ملتانی کاشی گری

نیلا رنگ ہی کیوں ؟؟ خطہ ملتان میں نیلے رنگ کے فروغ کے حوالہ سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ رنگ انتہائے نظر اور آفاقیت کی ایسی علامت ہے جس سے روح و چشم کو سکون ملتا ہے

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری جمعرات 2 مئی 2019

multani kashi giri
بہت پہلے فارسی کے ایک مشہور شعر میں ملتان کو گرد، گدا، گرما اور گورستان کا شہر گردانا گیا تھا۔ لیکن اُس ملتان اور آج کے ملتان میں بہت فرق ہے۔ آج کا ملتان پنجاب کا چوتھا بڑا شہر ہے جو دنیا بھر میں کئی حوالوں سے مشہور ہے جن میں ملتان کی سر زمین پر آرام فرما رہے اولیاء و صوفیاء ، ملتانی سوہن حلوہ، آم کے باغات، ملتانی کاشی گری اور ظروف سازی، چمڑے کے دیدہ زیب کھسے، کمنگری،  اونٹ کی کھال سے بنے لیمپ شیڈ، کڑہائی شدہ کرتے اور دوپٹے، ملتانی کھیس، ریشمی لنگیاں، مجسمے،تیل دھنیاں، کاشی کی اینٹیں اور نیلی اجرک وغیرہ شامل ہیں۔

لیکن یہاں میں ملتان کی جس صنعت کا ذکر کروں گا وہ خالص ملتانی ہے اور یہیں سے پورے ملک میں پھیلی ہے، یہ صنعت ہے کاشی گری یا ظروف سازی (بلیو پاٹری) کی ۔

(جاری ہے)


پہیے کی ایجاد کے بعد فنِ ظروف سازی نے ایک نئی کروٹ لی اور تقریباً 3000 سال قبلِ مسیح میں سفال گروں نے اس پہیئے کو ایک نئی شکل میں ڈھال کر مٹی کو اس پر نچانے کی ابتدا کر دی۔ کمہار کے ہاتھوں نے اس پہیئے پر جادو دکھانا شروع کیا اور چھال یعنی ''پوٹرز وہیل'' دیکھتے ہی دیکھتے کمہار کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔

وقت کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں کی گئیں جبکہ پہیئے کی ایجاد سے پہلے یہ تمام کام انسانی ہاتھ سے کیئے جاتے تھے جو کافی وقت لیتے تھے۔
انسانی تاریخ میں صدیوں پہلے سے مٹی کو حُسن پرستی جمالیاتی ذوق اور کاری گری کے اظہار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پھر چاہے وہ مجسمہ سازی کا فن ہو، تعمیری شاہکار ہوں یا فنِ بت سازی، یہ مٹی کب سے مختلف اشکال میں انسانی ذوق کی تسکین کا باعث بنتی آ رہی ہے۔

موہنجودڑو، بابُل اور ہڑپہ کی قدیم تہزیبیں بھی مٹی کو برتن بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ اگر مٹی سے ظروف بنانے کے فن کو قدیم ترین فنون میں سے ایک کہا جائے تو کُچھ غلط نہ ہو گا۔
آج بھی ظروف سازی کسی نہ کسی صورت میں ہر ملک اور ثقافت کا حصہ ہے لیکن ماضی میں چینی قوم اس ضمن میں سب سے پہلے منظرِ عام پر آئی۔ چینیوں نے پورسلین اور ظروف کے روغن دریافت کیئے اور اس سے برتن بنانے شروع کر دیئے لیکن ان کے برتن نیلے رنگ کے بغیر بہت پھیکے لگتے تھے۔

پھر ایرانی سلطنت میں ''کوبالٹ آکسائیڈ'' کی دریافت نے تہلکہ مچا دیا۔ اس کو مٹی کے برتنوں پر روغن کے طور پہ مَلا جاتا تھا جو بھٹی میں تپنے کے بعد خوبصورت اور چمکتے ہوئے نیلے رنگ میں بدل جاتا تھا۔
1301 میں ایران کےعبدل قاسم قاسانی نے برتنوں پر نقش نگاری اور رنگوں سے متعلق ایک کتاب لکھی۔ چینی قوم کسی بھی قیمت پر ایرانیوں سے رنگوں کا یہ فن سیکھنا چاہتی تھی۔

ایرانی حکمران شاہ عباس نے 300 چینی کاریگروں کو ایران بلوایا جہاں آ کر انہیں یہ معلوم ہوا کہ ایران کی مٹی پورسلین بنانے کے لیئے بالکل کارآمد نہیں ہے۔ وہ مایوس تو ہوئے لیکن اپنے ایرانی ہم عصروں کے ساتھ مل کر انہوں نے ''نیلے رنگ کے برتن'' دریافت کر لیئے۔ اِن برتنوں کو ''بلو پاٹری'' نام انگریزوں کا دیا ہوا تھا جبکہ ایران میں یہ ''سنگینے'' کے نام سے جانے جاتے تھے جس کا مطلب ''پتھر سے بنے ہوئے'' ،ہے۔

پھر یہ فن افغانستان سے ہوتا ہوا برِصغیر وارد ہوا جہاں ملتان شہر اسکا گڑھ بنا اور ملتان سے یہ لاہور، دہلی اور آگرہ تک جا پہنچا۔
فنِ ظروف سازی پر ایرانی ، چینی اور منگول اقوام کا اثر بہت زیادہ ہے اور یہ بھی مانا جاتا ہے کہ کاشی کے فن کی ابتدا مغربی چین کے شہر کاشغر سے ہوئی تھی۔ جو بعد میں ایرانیوں نے اپنایا اور آج بھی آپ کو ایران میں جگہ جگہ مختلف مزارات اور عوامی جگہوں پر نیلا ٹائل ورک نظر آئے گا۔


ملتان میں عمارتوں اور برتنوں پر نیلے رنگ کی نقاشی کی روایت بھی قدیم عہد سے چلی آ رہی ہے، اس فن کیلئے نیلے رنگ کا ایک خاص روغن تیار کیا جاتا ہے۔ کاشی گری کے فن میں دوسرے رنگوں کا استعمال بہت ہی کم ہوا ہے اور غالباً کامیاب بھی نہیں ہو سکا۔  کاشی گری اصل میں مٹی اور دھاتوں کے ایک خاص مرتب سے بنائے گئے برتنوں پر نیلگوں نقش و نگار بنائے جانے کو کہتے ہیں۔


نیلا رنگ ہی کیوں ؟؟ خطہ ملتان میں نیلے رنگ کے فروغ کے حوالہ سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ یہ رنگ انتہائے نظر اور آفاقیت کی ایسی علامت ہے جس سے روح و چشم کو سکون ملتا ہے۔ ملتان اور سندھ کی تہذیب و تاریخ میں نیلے رنگ کی بہت زیادہ اہمیت ہے‘ اجرک جو سندھ اور ملتان کا تہذیبی پہناوا ہے‘ کی رنگائی بھی نیل سے ہی کی جاتی تھی‘ ملتان میں سر ڈھانپنے کی ایک مخصوص چادر کو ’’نیلا‘‘ کہا جاتا تھا‘ دریائے سندھ کا پرانا نام بھی ’’نیلاب‘‘ ہے۔

اس خطے میں پڑنے والی شدید گرمی نے بھی نیلے رنگ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ نیلا رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا ہے۔ سو نیلا رنگ اب ملتان اور تمام جنوبی پنجاب کی پہچان بن چُکا ہے۔
 آج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فن ملتان میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور شہرِ ملتان،  فارس اور ترکی کے ساتھ ہمارے پرانے اور اٹوٹ رشتوں کی جیتی جاگتی مِثال ہے۔

ایک زمانہ تھا جب (رنگوں کی خاص ترتیب اور بناوٹ کی وجہ سے) ملتانی ہنر مند  کئی عرصے تک اس فن کو ایک راز کے طور پر نسل در نسل منتقل کرتے رہے، لیکن آج یہ ہر جگہ پھیل چُکا ہے ۔ ایران کی طرح ملتان کی بھی کئی معروف عمارتیں کاشی گری کا شاہکار ہیں جن میں بزرگانِ دین کی درگاہیں، مساجد، بہاؤ الدین یونیورسٹی کا شعبہ سرائیکی اور اُمراء کے بنگلے شامل ہیں۔

پاکستان میں اس وقت ظروف سازی کے تین بڑے مراکز ہیں۔ ملتان ،گجرات اور لاہور میں شاہدرہ لیکن برِصغیر میں جو شہرت ملتان کی کاشی گری کو نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور کا مقدر نہیں بن سکی۔
1853 میں قلعہ کہنہ قاسم باغ کی کھدائی کے دوران سر الیگزینڈر کننگہم کو 900 میں بنائی گئیں ملتان کی روغنی ٹائلیں ملیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ٹائلیں محمد بن قاسم کی ملتان آمد کے بعد بنائی گئی مسجد میں استعمال کی گئی تھیں۔


آج ملتان سمیت سندھ پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ نیلا رنگ ٹائل اور پتھر کی صورت میں ہمیں ملتا ہے جن میں اُچ شریف کے مقبرے، نواب آف بہاولپور کا آبائی قبرستان، درگاہ سچل سرمست، مزار شاہ عبدالطیف بھٹائی، سندھ میں تالپوروں کے مقبرے، لاہور میوزیم، ہولی چرچ بنوں، دربار بابا فرید الدین پاکپتن، اور مختلف امراء کی حویلیاں اور بنگلے شامل ہیں۔

قطر کی مشہور لال اور نیلی مسجدوں میں بھی ملتانی کاشی کاری کی گئی ہے۔ جبکہ ملتان کی اس صنعت کو وزیر اعظم ہاؤس، ایوانِ صدر، بیرونِ ملک پاکستان کے سفارت خانوں، پاکستان کی مشہور چہار و پنج ستارہ ہوٹلوں اور برٹش میوزیم لندن میں بھی نمائش کے لیئے رکھا گیا ہے۔
اب آتے ہیں اس کی تیاری کے مراحل پر۔ یہ برتن ہم تک مختلف مراحل طے کر کہ پہنچتے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے۔


1- مٹی کی تیاری ؛
ظروف سازی کے لیئے بنیادی عنصر مٹی ہے جو اکثر دریاؤں اور بڑی نہروں کے تل سے حاصل کی جاتی تھی لیکن دریاؤں کی آلودگی کی وجہ سے ملتانی مٹی زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مانسہرہ، گجرات، تھرپارکر اور پشاور کی خاص مٹی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس مٹی کو خام مال جیسے کانچ کے ٹکڑوں اور گوند میں ملا کر اچھی طرح پیس لیا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ پاؤڈر کی شکل میں آ جاتی ہے۔

اس کے بعد اس میں پانی ڈال کر کچھ دنوں کے لیئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پانی جزب ہو جانے کے بعد اسکو آٹے کی طرح اچھی طرح گوندھا جاتا ہے۔
2- گوندھی ہوئی مٹی کو پھر پلاسٹر آف پیرس کے مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ سانچے مختلف ڈیزائنز اور مختلف سائز کے ہوتے ہیں جنہیں اگر احتیاط سے استعمال کیا جائے تو یہ لمبے عرصے تک چلتے ہیں۔ بڑے حجم کے برتنوں کو تین چار سانچوں میں ڈھال کر جوڑ دیا جاتا ہے۔

کم نرم ہونے کی وجہ سے اس مٹی کو چھاک ( برتن بنانے والا پہیہ ) پر ڈھالنا مشکل ہے تبھی یہ پہیہ ملتانی برتنوں میں بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔
3- مناسب مقدار میں گندھی ہوئی مٹی کو سانچے میں ڈال کر برابر کر دیا جاتا ہے۔ سانچے کو اچھی طرح ہلا کر گُندھی مٹی برابر کی جاتی ہے اور جب یہ ترتیب سے بیٹھ جاتی ہے تو سانچے میں راکھ ڈال کر اسے احتیاط سے دبایا جاتا ہے تاکہ مٹی سانچے کی شکل میں بیٹھ جائے۔

اس کے بعد باہر نکلی ہوئی مٹی کو چھری سے کاٹ کر سانچے کو کچھ دیر رکھ دیا جاتا ہے۔ اسے کھولنے کے بعد حاصل ہونے والے پراڈکٹ کو راکھ سمیت ایک دو دن سُوکھنے کے لیئے رکھ دیا جاتا ہے۔
4- سوکھنے کے بعد اس پراڈکٹ سے راکھ کو اچھی طرح جھاڑ لیا جاتا ہے۔ برتن پر جمی راکھ نفیس برش کی مدد سے صاف کی جاتی ہے اور اسکو ایک چھوٹے گھومنے والے تختے پر رکھ کر لوہے کی ایک چھری (پتی) سے اسکی ناہموار سطحوں اور سائیڈوں کی رگڑائی/کٹائی کی جاتی ہے۔

جس سے یہ برتن ہموار شکل میں آ جاتا ہے اور اسکی سائیڈوں پر لگی غیر ضروری مٹی صاف ہو جاتی ہے۔
5- رفڑائی کے بعد پراڈکٹ کو کئی چھوٹے موٹے مراحل سے گزارا جاتا ہے جس میں ریگ مال سے برتن کو صاف کرنا، اس کے اندر کی صفائی کرنا، مختلف طریقوں سے سطح کو ہموار کرنا،  کوئی داغ دھبہ اگر لگا ہو تو اسکو بھی صاف کرنا شامل ہے۔ پھر اس کو پیندے سے جوڑا جاتا ہے۔

بڑے گلدان اور برتن بغیر پیندے کے بنائے جاتے ہیں اور بننے کے بعد پیندا جوڑا  جاتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ اُسے سوکھنے کے لیئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
6- اب مرحلہ آتا ہے ڈیزائننگ کا۔ یہاں آرٹسٹ اپنی مہارت سے نِت نئے ڈیزائن ان برتنوں پر تخلیق کرتے ہیں اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ڈیزائن چھاپ لیا جائے۔ تمام پراڈکٹس ایک ایک کر کہ ہاتھ سے ڈیزائن کیئے جاتے ہیں جو ہمارے محنت کشوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ڈیزائئنگ میں سب سے پہلے کوبالٹ آکسائیڈ سے خاکہ بنایا جاتہ ہے۔ یہ وہ خاکہ ہے جو بھٹی میں تپ کر برتن کو اسکا اصل گہرا نیلا رنگ دیتا ہے۔ یہ خاکے مختلف سائز کے برش سے بنائے جاتے ہیں۔
7- اس کے بعد اُن ڈیزائنوں اور گل بوٹوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں۔ یہ رنگ زیادہ تر آکسائیڈز ہوتے ہیں جو عمدہ اور نفیس برش کی مدد سے بھرے جاتے ہیں۔ زیادہ تر پیلا، سبز، لال، نارنجی اور آسمانی رنگ استعمال کیئے جاتے ہیں۔

رنگائی کے بعد برتن کو سُوکھنے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
8- اب آتا ہے چمکائی/روغن لگانے کا مرحلہ۔ جب برتن اچھی طرح سوکھ جاتا ہے تو اس پر روغن کیا جاتا ہے۔ مختلف خام مال کو مختلف تناسب سے ملا کر ایک خاص روغن بنایا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ تر شیشے کا پاؤڈر، زِنک آکسائیڈ، پوٹاشیم نائٹریٹ، سُہاگہ اور سُہاگے کا تیزاب شامل ہیں۔ جن کو گرم کر کہ سکھایا جاتا ہے اور اس میں میدہ اور پانی شامِل کر کہ روغن تیار کیا جاتا ہے۔


9- روغن شُدہ برتن لوہے کی بڑی ٹرالی میں رکھ کر بھٹی میں ڈال دیئے جاتے ہیں جس کا درجہ حرارت 850-800 ڈگڑی سیلسیئس تک رکھا جاتا ہے۔ یہ برتن ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھے جاتے ہیں کیونکہ اگر یہ ایک دوسرے سے چپک جائیں تو مکمل کالے ہو جاتے ہیں۔ بھٹی کو اوپر سے بند کر دیا جاتا ہے پھر لکڑی اور چارکول کی مدد سے نیچے آگ جلائی جاتی ہے۔

یہ مرحلہ 4 سے 5 گھنٹے لے لیتا ہے۔ جس کے بعد بھٹی کو بتدریج ٹھنڈا کرنے کے لیئے دو تین دن چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ٹھنڈا ہونے پر اسے کھول کر تمام برتن نکال کر چیک کیئے جاتے ہیں۔ ٹوٹے اور جُڑے ہوئے برتنوں کو نکال کر ایک رجسٹر میں درج کر لیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی کو صاف کر کہ پیک کر دیا جاتا ہے اور آرڈر دینے والے تک بحفاظت پہنچا دیا جاتا ہے۔
اس وقت ملتان میں مختلف چھوٹے بڑے ادارے بلیو پاٹری کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن میں سرِ فہرست ''انسٹیٹیوٹ آف بلو پوٹری ڈیولپمنٹ ملتان'' ہے جو حکومتِ پنجاب کے ما تحت خوش اصلوبی سے چلایا جا رہا ہے۔

جہاں نہ صرف آپ اپنے گھر کے لیئے خوبصورت ملتانی برتن و گلدان خرید سکتے ہیں بلکہ ان برتنوں کو بنتا ہوا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ادارہ تین سے چھ ماہ کے کورس بھی کرواتا ہے۔
 اس کے علاوہ استاد عالم کا پوٹری انسٹیٹیوٹ بھی بہت مشہور ہے۔ پرائیڈ آف پرفامینس اور یونیسکو پرائز کے حامل مرحوم اُستاد عالم، مرحوم استاد  اللہ وسایا کے شاگرد تھے جو پوٹری کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام تھے( ان کے علاوہ میاں رحیم بخش اور استاد اللہ ڈیوایا بھی اس زمانے کے بہترین کاشیگروں میں سے تھے)۔

انہوں نے اپنی زندگی میں پانچ سو سے زیادہ شاگردوں کو یہ ہنر سکھایا تھا۔ اب ان کا یہ ادارہ انکے جانشین چلا رہے ہیں۔
اگرچہ یہ ادارے ملتانی کاشی گری کی صنعت کو اور اوپر لے جا رہے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں قائم ان بڑے ، متحرک اور بین الاقوامی سطح پر مشہور اداروں کی موجودگی میں ملتان کے چھوٹے چھوٹے کاشی گر اپنی روزی کے حوالے سے بہت پریشان ہیں۔

وہ تنِ تنہا ان اداروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کے مطابق یہ ادارے فن سکھانے سے زیادہ اس صنعت کو کمرشل بنیادوں پر چلا کر ان کی روزی پر لات مار رہے ہیں جس سے ان کے گھروں کے چولہے جلائے نہیں جلتے۔ ملتان کی گلیوں میں کاشی گری کی صنعت ایک ٹمٹماتے ہوئے چراغِ سحری کی طرح بجھنے کو ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ چھوٹے موٹے لیکن باصلاحیت اور ہُنرمند کاریگر مایوس ہو کر اپنے پیشے کو خیر باد کہہ دیں حکومتِ پنجاب اور وفاقی حکومت دونوں کو اس بات کا نوٹس لے کر اس ضمن میں بروقت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ملتانی کاشی گری کی اس قدیم صنعت کو ملتان ہی میں مرنے سے بچایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

multani kashi giri is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.