ففتھ جنریشن وار اور ہمارا مستقبل

حالیہ اندازے کے مطابق، پاکستان ابھی ففتھ جنریشن وار میں دیگر ممالک کی برابری پر نہیں آیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو اس قدرجدت میسر نہیں ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کر سکے

عدینہ الٰہی بدھ 12 جون 2019

fifth generation war aur hamara mustaqbil
سوشل میڈیا ہو یا ٹیلی ویژن، اخبار ہو یا کوئی بلاگ، ففتھ جنریشن وار کا موضوع ہر جگہ زیرِ بحث نظر آتا ہے۔کہیں اس کے فوائد بتائے جارہے ہیں تو کہیں اس سلسلے میں درپیش مسائل کا ذکر کیاجارہا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کیا ہے؟ ملکی ٹیکنالوجی پر یہ کس طرح اثرانداز ہورہی ہے اور دیگر ممالک میں اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا پاکستان باقی ممالک کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اسے ففتھ جنریشن وارفیئر کا سامنا کرنے میں کن مشکلات کا سامناہے؟ اور کون کون سے عوامل ہیں جو اس سلسلے میں پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے؟اگر ہم ان سوالات کے جوابات ڈھونڈ لیں تو ففتھ جنریشن وار میں اپنے ملک پاکستان کو بھی باقی ممالک کی صف میں لا کھڑا کر سکتے ہیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ ہربار کچھ عرصے بعد ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ نئی اور جدید تراکیب استعمال ہونے کا رواج عام ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

ہر شے کے لیے نت نئے طریقے رائج کر دیئے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ پرانی تراکیب منظرِ عام سے بالکل ہی غائب ہوجاتی ہیں۔ اگر اس طرح متبادل تراکیب کا ذکر کریں تو سب سے پہلی مثال یہ ہے کہ جھوٹ کی جگہ '' آلٹر نیٹو ٹرتھ'' کی اصطلاح عام ہوچکی ہے۔

بالکل اسی طرح یہ جنریشن وارز کا سلسلہ فرسٹ جنریشن وار سے ہوتا ہوا ففتھ جنریشن وار تک پہنچ چکا ہے۔
تاریخ کے صفحے گردانتے چلیں تو فرسٹ جنریشن سے ففتھ جنریشن تک کا سفر باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔فرسٹ جنریشن وارمیں وہ قدیم لڑائیاں شامل تھیں جن میں دشمن پر غلبے کا ایک ہی طریقہ تھا، جس قبیلے، ریاست یا بادشاہت کی فوج عددی اعتبار سے بڑی ہوگی،وہی کامیاب رہے گی۔

یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ فرسٹ جنریشن وار فیئر جنگوں کی وہ شکل ہے جس میں بڑی سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں۔بعض جگہوں پر ان جنگوں کو 'فری انڈسٹریل وارز' بھی کہا گیا ہے۔
سیکنڈ جنریشن وار کی اصطلاح پر غور کریں تو یہ بات واضح ہے کہ بہتر اسلحہ،تیز رفتاراور بہتر فوجی تربیت ہی وہ عناصر ہیں جو ایک فوج کی کامیابی کے ضامن ہیں۔

یہ دور منجنیق اور آتشی تیروں سے شروع ہوا،تیز رفتار گھڑ سواروں سے ہوتا ہوا بارودی بندوقوں کا مرحلہ پار کر کے انیسویں صدی کے آخر تک بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں اور مشین گن کے متعارف ہونے پر ختم ہوا۔مزید یوں کہا جا سکتا ہے کہ سیکنڈ جنریشن وار فیئر ٹیکنالوجی کی جنگیں تھیں جس میں فوج کے دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی اور جنگوں میں بڑا اسلحہ جیسا کہ مشین گن، میگزین رائفلز، توپیں استعمال ہونے لگی تھیں۔

تھرڈ جنریشن وارفیئر کی سب سے بہترین مثال جنگِ عظیم دوم میں جرمن فوج کی جانب سے کی گئی وہ تیز رفتار موومٹ ہے کہ جس میں مختلف قلعے تعمیر کرکے انہوں نے اپنے ہتھیاروں کو محفوظ کیا۔اس قسم کی جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن قوتوں کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جاتا ہے یا ایسی جگہوں سے حملہ کیا جاتا ہے جس میں مخالف فریق کو پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے حملہ ہوا ہے۔

جبکہ فورتھ جنریشن وار میں فیصلہ کن اور بے پناہ طاقت کا سرعت سے استعمال کر کے دشمن کو مفلوج و مغلوب کر دینے والی حکمتِ عملی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیاہے۔کویت پر پوری قوت کے ساتھ عراق کا قبضہ، عراق کو کویت سے صرف بہتر گھنٹے میں کھدیڑنے کی امریکی اتحادیوں کی فیصلہ کن حکمتِ عملی اور پھر نائن الیون کے بعد افغانستان پر بمباری اور کابل پر سرعت کے ساتھ شمالی اتحاد کی امریکی حمائیت یافتہ ملیشیا کا قبضہ،2003 میں عراق پربے پناہ بمباری کے بعد امریکی بری فوج کی بغداد تک تیز رفتار پیش قدمی۔

۔۔یہ سب فورتھ جنریشن وار کے نمونے ہیں۔
اب اگر ففتھ جنریشن وار فیئر کا ذکر کیا جائے تو اس میں غیر علانیہ کم خرچ بالا نشیں'' پراکسی جنگوں ''کو شامل کر سکتے ہیں۔یہ جنگیں روایتی جنگوں کے مقابلے میں کئی برس تک جاری رکھی جا سکتی ہیں۔ پراکسی جنگوں کا مقصد تیز رفتار کامل فتح حاصل کرنے سے زیادہ،دشمن کومصروف رکھنا اور چرکوں پر چرکے لگاتے رہنا ہے تاکہ دشمن جھنجھلاہٹ اور خوف کے عالم میں حواس باختہ ہو کر ایسی حرکتیں شروع کر دے کہ جن کے بارے میں مزید پروپیگنڈہ کر کے علاقائی و عالمی سطح پر مزید بدنام کر کے کمزور کیا جا سکے۔

ففتھ جنریشن وار کا ایک حصہ ذہنی خلفشار، احساس عدم تحفظ یا احساسِ کمتری پیدا کرنے کے زمرے میں بھی لیا جاسکتا ہے۔کامیابی کی صورت میں دشمن کو زیر کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے۔یہ جنگ سائبر اسپیس اور انتخابی عمل میں غیر مرئی مداخلت سے لے کر جعلی خبروں کے ذریعے نفاق پیدا کرنے تک، ہر محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ جس طرح امریکی صدارتی انتخابات میں جعلی خبروں کا پھیلنا اور اس تناظر میں روسی مداخلت کے شبہات،امریکی نظام ِ انتخاب پر ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔

سائبر سپیس کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ میں شامل ممالک ایک دوسرے کی ساکھ کو کمزور کرنے کی بجائے دیگر ذرائع اپناتے ہیں۔ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع کیاستعمال سے مخالف ملک کی اہم اور خفیہ معلومات حاصل کرنا اور اپنے مفاد کے لیے اس کا استعمال کرکے لڑی جانے والی یہ جنگ ففتھ جنریشن وار فیئر کی بہترین مثال ہے۔

جدید دور میں ہم ایک ایسے وقت میں پہنچ چکے ہیں کہ جہاں کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی میں اس ملک کی میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی، جہاں ایک بہتر ذرائع مواصلات کا سامان فراہم کرتی ہے، وہیں اس کے چند بڑے نقصانات بھی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے کسی بھی خبر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا جس قدر آسان ہے، وہیں یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کوئی بھی خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں اپنی اصلی حالت میں نہیں رہتی۔

یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے ایک خبر سنی جاتی ہے، اس کا آدھا حصہ ٹھیک طرح سے سمجھا جاتا ہے اور دوگنا آگے منتقل کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ان جنگوں کی ہے۔
حالیہ اندازے کے مطابق، پاکستان ابھی ففتھ جنریشن وار میں دیگر ممالک کی برابری پر نہیں آیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو اس قدرجدت میسر نہیں ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔

جبکہ جاپان،چین، ترکی اور امریکہ سمیت کل چھ ممالک میں ففتھ جنریشن کا اجرا کیا جاچکا ہے۔بڑی طاقتوں کو کھلی جنگ میں سیاسی طور پر کافی مزاحمت اور سفارتی سطح پر بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جسکی مثالیں عراق اور افغانستان ہیں، جنہوں نیکئی کھلی جنگیں کیں۔مگر ففتھ جنریشن وار میں کسی بھی ملک کو معاشی طورپر تباہ کرنا،سفارتی سطح پر تنہا کردینا،سیاسی طور پر دنیا میں بدنام کرنا،دوسروں کی نظر میں گرانا،میڈیا اور کسی حد تک ملٹری، انٹیلی جنس آپریشن شامل ہیں پھر ''فالس فلیگ آپریشنز''کیے جاتے ہیں جن میں کوئی چھوٹی موٹی کاروائی کر کے کسی دوسرے ملک کے نام لگا دی جاتی ہے۔

یہ خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے سلسلے میں ہورہا ہے۔پاکستان میں واردات ہندوستان کرتاہے اور نام افغانستان کا لگا دیاجاتاہے،افغانستان یا بھارت نے واردات کی ہو اور نام پاکستان کا لگا دیا جاتاہے۔یہ جو عجیب و غریب جنگ ملکی ساکھ کو اندراورباہر سے جکڑ لیتی ہے،اس کو ففتھ جنریشن وار کہا جا تاہے، اس کے اندر میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا بہت اہم کردارا دا کرتاہے۔

ہائبرڈ وار وہ ہوتی ہے جس میں ایک طرف ففتھ جنریشن وار کی چیزیں ہو تی ہیں اور دوسری طرف تھوڑے بہت ملٹری ایکشن بھی شروع ہو جاتے ہیں،وہ آپ کو بدنا م بھی کررہے ہوتے ہیں اور جنگ بھی لڑ رہے ہوتے ہیں۔
اس جنگی حکمت عملی کے پہلے مرحلے میں منظم پراپیگنڈا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کا شکار مقامی آبادی کے دماغ ہوتے ہیں جن میں بے یقینی، خوف، لالچ، ہوس اور نفرت جیسے منفی جذبات پیدا کیے جاتے ہیں۔

جن کے ذریعے غیر ملکی ایجنسیاں مقامی معاشی وسماجی تقسیم یا مسائل کو استعمال کرتے ہوئے بڑی آسانی کے ساتھ عام لوگوں کے درمیان انتشار پیدا کرتی ہیں۔مختلف سوچ رکھنے والے ہزاروں لوگ اس کی حمایت یا مخالفت میں غیر ضروری دلائل دینے لگتے ہیں۔اس طرح دشمن کی طرف سے محض ایک چھوٹے سے جملے سے بظاہر تھوڑے وقت کے لیے شروع ہونے والی تکرار لوگوں کے درمیان مستقل طور پر ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کردیتی ہے جو معاشرتی تقسیم کا باعث بن جاتی ہے۔

دوسرا اہم محاذ کسی بھی ملک میں سیاسی ومعاشرتی انتشار پیدا کرکے کھولا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت مقامی طور پر رونما ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات کو استعمال کرتے ہوئے انتشار کو ہوا دی جاتی ہے۔ مثلاً مذہبی احتجاج، حکومت مخالف اپوزیشن تحریک، مہنگائی کے خلاف عوامی مظاہرے اور دیگر واقعات میں بالواسطہ یا خفیہ مداخلت کے ذریعے ریاست اور اس کے اداروں کوغیر فعال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ حکمت عملی اس لیے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ عام لوگوں کی اکثریت صرف اس لیے استعمال ہوجاتی ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے وہ اپنے حقوق کیلیے لڑ رہے ہیں۔ اس دو دھاری تلوار کے ذریعے یا تو احتجاج کی کامیابی کی صورت میں ریاست کو کمزور کردیا جاتا ہے، یا پھر ناکامی کی وجہ سے لوگوں میں مزید مایوسی پھیلتی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں معاشرے میں انتشار یا ہیجان پیدا ہوتا ہے۔

تیسری حکمت عملی کے تحت ریاست کی معیشت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت یا انتظامیہ میں موجود ذاتی مفادات کے پجاری لوگوں کی نااہلی کو استعمال کرکے کرپشن، ملکی مفاد کے منصوبوں میں تاخیر، غیر مانفع بخش منصوبوں میں غیر ضروری سرمایہ کاری، کثیر ملکی و بین الاقوامی قرضوں، تجارتی اور بجٹ خسارے میں اضافے کے ذریعے معیشت کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس طریقے سے ایک کمزور معیشت والا ملک عالمی معاشی اداروں اور بڑی طاقتوں پر انحصار کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی بھی بڑی طاقتوں کی مرہون منت ہوجاتی ہے۔
چوتھی حکمت عملی دفاعی نوعیت کی ہے جس میں ریاستیں اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ فضائی، بحری اور بری محاذوں پر استعمال کیے جانے والے ہتھیاروں کو تکنیکی بنیادوں پر دوسرے ممالک کے ہتھیاروں سے بہتر بنایا جاتا ہے۔

جس کی مثال ڈرون ٹیکنالوجی، پانچویں نسل کے جنگی جہاز، ٹینکس، جوہری بحری آبدوزوں کی جدید شکل اور ایسے ہی بے شمار ہتھیار ہیں۔ یہاں تک کہ اب خلا کو بھی بطور محاذ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ تکنیکی برتری کی تگ ودو یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ انٹرنیٹ کو بھی جاسوسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ دشمن ملک کے حساس اداروں کے کمپیوٹرز اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے قومی راز چرانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے ذریعے دشمن ملک کو حسب منشاء نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

پاکستان اب اس مقام پر ہے کہ وہ اپنے روشن مستقبل کے لیے بغیر کسی دباؤ میں آئے فیصلے کرے اور ملکی ترقی و استحکام کے لیے معاشی فوائد سے فائدہ اٹھائے۔پاکستان کو چاہیے کہ ایران کے ساتھ اپنے گیس پائپ لائن کے منصوبے، چین کے ساتھ جاری سی پیک منصوبیاور روس کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھائے۔پاکستان کے تناظر میں نہ صرف قومی دفاعی اداروں کو ان خطرات سے لڑنے کی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے، بلکہ بطور نوجوان شہری ہم پرلازم ہے کہ ان سب سازشوں سے باخبر رہیں۔ ہم دشمن کا آلہ کار بننے سے بچتے ہوئے بھرپور انداز میں ریاست پاکستان کا دفاع کرتے رہیں اور اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

fifth generation war aur hamara mustaqbil is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 June 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.