معیشت کے دجال

کارگل کے زخم ابھی تک جسد وطن سے رس رہے ہیں،یہ کارگل پہاڑوں میں لڑاگیا تھا یا زمین پر میدان زراعت میں اسکی قیمت چکائی گئی تھی ، قوم’’ کارگل ‘‘کا نام سن کر اب بھی چونک اٹھتی ہے ۔

Shahid Nazir Chaudhry شاہد نذیر چودھری پیر 21 جنوری 2019

maeeshat kay dajjal
کارگل کے زخم ابھی تک جسد وطن سے رس رہے ہیں،یہ کارگل پہاڑوں میں لڑاگیا تھا یا زمین پر میدان زراعت میں اسکی قیمت چکائی گئی تھی ، قوم’’ کارگل ‘‘کا نام سن کر اب بھی چونک اٹھتی ہے ۔کارگل کے محاذ سے شاید اس بات کا کوئی بلا واسطہ تعلق نہ ہو مگرملکی حالات بالواسطہ اس پر لازمی اثر انداز ہوئے تھے۔

اُس سال ’’ دو کارگل ‘‘پاکستان کی تقدیر لکھ رہے تھے ۔ 1998ء میں جب کارگل کی چوٹیوں پر ’’ مجاہدین‘‘ نے انڈیا کو پریشان کیا ہوا تھا ،پاکستان میں زراعت کے محاذ پر بھی گھمسان کی کارگل جنگ چھڑ چکی تھی اور سرمایہ کاری کرنے والا ایک بڑا ادارہ پاکستان سے کوچ کرنے پر مجبور ہوگیا تھا ۔یہ ’’کارگل ‘‘نامی امریکی ادارہ تھا جس نے پاکستان میں زرعی میدان میں ہائبرڈ سیڈ اور پیسٹی سائیڈ کے علاوہ بڑے پیمانے پر انقلاب برپا کیا تھا مگر 1998ء میں حیرت انگیز طور پر اپنی کمپنی مونسینٹو نامی انٹرنیشنل کمپنی کو بیچ کر پاکستان سے ہمیشہ کے لئے چلا گیا تھا۔

(جاری ہے)

کشمیر والے کارگل کے نتائج اور اسکے ثمرات کے بارے میں اب ہر کوئی جانتا ہے مگر زرعی طور پر پاکستان کو بدترین گرانی اورحیرانی سے دوچار کرنے والے ادارے نے بیس سال بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرکے یہ انکشاف بالاخر کردیا ہے کہ انکی کمپنی پاکستان سے سرمایہ اٹھا کر جانے پرکیوں مجبور ہوئی تھی ۔یہ چونکا دینے والی بات ہے۔اس کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کی تاریخ حکومتی اشرافیہ کے سیاہ کرتوتوں کے ناقابل بیاں شرمناک کردار سے جڑی ہوئی نظرآتی ہے ،اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان برسوں سے اقتصادی طور پر ہوا میں معلق کیوں رہا ہے ؟ اسکی بنیادیں ریت پر کیوں کھڑی کی جاتی رہی ہیں ؟اور ہم نے اب تک سبق کیوں حاصل نہیں کیا ۔


جمعرات کو امریکی کمپنی کارگل گلوبل کے ایگزیکٹو وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی کمپنی پاکستان میں دوسو ملین ڈالر کی سرمایہ کرتے ہوئے خوراک اور زراعت کے شعبے میں پھر سے سرمایہ کاری کرے گی ۔یہ خبر بہت خوش آئیندہے کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کی جانب راغب ہورہے ہیں لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ دل کو دھڑکا سا لگارہتا ہے کہ بیمار معیشت کی دوا عطار کے لونڈے سے ہی لینی پڑے گی۔

اسکا ایک سبب تو وہ بیانیہ ہے جو کارگل گلوبل کے اعلامیہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔رات بھر ٹی وی چینلز پر اس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے کہ کمپنی کے وفد نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں کرپٹ مافیا کی وجہ سے ان کی کمپنی پر دباو بڑھ گیا تھا اور وہ پاکستان سے اپنا سرمایہ اٹھا کر لے گئے تھے ۔اس بیانیہ سے وزیر اعظم عمران خان کے نظرئیے اور جدوجہد کو بلاشبہ تقویت ملتی ہے اور ان کا یقین مزید محکم ہوگیا ہے کہ غیر ملکی کپمنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کیوں کتراتی ہیں ؟ کیونکہ عمائدین مملکت اور سیاسی اشرافیہ کی کرپشن ان اداروں پر کاروباری دائرہ حیات تنگ کردیتی ہے لہذا ان کا پاکستان سے دلبرداشتہ ہونا ضروری ہوجاتا ہے ۔

 

کارگل گلوبل ایگروورلڈ میں نمایاں نام ہے ۔پاکستان میں بیج کی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور زراعت میں جدید رجحانات لانے کے لئے اس نے بڑی مارکیٹ پیدا کی تھی ۔جس دور میں اس نے پاکستان سے کوچ کیا یہ میاں نواز شریف کا دور حکومت تھا ۔ان کے ہی دور میں کارگل کی جنگ چھڑی تھی اور انہیں کے دور میں امریکی کمپنی کارگل گلوبل نے پاکستان چھوڑا تھا ۔

اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کارگل گلوبل کو میاں نواز شریف کی حکومت نے تنگ کیا ہوگا ،ان سے کاروبار میں کوئی حصہ مانگا ہوگا لیکن کارگل گلوبل کو یہ گوارا نہ ہوگا کہ وہ ان کی فرمائش اسی طرح پوری کرتی چلی جائے جیسے دوسرے بہت سے سرمایہ کاروں نے اپنی کمپنیاں انہیں نذرانہ کردی تھیں تاکہ شین کے ’’شر‘‘ سے بچاجاسکے۔یہ باتیں گمان اور مفروضہ بھی ہوسکتی ہیں ۔

ان کے ثبوت فراہم کرنا عام بندے تو کجا تفتیشی اداروں کے بھی بس میں نہیں لیکن جب پاکستان کے سیاسی کلچر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سیاستدانوں کا جرم پھلتا پھولتا ہوا صاف نظر آتا ہے۔یہ سیاسی کلچر اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں سائیکل پر سیاست کا آغاز کرنے والا پارلیمنٹ تک پہنچ جاتا ہے تو ہاوسنگ سوساٹیوں کا مالک بن جاتا ہے،بے نامی جائیدادوں کا مالک نکلتا ہے ،گلف میں اسکی سرمایہ کاری سے تجارتی عمارتیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔

یہ مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں موجود سیاسی طور پر بااثر اشرافیہ ایک مافیاکا نام ہے جسے صاحبان عدل سیسلین مافیا کہہ چکے ہیں ۔یہ مافیا مقامی سرمایہ داروں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈونیشنز،کک بیکس پر مجبور کرتا ہے ۔ان کے خلاف نیب ،ایف آئی ،اینٹی کرپشن،ایف بی آر سمیت دوسرے ادارے بھی ثبوت اکٹھے نہیں کرپاتے مگر جب ایمنسٹی کا اعلان ہوتا ہے تو بہت سے ایسے سیاستدان ایمنسٹی کی گنگا میں اشنان کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے کرپشن اور دیگر خفیہ ذرائع سے کمائی ہوئی دولت کو ڈکلئیر کرنے سے گریز کیا تھا ۔


سرمایہ کاری اور سیاست کاری کے لئے پاکستان کو بڑا زرخیز ملک سمجھا جاتا ہے ۔لیکن ان دونوں طبقوں کی وجہ سے قومی معیشت’’ کاروکاری‘‘ کی نذر ہوجاتی ہے ۔ وزیر پاکستان عمران خان نے کارگل گلوبل کو یہ اطمینان دلا کر اسکا اعتماد بحال تو کیا ہے کہ حکومت شفافیت اورکاروبار کے یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنارہی ہے اور ملک میں کاروبار کو آسان بنانے کیلیے اقدامات کر رہی ہے۔

لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے ۔انکی راہ کاٹنے والے معیشت کے دجالوں کوکون روکے گا؟ بیرونی سرمایہ کار ہوں یا ملکی ،دونوں کے لئے ماحول ساز گار اور شفاف ہونا چاہئے اور انہیں اولین ترجیح دیتے ہوئے ہر طرح کی معاشی اقتصادی پالیسیوں پر انہیں اعتماد میں لینا چاہئے ۔ایسا نہ ہوکہ حکومت کی بدنیتی عملاً تواسکی پالیسیوں کے نفاذ سے جھلکتی رہے اور یہ بھی دعووں اور نعروں پر اڈیالہمیں جھاڑو پھیرنے پر مجبور ہوجائیں ۔


یاد رہے کہ پچھلے چھ ماہ کا کیا دھرا سٹیٹ بینک نے کھول کر بیان کردیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے 6ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ معیشت کی راہ میں کھڑے سیاسی دجالوں کا اثر ہے کہ سٹیٹ بینک کی ششماہی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری میں 77 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے اور اسٹاک مارکیٹ سے پونے تین ارب ڈالر نکل گئے ہیں جبکہ مجموعی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری 3ارب ڈالر تک کم ہوئی۔

ایک دوسری رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی مارکیٹ ڈاون ہوگئی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سیمنٹ، کھاد، تیل اور گیس کی تلاش اور بعض دوسرے شعبوں سے 3.53ملین ڈالر نکال لئے ہیں ، تاہم مقامی سرمایہ کاروں نے ملک بچانے کے لئے اس سے کسی قدر زیادہ رقم یعنی 3.57ملین ڈالر کاروبار میں لگائے ہیں۔یہی مسحکم معیشت کا کلیہ بھی ہے اور معاشی طور پر مضبوطی پکڑنے کی جانب ایک بڑا اشارہ بھی کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں پر انحصار کرنے کے ساتھ ملکی سرمایہ داروں کا بھی اعتماد بحال کرنا ضروری ہوتا ہے۔

انہیں بھی انصاف پر مبنی شفاف ماحول ملنا چاہئے ۔انہیں قومی پالیسی سے متصادم اداروں کے سربراہوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا چاہئے کیونکہ ان نوکری پیشہ سربراہوں کے عملاً اٹھائے اقدامات سے معیشت کی مضبوطی اور سرمایہ کاری کا خواب پورا نہیں ہوتا ،اسکی مثال ’’اوگرا ‘‘ کی موجودہ پالیسیاں ہیں جو اس نے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے ناجائز طور پر روا رکھی ہیں ۔اوگرانے غلط وصولیاں کرکے او ایم سیز کومزید سرمایہ کاری سے ہراساں کردیا ہے اور اسکے نتیجہ میں ملک میں سرمایہ کاری کا رجحان مندے کا شکار ہوگیا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

maeeshat kay dajjal is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 January 2019 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.