کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی‘پاکستان کا بھارت کو کرارا جواب!

سفارتی وتجارتی تعلقات معطل کرنے پر مودی حکومت بوکھلا ہٹ کا شکار

ہفتہ 17 اگست 2019

Kashmir Ki Hesiyat Main Tabdeeli - Pakistan Ka India KO Karara Jawab!
محبوب احمد
بھارتی آئین کا آرٹیکل370مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے،یہ آرٹیکل ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے،اسے بر قرار رکھنے ،اپنا پرچم رکھنے اور دفاع ،خارجہ ومواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔بھارت کے آئین کی جو دفعات وقوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کئے جا سکتے ،اس آرٹیکل کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔

پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی اقوام متحدہ ،سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر بھر پور مخالفت کی ہے اور اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کشمیر میں بھارتی پابندیوں پر تشویش کا اظہار اور جار حانہ اقدامات کی مخالفت پاکستانی موٴقف کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

(جاری ہے)


بھارتی اقدامات سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالیہ صورتحال بہت گھمبیر ہے حالانکہ اقوام متحدہ کا موٴقف سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور چارٹر کے اصولوں پر مبنی ہے اور شملہ معاہدے کی روسے ہی کشمیر کا حل پرامن طریقے اور سلامتی کونسل کے چارٹر کے مطابق ہونا قرار پایا تھا۔

بھارت نے 15اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام 2حصوں میں تقسیم کر دیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہو گا۔
بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالئے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر ریاست کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے جہاں لداخ کے لوگ اپنے علاقے کیلئے قانون ساز اسمبلی کی طاقت کا مطالبہ کررہے ہیں وہیں بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370ختم کرنے اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دینے پر دنیا بھر کی طرح چین نے بھی نقطہ اعتراض اٹھایا ہے۔چین اور بھارت کا لداخ میں سرحدی تنازع بہت پرانا ہے اور اس بارے میں دونوں حکومتوں کے درمیان اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کی گئی تھی۔

چین نے نریندر مودی کو جو تنبیہہ کی ہے کہ بھارت کو یکطرفہ طور پر متنازع سرحدی خطے کی موجودہ صورتحال میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہئے جوکشیدگی کوہوادے وہ کسی بڑے خطرے سے خالی نہیں۔
پاکستان نے قیام امن کیلئے جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اس کا اعتراف بھی پوری دنیا کھلے دل سے کرتی ہے لیکن گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور اسے مرکزکے زیر انتظام علاقہ بنائے جانے پر خطے میں کشیدگی کی جو فضا دیکھنے کو ملی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرتے ہوئے دوطرفہ تجارت معطل کیا ہے جس پر نریندرمودی اب بوکھلا ہٹ کا شکار ہو کر اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کر رہا ہے۔

پاکستان نے 14اگست کو یوم آزادی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی جبکہ15اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منا کر پوری دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور شہداء کی تحریک آزادی کیلئے دی جانے والی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔
پاکستان تمام مذاہب اور ان کے پیروکاروں کی مذہبی رسومات کا احترام کرتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ حکومت نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باوجود کرتا رپورر اہداری پر کام جاری رکھنے کا جو عندیہ دیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور اس کو دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے،یہاں یہ بھی یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں پاکستان نے کرتا رپور راہداری کے حوالے سے مجوز ہ معاہدہ بھارت کے حوالے کیا تھا اس منصوبے میں دریائے راوی پر پل اور ساڑھے 4کلو میٹر سڑک شامل ہے اور یہ منصوبہ رواں برس نومبر میں سکھ مذہب کے بانی بابا گوروناک کی 550ویں برسی سے قبل مکمل ہونے کا امکان ہے۔


بھارت نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کر رکھا ہے اور اب بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں اور ایل اوسی پر ہٹ دھرمی کا جو مظاہرہ کیا جارہا ہے وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ،جوں جوں وقت تیزی کے ساتھ گزررہا ہے ویسے ہی بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتا جا رہا ہے جس پر وہ شدید پریشانی کا شکار ہے۔

بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے جہاں بھارت کے ہندوانتہا ء پسندانہ اور دہشت گردانہ عزائم رفتہ رفتہ بے نقاب ہوتے جارہے ہیں وہیں وادی کشمیر میں بھارتی جارحیت اور لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی سے خطے کے امن کو شدید نقصان پہنچ رہ ہے۔
بھارت اپنے جنگی جنون اور جارحیت کے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے ،رواں سال بھارتی فوج نے سینکڑوں مرتبہ ایل اوسی پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں اور بزرگوں سمیت درجنوں افراد کو شہید کیا ہے۔

پوری دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ ایل اوسی پر فائرنگ کرکے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور بھارت یہ سب کچھ مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے کررہا ہے ۔بھارتی فوج لائن آف کنٹرول اور وادی کشمیر میں نہتے معصوم شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہی ہے جس سے خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کوششیں زائل ہوتی جارہی ہیں۔


پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط رہے ہیں،لہٰذا یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتارہے گا ان تعلقات میں بہتری نہیں آئے گی۔بھارت کی انتہا ء پسند جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نریندرمودی کی شرانگیز تقاریر اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

بھار ت کے جارحانہ عزائم پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کیلئے ہیں کیونکہ”بنیئے“کو ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی۔پاکستان کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتا،پوری قوم حق خوداراویت کے لئے کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں موجود قابض بھارتی فوج کا مورال اب انتہائی پست ہو چکا ہے ۔


کشمیریوں کی تیسری نسل کے نوجوان طلباء وطالبات قابض بھارتی فوج کا پتھروں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔بھارت کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ اگر وہ 70برس میں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کرنے ،درجنوں کا لے قوانین کے اطلاق و دیگر ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نہیں دبا سکا تو آئندہ بھی اس کو ناکامی کاہی سامنا کرنا پڑے گا۔کشمیریوں کا خون اتنا ارزاں نہیں کہ اس پر سیاست کی جائے۔

پاک فوج وطن کو درپیش دفاعی اور سلامتی کے چیلنجز سے آگاہ ہے اور وہ ہر محاذ پر درپیش خطرات کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔پاکستان اسلام کا قلعہ اور ایٹمی صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے لہٰذا بھارت نے اگر میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھنے کی غلطی کی تو پا کستان کے غیوروعوام پاک فوج کے شانہ بشانہ بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔


نریندمودی نے آرٹیکل 370کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ وادی میں اضافی فوجہ دستے تعینات کر دیئے تھے کیونکہ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کر فیونافذ ہے،ٹیلی فون ،انٹرنیٹ سروسزبند ہیں،کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے ۔بھارتی فوج نے احتجاج کرنے والے تقریباً 500سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لے لیا ہے اور یہ سلسلہ بد ستور جاری ہے۔

جبکہ حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں ۔بھارت کا یہ کہنا کہ ”آرٹیکل 370کے بارے میں اقدامات خالصتاً اس کا اندرونی معاملہ ہے بڑا ہی مضحکہ خیز ہے کیونکہ کشمیر اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ تنازع ہے ۔جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنا بھارت کا کبھی بھی اندرونی معاملہ نہیں ہو سکتا بلکہ یہ عالمی تنازع ہے ۔امریکہ کو بھی چاہئے کہ وہ اب مسئلہ کشمیر پر دونوں ممالک کو پرامن اور تحمل سے کام لینے کا درس دینے کے بجائے اس کے حل کی طرف سنجیدگی سے توجہ دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir Ki Hesiyat Main Tabdeeli - Pakistan Ka India KO Karara Jawab! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 August 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.