جنگِ ستمبر کے شہدا ء کی یادگاریں

عزم واستقامت جُرات اور بے مثال شجاعت وطن کے محافظوں کے سچے جذبے کی داستان سنارھی ہیں

منگل 11 ستمبر 2018

jang-e September ke shohada ki yadgarin
 شہریار اشرف
چھ ستمبر1965کو پاک فوج کے بہادر وغیور جوانوں نے وطن عزیز کے دفاع میں وہ کارنامے سر انجام دےئے جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔یہ دن عزت کی موت کو ذلت پر ترجیح دینے والوں ،دھرتی کی مانگ اپنے مقدس لہو سے بھرنے والوں اور موت کو عظیم تراقدار میں تبدیل کرنے والوں کا دن ہے ۔یہ دن عزم استقامت ،حوصلے ،جرات ،اور بے مثال شجاعت کی یاد تازہ کرتا ہے ۔

5اور6ستمبر کی درمیانی رات دشمن نے ہماری پاک سر زمین پر شب خون مارا تو ہماری شیر دل افواج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر ثابت کر دیا کہ ایک زندہ جاوید قوم اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے ۔خطہ لاہور بھی اس لحاظ سے مقدس ہے کیونکہ یہ بہت سارے شہدا وطن کا مسکن ہے ۔

(جاری ہے)

اس سر زمین پر شہدائے وطن کی کئی یادگاریں آج بھی ان جوانوں کے سچے جذبوں کی داستان کی صورت میں موجود ہیں جو اہل وطن کا ان جذبوں کی لذت سے آشنائی حاصل کرنے کیلئے دعوت فکر دیتی ہیں ۔


یاد گار گمنام سپاہی
جنگ ستمبر میں جہاں تمام شہداء نے دفاع وطن میں سر دھڑ کی بازی لگاکر اپنی قیمتی جان وطن پر قربان کی وہاں ایک گمنام شہید بھی ہے پاک فوج کے اس جانباز نے اپنے بے شمار ساتھیوں کی طرح اپنی جان وطن کی حفاظت پر قربان کردی ۔اس شہید کا جسم 16ستمبر1965کی صبح بی آر بی نہر میں تیرتاہوا پایا گیا جس کو برکی بریگیڈ سیکٹر کے تو پ خانے کے چند تو پچیوں نے نہر سے نکالا ۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کون ہے کہاں کا رہنے والا ہے اور کس بٹالین کا ہے ؟کیونکہ ایک خاص قسم کا نمبر جو جنگ کے ایام میں ہر فوجی کے بازوپرلگا ہوتا ہے ۔یہ نمبر پیتل کی ایک چھوٹی سی پلیٹ ہوتی ہے جس پر فوجی کا رجمنٹ اور کوڈ درج ہوتا ہے جو اسکی شہادت کی صورت میں اسکی پہچان کرواتا ہے ،مگر اس جوان کا وہ شناختی ٹوکن بھی اسکے بازو میں نہیں تھا جس کی وجہ سے اسکی پہچان نا ممکن تھی اس لئے اسے گمنام شہید کا نام دیا گیا ۔

ستمبر 65کے اس گمنام شہید کا مزار برکی نہر کے پل کے کنارے کے دائیں جانب ایک چھوٹی سی مسجد میں واقع ہے جو کہ آٹھ فٹ بلند چار ستونوں پر ایستادہ ہے جس پر پختہ چھت پڑی ہوئی ہے جس کے نیچے یہ گمنام شہید محوآرام ہے قبر پر گمنام شہید کا کتبہ لگا ہوا ہے ۔مزار کے اوپر رینجرز کی چیک پوسٹ بنا دی گئی ہے جس کی وجہ سے قوم کے اس سپوت کا مزار لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو گئی ہے ۔


جائے شہادت میجر عزیز بھٹی شہید
برکی روڈ پر بی آربی نہر کا پل کر اس کرنے سے پہلے بائیں جانب آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر میجر عزیز بھٹی شہید کی جائے شہادت پر یادگار تعمیر کی گئی ہے ۔میجر عزیز بھٹی پاک بھارت جنگ میں اسی مقام پر شہید ہوئے تھے جہاں آپکا مورچہ تھا عین اسی جگہ پر یہ یادگار بنائی گئی ہے ۔6ستمبر1965ء کی رات جب بھارت نے بغیر اعلان جنگ ہماری سرحد پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی کو لاہور پر حملے کی اطلاع کے ساتھ ہی حکم ملا کہ فوری طور پر اپنی کمپنی کے ہمراہ برکی سیکٹر پر پوزیشن سنبھال لیں ۔

جہاں سے دشمن کی فوج لاہور میں داخل ہونے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی میجر عزیز اپنے جوانوں کے ہمراہ بی آربی نہر کو عبور کرکے اپنے ممکنہ ٹھکانے پر پہنچے اور فوجی انتظامات مکمل کرکے پوزیشن سنبھالی ۔ایک مکان کی بلند منزل پر دشمن کی نقل وحمل کا جائزہ لیتے رہے اور نہایت مستعد ی سے دشمن کی تمام سر گرمیوں کا خاتمہ کررہے تھے ۔دشمن نے اپنا شدید نقصان ہونے کے بعد اس پوزیشن کی جانب شدید گولہ باری شروع کر دی جس کے بعد میجر صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمرا ہ نہر عبور کرکے پچھلے کنارے بہ حفاظت لوٹ آئے ۔

میجر صاحب اپنے فائض منصبی ان تھک انداز میں انجام دیتے ہوئے محاذ پر ڈٹے رہے اور دشمن کی گولہ باری کو جواب دیتے رہے وہ مورچے پربنی پوسٹ پر کھڑے دور بین کی مدد سے دشمن کی نقل وحمل کا جائزہ لے رہے تھے اور احکامات دے کر مناسب ڈگری پر گولے فائر کروا رہے تھے ۔جس سے دشمن کے بیشتر یٹنک تباہ ہو گئے اتنے میں ایک گولہ مورچے کے قریب لگے شیشم کے درخت کو چیرتا ہوا آیا اور آپ کے سینے میں پیو ست ہو گیا اور آپ شہید ہو گئے ۔

آپ کو 23مارچ1966ء کو نشان حید ر دیا گیا جو آپ کی بیگم محترمہ زرینہ اختر بھٹی نے وصول کیا ۔میجر عزیز بھٹی کی جائے شہادت کے دائیں اور بائیں جانب آپکی بٹالین اور رجمنٹ کے شہداء ساتھیوں کے نام درج ہیں ۔یوم دفاع کے موقع پر پاک فوج کے دستے اپنے اس شہید کو سلامی پیش کرنے آتے ہیں اور اس یادگار پر پھول چڑھا کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں
مناواں یادگاریں
مناواں پولیس اسٹیشن کے سامنے ایک باغ میں چند خوبصورت یادگاریں ہمارے وطن پر قربان ہونے والے مجاہد شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔

ستمبر 1965ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں فرسٹ بٹالین دی بلوچ رجمنٹ میکلوڈکی پلٹن 891پنجابی8/1پنجاب دی گیلنٹ ون نے سلیما نکی اور اور واہگہ سیکٹر میں جنگی کاروائیوں میں حصہ لیا ۔پلٹن کے جوانوں نے جرات وشجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا ۔ان مجاہدوں کی قربانی کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے پلٹن نے فیصلہ کیا کہ لاہور امر تسر روڈ کے سنگ میل 17کے مقام پربرلب سڑک ان شہدا کی یادگار بنائی جائے ۔

اس جگہ یادگار کی تعمیر کیلئے جگہ ایک محب وطن شہری نے تحفے میں عنایت کی ۔تعمیر کاکام یونٹ نے اپنی مدد آپ کے تحت 1966ء میں مکمل کر لیا ۔یادگار کا سنگ بنیاد رکھنے اور تکمیل پر پہلی چادر چڑھانے کا اعزاز لیفٹینٹ کرنل امین مرزا کے حصے میں آیا ۔یہ یادگار اپنی شان وشوکت کے ساتھ بعد میں آنے والی نسل کو پلٹن کو شہداء کی یاد دلاتی ہے ۔
یادگار معرکہ باٹاپور
جی ٹی روڈ پر 17کلو میٹر کے فاصلے پر بی آر بی نہر کا پل آتا ہے اس پل کے دائیں جانب دونوں سڑکوں کی وسط میں معرکہ باٹاپور کی یادگار بنی ہوئی ہے ۔

1965کی جنگ میں بھارت نے لاہور پر قبضہ کرنے کیلئے اس مقام پر شدید حملے کئے لیکن پاک فوج نے دشمن کے حملے کا بھر پور جواب دیا ،یہاں ہونے والی لڑائی معرکہ باٹاپور کہلاتی ہے اس مقام پر شہد ہونے والے جوانوں کی یاد میں ایک یاد گار بنائی گئی ہے ۔5ستمبر1965ء کی درمیانی شب دشمن نے لاہور پر قبضہ کرنے کی نیت سے شمالی سیکٹر میں بھینی ،مرکزی سیکٹر میں واہگہ ،جنوبی سیکٹر میں گھونڈی پر سہ اطراف سے بیک وقت حملہ کیا ۔

آزمائش کی اس گھڑی میں واہگہ سیکٹر کے دفاع کافرض 3بلوچ رجمنٹ کو ادا کرتا تھا ۔6ستمبرکی صبح چھ بچے دشمن کے ایک دستے نے جلوریلوے پل کے علاقے میں ہماری دفاعی پوزیشنوں پر حملہ کردیا اس حملے میں دشمن کو شدید نقصان اٹھانے کے بعد پسپا ہونا پڑا۔ہماری ٹینک شکن تو پ نے ایک بیل گاڑی کی آڑلے کردو ٹینکوں پر یکے بعد دیگر فائر کر کے وقتی طور پر ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی ۔

صبح ساڑھے نوبجے پاک فضائیہ کے چھ لڑا کا طیارے بروقت مدد کو آن پہنچے اور چند بموں نے دشمن کی صفوں میں کہرام برپا کر دیا۔دس اور ساڑھے گیارہ کے درمیاں دشمن نے بار بار پل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہا ۔دوپہرتک بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانے کے بعد دشمن پاٹاپورپل پر قابض ہونے کی امید سے مایوس ہو گیا ۔تھوڑے وقفہ کیلئے لڑائی کی شدت میں کمی واقع ہوئی لیکن اس دوران دشمن نے پل کو اپنی خاص نگرانی میں رکھا تاکہ پاک فوج اسے تباہ نہ کر سکے ۔

آخرکار 6ستمبر کی رات ہمار انجینئر زاس پل کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔7ستمبر کی رات ساڑھے نوبجے دشمن نے اس محاذ پر بڑا حملہ کیا رات بھر نہایت شدید لڑائی ہوئی دشمن 8ستمبر کی صبح تک اس سیکٹر کے میدان کا رزار کو چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا ۔باٹاپور کا 6ستمبر1965ء کا معرکہ دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک مثالی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے یہ میدان جنگ بہت سے جوانوں کے خون سے رنگین ہے ۔

ان شہدا کی قربانیوں کو زندہ رکھنے کے لئے یہ یادگار بنائی گئی ہے جو اس پل پر سڑک کے درمیان سرخ پتھر کی ٹائلوں سے مزین ہے جس پر اردو اور انگلش زبان میں معرکہ باٹاپور کی روداد تحریر کیا ۔
معرکہ بھینی پل
معرکہ پاٹاپور کی یادگار سے بی آر بی نہر کے ساتھ بائیں جانب تقریبا 15کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بلند چبوترے پر سیاہ پتھر سے بنی ہوئی ایک یادگارہے جو 6ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس مقام پر ہونے والے معرکے کی یاد میں بنائی گئی ہے جس میں 2حولدار14سپاہی2نائک جبکہ3لانس نائک شہید ہوئے ۔

جنگ میں بھارت نے چھمب جوڑیاں کے محاز پر پاکستانی افواج کی پیش قدمی روکنے کے لئے 6ستمبر کی رات کو لاہور کی سرحد پر تین اطراف سے حملہ کیا ۔پاکستانی فوج نے اس اچانک حملے کے باوجود بھارتی حملہ آوروں کو بی آربی نہر کے دوسری جانب تک آنے سے روک دیا ۔پنجاب رجمنٹ نے میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں برکی اور ہڈیارہ سیکٹر میں دشمن کی پیش قدمی طرح سے روک دی ۔

وہ علاقہ جہاں بھینی پل واقع ہے یہاں بلوچ11رجمنٹ تعینات تھی جب اس حصے سے دشمن نے نہر عبور کرنے کی کوشش کی تو 6ستمبر کی شام 5بجے دفاع کے پیش نظر اس پل کو بارود لگا کر اُڑادیا گیا۔ اس طرح کا ایک اور پدری پُل پنجاب رجمنٹ نے اُڑادیا تھا جس کے باعث دشمن نہر نہ عبور کر سکا ۔اس محاذ پر 11بلوچ رجمنٹ کے جوان شہید ہوئے جن کو گیلری ایورڈ سے نوازا گیا ان شہداء کی یادگار بھینی پُل کے کنارے ایک اونچی جگہ پر بنائی گئی ہے ساتھ ہی معرکہ بھینی پل کی یاد میں پُل کا کتبہ نصب ہے جس پر پُل کو اُڑانے کی تاریخ اور وقت تحریر ہے ۔


یادگارِگنج شہدا
کھیم کرن کے محاذ پر جرات وبہادری کا مظاہرہ کرنے والے 55شہدا کی یادگاریں اور آخری آرام گاہیں مصطفی آباد میں قائم ہیں ان میں بریگیڈئیر احسن رشید شامی کا نام نمایاں ہے بریگیڈئیر احسن رشید شامی شہید ہلال جرات کی یاد گاری شامی مینار بھی مصطفی آباد میں بنا دیاگیا ہے ۔6ستمبر1965کو جب بھارت نے پاکستان پر عیار انہ حملہ کیا تو آپ کو کھیم کرن سیکٹر میں دفاع وطن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی آپ نے اپنی مخصوص سر فروشانہ ہمت ،مثالی جرات اور بلند کردار عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے ٹڈی دل فوج کو اپنے قلیل سرفروش ساتھیوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کی مدد سے شکست فاش دی اور کھیم کرن کے محاذ پر قبضہ کر لیا۔

10ستمبر کی صبح فرض کی ادائیگی اور شوق شہادت میں سر شار دشمن کے علاقے میں اسکی فوجوں کے قلب میں پہنچ گئے اور دشمن کی گولی لگنے سے شہادت پائی ۔بریگیڈےئر شامی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قبرستان شہید ان میں دفن کیا گیا۔ان شہدا میں دوسرا بڑا نام لیفٹنٹ ندیم احمد خان شہید ہے جنھوں نے 10ستمبر کو کھیم کرن کے محاذ پر مادر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔جنگ ستمبر کے دوران مجاہد فورس للیانی کے جوانوں نے بھی فوج کے شابشانہ کے ساتھ دیا انہیں اسلحہ کی سپلائی ،کھانا اور مرہم پٹی جیسے فرائض ادا کئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

jang-e September ke shohada ki yadgarin is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 September 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.