اس دنیا کی تباہی کتنی قریب ہے․․․․․؟

کیا انسان تیار ہے

بدھ 25 ستمبر 2019

Iss dunya ki tabahi kitni qareeb hai․․․․․?
برازیل میں کرہ ارض کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمازون میں شدید آگ بھڑک اٹھی ، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جنگلات میں لگنے والی کے سبب برازیل کے شہروں اوردیہات میں دھویں کے بادل چھاگئے اور ہرطرف اندھیرا چھا گیا۔ یہاں تک کہ ایمازون کے جنگلات سے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر دور برازیل کے شہرساؤپولو میں دھواں چھا گیا۔

ہوا میں کاربن کی مقدار بڑھنے سے شہریوں کے لئے سانس لینا دشوار ہوگیا ۔جنگلات میں اچانک آگ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں نہ صرف انسانی زندگیوں اور انسانی اموال کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ دھوئیں کی جوبہت بڑی مقدار فضا میں شامل ہوتی ہے اس سے اور آگ کی تپش سے ماحولیاتی فضا بہت حد تک مکدر ہوجاتی ہے۔ ایمازون کے جنگلات دنیا کی فضاکوآکسیجن فراہم کرنے میں اپنا 20فیصد حصہ ڈالتے ہیں اور انہیں دنیا کے پھیپھڑوں سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)


جنگل میں لگی اس آگ سے زمین کے موسموں پر انتہائی مضراثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایمازون میں ہونے والے نقصان سے دنیا بھر کے مون سون کے سائیکل پر منفی اثر پڑے گا۔18 اگست 2019 کو الاسکا میں گلوبل وارمنگ کے باعث دیوہیکل برفانی تو وہ ٹوٹ کر سمندر میں بہہ گیا، جس کی وجہ الاسکا میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی بتائی جارہی ہے، ریاست الاسکا کے موسمیاتی ریکارڈ کے مطابق گزشتہ مہینہ جولائی 2019 ء 1925 سے اب تک کا گرم ترین مہینہ ثابت ہوا۔


دنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر کے باعث جہاں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں وہیں برفانی تودوں کے توڑ پھوڑ بھی بڑھ گئی ہے۔ 15اگست کی خبر کے مطابق آئس لینڈ میں ہیٹ ویوسے ایک بہت بڑا اگلیشیر کر ختم ہوگیا۔ گلیشیر کانام اوکیو کول ہے جس کا رقبہ 16 مربع کلو میٹر تھا۔ ماہرین کا کہناہے کہ رواں سال یورپ کو جس ہیٹ ویو کا سامنا رہا ہے اس کی وجہ سے آرکٹک ریجن بری طرح متاثر ہوا ہے ۔

10 تا 15 اگست کے دوران ہونے والی مون سون بارشوں کے باعث جنوبی ایشیا میں تبا کن سیلاب آئے جس سے کم ازکم 600 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے لاکھوں لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ بارشوں نے سب سے زیادہ تباہی جنوبی بھارت کی ریاستوں میں مچائی جہاں ڈھائی سو سے زیادہ افراد زندگی کی بازی ہارگئے، تیز بارشوں سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے ۔

بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا اور سیلابی صورتحال کے باعث بارہ لاکھ افراد گھروں اور عارضی کیمپوں میں محصور ہوگئے ۔ میانمر میں بھی طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بڑی تباہی ہوئی ۔ سینکڑوں گھر پانی میں ڈوب گئے اور ہزاروں افراد نے محفوظ مقام پر نقل مکانی کی ۔ طوفانی بارشوں سے پاکستان کے مختلف خطوں میں بھی سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ۔
 11 اگست کو یورپی ملک بیلجیئم اور فرانس کے قریب لکسمبرگ کے سرحدی علاقے میں طوفانی بگولے ٹورناڈدوTornado نے تباہی مچائی ․․․․ 128 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں سے سینکڑوں گھروں کی چھتیں اور درخت اکھڑ گئے ۔


 10 اگست کو چین میں لیکیما(Lekima) طوفان نے تباہی مچادی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ۔ طوفان کے نتیجے میں وینلنگ شہرونیزو شہر میں ڈیم ٹوٹنے سے تباہ کن لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ لیکیماطوفان کے باعث متعدددرخت زمین سے اکھڑ گئے ، آمدورفت کا نظام درہم برہم اور کئی علاقے بجلی محروم ہوگئے ۔چینی میڈیا کے مطابق چین میں یہ کئی سالوں کے دوران ایک طاقتور ترین طوفان تھا۔

28 جولائی سے 20 اگست کے دوران دنیا بھر میں ایسے زلزلوں کی ایک لہر سی چل نکلی ہے جس کی شدت 6 ریکٹر اسکیل یا اس سے زیادہ ہے۔
28 جولائی کو فلپائن کے شمالی جزائر میں لوزان اسٹریٹ کے گنجان آباد جزائر میں 5.4 اور 5.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ 13 اگست کو انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا کے کھلے سمندر میں6.8 کی شدت کا زلزلہ آیا جس نے سینکڑوں عمارتوں کو نقصان پہنچاہے جبکہ تقریبا 50 ہزار افراد نے پناہ گاہوں میں پناہ لی۔

15 اگست کو جاپان کے شمال مشرق میں 6.3 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ 18 اگست کو ترکی کے مغربی حصے میں 6.2 کی شدت کے زلزلے کے بعدماہرین ایک بڑے ہلاکت خیززلزلے کے خدشات ظاہر کررہے ہیں ۔ 10 اگست ہی کو اسلام آباد ، پنجاب اورخیبر پختونخواسمیت ملک کے مختلف علاقوں 5.5 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ۔ اس سے دو روز قبل بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں صبح سویرے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے ۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی جس کامرکز افغانستان میں ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ تھا ۔
19 اگست کو مغربی بحراوقیانوس میں شمالی مرینا جزیرے میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کئے گئے جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 5.9 تھی ۔ہیٹ ویوز، گلیشئیر پگھلنے، طوفانی بارش، سیلاب ، سمندری طوفان ، آگ ٹورنا ڈواور شدید زلزلوں کے یہ واقعات صرف 2 ہفتوں کے اندر رونما ہوئے ہیں ۔

گزشتہ صدی کے اواخرسے موسم کے تغیرات ساری دنیا کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتے جارہے ہیں ۔ اب ایسے مقامات جہاں کبھی سخت گرمی پڑاکرتی تھی وہاں برف باری ہورہی ہے اور جہاں بارشوں کا نام ونشان تک نہ تھا وہاں دوباراں کے طوفان آرہے ہیں ۔ اکیسویں صدی کی آمد سے ہی موسموں نے اپنا رویہ تیزی سے بدلنا شروع کردیا۔ جون جولائی میں گرمی ، اگست ، ستمبرمیں بارش،مارچ،اپریل میں بہاراور دسمبر، جنوری میں سردی جیسی لگے بندھے معمولات میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔

موسم سرما میں شدید کمی، اپریل میں بارش اور مئی سے دسمبر تک گرمی اور جنوری فروری میں بہار کی آمد نے ماہرین موسمیات کو حیرت زدہ کردیا۔
ایکوسسٹم کا بگڑتا ہوا توازن آج دنیا بھر کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ۔ اوزون کی تہہ میں کمی، گلوبل وارمنگ ، گرین ہاؤس ایفیکٹ ، سونامی ، گلیشئیر کا تیزی سے پگھلنا ، سمندر کی سطح بلند ہونا، ساحلی علاقوں میں خوفناک طوفانوں کا سلسلہ ، سیلاب ،زلزلے اور طرح طرح کی خطرناک وبائیں اور امراض اس پگڑتے ہوئے توازن کا اظہار ہیں۔

گلوبل وارمنگ ، کلائیمیٹ چینج، بائیو ڈائیور سٹی ،گرین ہاؤس ایفیکٹ،پولوشن ،موجودہ دور میں یہ لفظ بہت زیادہ سننے کومل رہے ہیں ۔روحانی ڈائجسٹ کے صفحات میں بھی ان موضوعات پر کئی مضامین شایع ہوچکے ہیں، دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ہرسال تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں لیکن پھر بھی زمین پر ہونے والی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکا نہیں جاپارہا ۔


اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ اس سیارے زمین سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کل آپ کے بچے اس پرمحفوظ اور قدرتی وسائل سے مالامال زندگی گذاریں ، تو آپ کو آج سے ہی چند اقدامات کرنا ہوں گے۔ گلوبل وارمنگ سے کئی حیوانات ، پرندوں اور حشرات ، شہد کی مکھیوں او ر تتلیوں کی نسلیں نابود ہورہی ہیں۔ یہ سن کر شاید کچھ کہیں گے کہ سائنس ترقی کے اس دور میں اتنی ایجاددات ہوگئی ہیں اگر گرمی بڑھ بھی جائے تو انسان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر جنگل میں شیر، ابابیلیں ، تتلیاں اور شہد کی مکھیاں کم ہورہی ہیں تو اس سے انسان کا کیا نقصان ۔

ترقی یافتہ شہروں میں بھی انسان بنا درختوں کے رہ ہی رہے ہیں ۔ لیکن لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس زمین کی زندگی باہمی توازن کے نظام پر قائم جسے ایکوسسٹم کہا جاتا ہے ۔زمین کے ماحول کے بنیادی اجزاء ، جن میں عناصر ، گیسز، پانی ، نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں، ایک دوسرے سے ماحولیاتی اور کیمیائی توازن کی زنجیروں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ایک نوع کی زندگی دوسری نوع پر منحصر ہے۔


دنیا میں اگر صرف شہد کی مکھی کی نسل بھی ختم ہوجائے تو جلد بدیر انسان کی نسل ختم ہوجائے گی ۔ کیونکہ انسان کو ملنے والی خوراک کا 70 فیصد زراعت سے آتا ہے اور زراعت میں پودوں کی نشونما میں شہد کی مکھی اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ دنیا کا بڑھتاہوا درجہ حرارت کرہ ارض پر موجود ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال رہاہے ، بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشئیرز پراثرانداز ہوتی ہے جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات ہیں اور پھر پانی کی کمی خشک سالی کو دعوت دیتی ہے۔

یہ وہ مظاہر ہیں جس سے زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑسکتی ہے۔ سائنسدانوں کی پیش گوئی ہے کہ گلوبل وارمنگ کے بڑھنے سے دنیا کے کچھ علاقے زیر آب جبکہ بعض علاقے خشک سالی کا شکار ہوجائیں گے ۔ سیلاب اور خشک سالی سے بڑے پیمانے پر فصلیں تباہ ہوں گی۔ کچھ علاقوں میں بارشوں میں اضافے سے لینڈ سلائیڈنگ بڑھ جائے گی ۔ جو علاقے خشک سالی کا شکار ہوں گے وہاں کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔

ان تبدیلیوں کے سنگین نتائج اور تباہ کن اثرات کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
اس تمام صورت حال میں بہتری لانے کے دنیا بھر کے سائنسدان دن ورات محنت کررہے ہیں اور آئے دن ان کے تجربات اور تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں ۔ لیکن ہم یہاں کسی سائنسی تجربے یا اعدادو شمار پر بات نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کسی سرکاری حکمت عملی پر بحث کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان سب کے بجائے صرف ایک آسان بات پر زوردیں گے اور وہ یہ کہ بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے، وہ ہے صرف اور صرف فطرت کے تشکیل کردہ اصولوں کے تحت زندگی بسرکرنا۔

اگرچہ یہ آج کے دور میں اتنا آسان نہیں رہا ہے لیکن کوشش توکی جاسکتی ہے نا جلدیا بدیرہم حالات کو پھر اپنے حق میں کرسکتے ہیں ۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم شروعات کریں گے ۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ماحول کو صاف ستھرا کرنے کی کوشش کریں، دنیا میں پانی کی تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے ، ہمیں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے ، زمین میں پانی کی کمی سے سبزہ اور انسان ، دونوں کو خطرہ لاحق ہے۔

پانی کو آلودگی سے بچانا بھی ضروری ہے اور ماحول کو دھویں سے ۔ اس کے علاوہ عام استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً پلاسٹک بیگز ،موبائل ، ائیرکنڈیشنر، ٹیلی وژن ، بلب اور کاروں کے چلنے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے ، اس بات کو ممکن بنایا جائے کی ان اشیاء کا استعمال کم سے کم یا ضرورت کے تحت ہی کیا جائے ۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اگر آپ کے پاس جگہ نہیں ہے تو پودوں سے بھی کام چلاسکتے ہیں ۔

زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے ہم موسم کے بے قابو ہوتے جن کو خاصی حدتک قابو میں لاسکتے ہیں ۔ اگر ہرشخص یہ عہد کرے کہ اس نے کم ازکم سال میں ایک درخت لگانا ہے پھر اس کی دیکھ بھال کرکے اس پروان چڑھانا ہے تو سالانہ کروڑوں درختوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اور دنیا کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Iss dunya ki tabahi kitni qareeb hai․․․․․? is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 September 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.