کیا عثمان بزدار وسیم اکرم بن پائے گئے؟

سر فراز احمد ورلڈ کپ تک کپتان مقرر تحریک انصاف کے دور حکومت میں کرکٹ سے لے کر ہر شعبے میں ناکامی

جمعہ 15 فروری 2019

kya usmaan buzdar waseem akram ban paye gaye
 بادشمیم
 ندیم اختر ندیم
ایک پریس کا نفرنس میں پی سی بی نے سر فراز احمد کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے اُسے ولڈ کپ تک کپتان بر قرار رکھنے کا دو ٹوک اعلان کیا ہے ۔اپنی بدزبانی کی وجہ سے سر فراز کو سر فراز نے کی سمجھ بہت سوں کو نہیں آرہی ہے اور بہت سے سیانے سمجھ چکے ہیں کہ نئی قیادت کے ساتھ چلنے والوں میں ایک اہم خوبی بدزبان ہونا بھی ہے ۔

سر فراز جو افریقن کر کٹر کو ماں کی گالی دینے کی پاداش میں چار میچوں کی معطلی کو سزا بھگت رہے ہیں ۔
ان کو اس موقع پر پی سی بی کے چےئرمین نے اپنے ساتھ بٹھاکے عزتوں کے ہار اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے اس پہ بھر پور اعتماد کا اظہار کرنے کا اعلان کیا ہے ۔اس کے بعد جناب خان آف میانوالی خان اعظم جناب عمران خان صاحب نے اپنے دورہ لاہور کے موقع پر تخت لاہور پر اپنے نائب کو ہی برقرار رکھنے کا واضح اعلان کیا ہے ۔

(جاری ہے)

عثمان بزداری کی اب تک کی کارکردگی پر غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ محترم نے ابھی تک کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔
بلکہ وہ اپنے کپتان کی طرح ہر حکم پریس سر کہنے کا سبق یاد کیے ہوئے ۔اقتدار روز روز نہیں ملتے ہیں ۔
بائیس سال سڑکوں پہ دھکے کھانے کے بعد اور پھر ساری پارٹیوں سے رینو کنے اکھٹے کرنے کے بعد بمشکل خان صاحب کو تخت نصیب ہوا ہے ۔

ایسے میں وہ ایک سلیکٹڈوزیر اعلیٰ کو ہٹاکے اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے کا خطرہ بالکل بھی مول نہیں لے سکتے ہیں ۔ہیں جی ۔سابقہ دور میں جب کرکٹ ٹیم ہارتی تھی تو ہمارے کپتان اپنے بیانات میں چےئرمین پی سی بی اور حکومت پر سخت الفاظ میں تنقید کیا کرتے تھے ۔بلکہ وہ کہتے تھے کہ وزیر اعظم کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔
ہر بار کے بعد سلیکشن کمیٹی بد لوادی جاتی تھی ۔

لیکن اب نہ چیف سلیکٹر اور نہ ہی باقی کرتا دھرتوں کو چھیڑا جا رہا ہے ۔مجھے یاد ہے زرا زرا آپ میں سے بہت سوں کو بھی یاد ہو گا کہ خان صاحب جب دھرنا ایکسپریں کے مسافر تھے تو ہر روز ٹی وی سکرین پہ آگے مثالیں دیا کرتے تھے کہ جن ملکوں نے کھیلوں کے شعبے میں ترقی کی ہے وہ ملک ایک سسٹم کے تحت کام کرنے کی وجہ سے کامیابی کو پہنچے ہیں ۔
پاکستان میں اگر کرکٹ ٹیم ہار جاتی تھی تو خان صاحب کہتے کہ یہ کیا بات کہ ملک کا وزیر اعظم کرکٹ ٹیم کے معاملات دیکھتا ہے ۔

آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ان کے بورڈ با اختیار ہیں ۔وہ ایک سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں۔ ملک کاکو ئی سیاست دان یا نمائندہ حکومت ان کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ہے ۔اور ان کی یہ بات بالکل درست تھی ۔لیکن یہ کیا ہوا ۔اقتدار خان صاحب کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔اور خان صاحب نے اپنے قول کے بالکل الٹ کام شروع کیا یعنی جو سارے وعدے اقتدار پانے کے لیے کیے تھے وہ صرف وعدے ہی تھے ۔


نئی حکومت کے ساتھ ہی بورڈ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا۔نجم سیٹھی سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی محنت سے نہ صرف پی ایس ایل کو کامیابی سے چلا کے دکھادیا بلکہ دنیا کرکٹ کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے سونے میدان آباد کرنے کی کامیاب کوششیں کرکے ثابت کر دیا کہ اگر کوئی نیک نیتی سے چاہیے تو ہر چیز ممکن ہے ۔

اب ٹیم ہاری ہے تو سو سوال اٹھ رہے ہیں ۔لیکن بورڈ کو کسی کے سوا ل جواب کی پرواہ نہیں ہے ۔ہارتی ٹیم میں مسلسل موقع پا نے والے چیف سلیکٹر کے بھتیجے ایک میچ میں سنچری کرکے ایسے نظر آرہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو۔
ایسا ہی کچھ منتخب کپتان وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کے ساتھ ہورہا ہے ۔نئی قیادت نے محترم عثمان بزدار کے ہاتھ پنجاب کی باگ ڈوردے کے جنوبی پنجاب کے دکھ کم کرنے کی بہترین کوشش کی تھی ۔

لیکن ابھی تک جنوبی پنجاب میں کہیں بھی گھی کے چراغ جلتے نظر نہیں آرہے ہیں ۔عثمان بزدار کی سلیکشن سے امید لگانا کہ جنوبی پنجاب کے حالات بہتر ہو جائیں گے ۔
کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے ۔مسئلہ جنوبی پنجاب کے بندوں کو اقتدار میں بڑے عہدوں پر بٹھانا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو شعور دیا جائے کہ ان کے نمائندے ان میں سے ہی ہوں ۔

ترقیاتی فنڈز سے اپنے محلات کی رونق بڑھانے کی بجائے عوام کی حالت بہتر بنانے کی طرف توجہ دینے والے ہوں ۔اب کیا یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں جنوبی پنجاب سے جڑے سیاسی پنڈت جنوبی پنجاب کی محرومی کا رونا نہیں روئے گا۔
میرا خیال ہے کہ بالکل بھی نہیں ۔تحریک انصاف اپنے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مگن ہے ۔الیکشن کے آخری سال پھر کہیں سے شوشا چھوڑ دیا جائے کہ جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بنانا ہو گا ۔

لیکن ہمیں سب یاد ہے کہ جنوبی پنجاب سے پہلے بھی وڈیرے ،گدی نشین اور قدر آور لوگ تحت پنجاب کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں ۔لیکن وہ اپنے علاقے سے اسی طرح بے خبر رہے جیسے محترم کپتان جی آج کل آپ عام پاکستانیوں کی سوچ وفکر سے بے خبر لگ رہے ہیں ۔
ابھی تک عام پاکستانیوں کے لیے آپ کے وزیرہ مشیروں نے کوئی خیر کی خبر نہیں دی ہے ۔عثمان بزدار ایک متوقسط طبقے کا بند ہ ہے ۔

جس کا خاندان کئی عشروں سے سیاست میں موجود ہے ۔لیکن اتنے عرصے میں انہیں وہ پذیرائی نہیں مل سکی۔جو انہیں آپ کی نظر محبت سے مل گئی ہے ۔اب بہت سے سینیر سیاست دان اس کے بارے پیٹھ پیچھے باتیں کرکے انہیں پریشر میں لانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
اب آپ کے پاس صرف یہی چوائس ہے کہ جناب عمران خان صاحب منتخب وزیر اعلیٰ کو مضبوط کریں نہیں
 تو دوبارہ کوئی نیا وزیر اعلیٰ لانے کی کوشش میں نمبر پورے کرنا مشکل بھی ہو سکتا ہے ۔


تحت لاہور آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔آج اپنے ساتھیوں کو سمجھائیں کہ تنکوں کے سہار ے کھڑی حکومت کو تیز ہواوں کے حوالے نہ کریں ۔ابھی ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں ۔جناب یاد رکھیے گا کہ پنجاب کے لوگ ہر نئے بندے کو خوش آمدید ضرور کہتے ہیں ۔سر پہ بٹھاتے ہیں ،عزت دیتے ہیں لیکن کسی بھی طاقتور سے طاقتور حکمراں کو لمبا عرصہ کسی صورت برداشت نہیں کیا کرتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kya usmaan buzdar waseem akram ban paye gaye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.