ریاست جموں وکشمیر کی اسمبلی منظور نہ کرے۔

جبکہ اس وقت مذکورہ اسمبلی موجودنہیں ہے۔ اوریہ خلاء شایداسی سازش کو انجام دینے کیلئے تقریباً گزشتہ ایک برس سے دانستہ چھوڑاگیاہے۔ لہٰذا بھارتی پارلیمنٹ کی کارروائی قانوناً مشکوک بھی ہے ۔ بھارتی حزبِ اختلاف کانگریس اورکانگریسی کشمیری لیڈرز فاروق عبداللہ اورعمرعبداللہ اسے بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کرناچاہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمرعبداللہ کو گرفتار کرلیاگیا جبکہ فاروق عبداللہ 6 اگست کی رات نئی دلی سے پراسرارطورپرلاپتا ہوگئے۔

بہرحال 7اگست کویہ انڈین سپریم کورٹ میں چیلنج کردیاگیا۔
 دوقومی نظریے کونہ ماننے اورقیام پاکستان کی مخالفت کوغلطی تسلیم کرنیوالی محبوبہ مفتی بھی گرفتارہیں۔ یہ لوگ تو بھارت وفادارسمجھے جاتے ہیں۔ تو پھر دنیا جان لے کہ حریت رہنماؤں اورحریت پسندکشمیری عوام کے ساتھ مودی سرکارکیا سلوک کریگی۔ حریت لیڈریاسین ملک جودلی کی تہاڑجیل کے ڈیتھ سیل میں قید ہیں،ان کے متعلق اطلاعات پرتشویش ہے۔

ریاست جموں وکشمیرکا دنیاسے مواصلاتی رابطہ منقطع کردیاگیا ہے اوربھارت تازہ دم فوجی مسلسل کشمیرمیں بھیج رہاہے۔ اللہ ہی بہترجانتاہے کہ نہتے کشمیری عوام پر اس وقت کیا بیت رہی ہے ۔ اب پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں بچے ہیں۔ فرض کرلیں کہ اگربھارت کیخلاف کوئی قرارداد سلامتی کونسل میں ویٹوہوجاتی ہے۔ تب ہماری حکومت کے پاس سفارتی ذرائع سے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے پراثراندازہونامشکل ہوجائیگا۔

فرض کیا کہ ہم سلامتی کونسل میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں توبھارت پہلے کون سا عالمی برادری کی رائے کا احترام کرتاہے؟ ابھی گزشتہ ہفتے وادی نیلم میں کلسٹربم برسا کربھارت جنیوا کنونشن کی دھجیاں اڑا چکاہے اور کیابگاڑ لیا امن کے ٹھیکیداروں نے بھارت کا؟ سلامتی کونسل 70سال میں کشمیرسے متعلق اپنی قرادادوں پربھارت سے عمل کروانے میں ناکام ہے۔

واضح رہے کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنا کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔
سفارتی محاذ پر امکانات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد اسلام آبادواپس آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ملٹری آپشن کا فیصلہ لینے سے قاصر نظرآتے ہیں۔ کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں۔ اگرمحدودپیمانے پرکشمیرمیں جنگ چھڑجائے توبھی صورتحال کسی بھی وقت سب کے کنٹرول سے باہرہوسکتی ہے۔

محدود جنگ کے روایتی اورغیرروایتی جنگ میں بدلنے کا امکانات موجودہیں۔ 
ہمارے بھولے بھالے وزیراعظم جس نئے پلوامہ اور اس کے آزاد کشمیرپر جس ممکنہ حملے کے منتظرہیں۔ ایسا کوئی امکان نہیں کہ بھارت ازخود آزاد کشمیرپرحملہ کرے۔ پس ہمارے پاس اب دوآپشن رہ جاتے ہیں۔ اول یہ کہ کشمیرمیں بغاوت پھیلتے ہی پاکستان ازخود مقبوضہ کشمیر پر بالکل اسی طرح حملہ کردے،جیسابھارت نے1971 میں کیاتھا۔

دوسرا آپشن یہ ہے جنرل ضیاء الحق کی '' جہادِ کشمیرپالیسی '' کو اپنالیا جائے،جس کے نتیجے میں بھارت خودآزاد کشمیرپرحملہ آور ہوگا۔ دونوں صورتوں میں انجام پاک بھارت روایتی وغیرروایتی جنگ ہی ہے۔ اب یہ عسکری قیادت پرمنحصرہے کہ وہ کون سا راستہ چنتی ہے۔
 بقول وزیراعظم عمران خان یہ دونوں راستے ٹیپوسلطان کے نقشِ قدم پرلیجاتے ہیں۔ تیسرا راستہ بہادرشاہ ظفرکاہے کہ اوآئی سی اوراقوام متحدہ میں جائیں اوروہاں سے روتے دھوتے اسلام آبادواپس لوٹ آئیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملا۔

اورخاموشی سے اپنی شکست اور بھارت کی فتح قبول کرلیں ۔ یقیناً پاکستانی عوام کی غیرت یہ گوارا نہیں کریگی کہ 90 ہزار شہدائے کشمیر کے خون کا اتنا سستا سودا ہوجائے, اور یہ عظیم تحریک آزادی خدانخواستہ قصہ پارینہ بن جائے۔ اس صورت میں ہماری آنیوالی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ لہٰذا ٹیپوسلطان کاراستہ اختیارکرلیا جائے توبہترہے۔ موجودہ صورتحال میں وزیراعظم نے دوست ممالک سے روابط کیے ہیں جو بے حدضروری ہے۔

خطے میں کسی بھی ممکنہ بحران سے نمٹنے سے پہلے ہمیں دوست ممالک چین،ترکی،ملائیشیا اورسعودی عرب کواعتماد میں لیناچاہیئے۔ اس کے علاوہ بھارت فوراً سفارتی, تجارتی, ثقافتی اوردیگرروابط نہ صرف ختم کرنے چاہیے بلکہ بالعموم دوست ممالک اوربالخصوص مسلم ممالک کوبھی یہ ترغیب دینی چاہیے کہ وہ بھارت سے سفارتی اورتجارتی تعلقات پر نظرثانی کریں اور کوشش کرنی چاہیے کہ بھارت پردباوبڑھایا جاسکے۔

اوراس کیلئے ہمیں غیرروایتی خارجہ پالیسی فوراً اپنانا ہوگی۔ امریکی صدر کو افغان امورمیں مدد کواب مسئلہ کشمیرکے منصفانہ اورپائیدار حل سے مشروط کیاجائے۔ اگرامریکہ مقبوضہ جموں وکشمیرکے عوام کوحق خودارادیت دلانے میں مدد نہیں کرتا توپاکستان بھی افغان امور پر امریکہ کی معاونت سے ہاتھ کھینچ لے۔ میں ایک مرتبہ پھرکہتی ہوں کہ افغانستان سے امریکہ کی واپسی سے قبل مسئلہ کشمیرحل ہونا ضروری ہے۔ اگرامریکہ افغانستان سے نکل گیاتووہ مسئلہ کشمیرپرپھر ویسی ہی ثالثی کریگا, جیسے ''گولان پہاڑیاں ''اسرائیل کودلاکرکی ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

aur shah rag kat gayi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.