میانمار میں خونی جھڑپوں سے امریکہ خائف

مارشل لاء کیخلاف ہونے والے مظاہروں پر تشدد لمحہ فکریہ سے کم نہیں

ہفتہ 13 مارچ 2021

Myanmar Main Khoni Jharpoon Se America Khaef
رمضان اصغر
میانمار نے 1948ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔اس کا زیادہ تر عرصہ اس نے فوجی حکومت کے تحت گزارا ہے۔2010ء کے بعد سے پابندیوں میں نرمی کی گئی جس سے 2015ء میں آزادانہ انتخابات ہوئے اور اگلے سال تجزبہ کار اپوزیشن رہنما آنگ سان سوچی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی۔اقتدار سے محروم آنگ سان سوچی کی تاریخ بھی بہت عجیب ہے،وہ خود بھی ایک فوجی جنرل اونگ سان کی بیٹی ہیں جنہوں نے ماضی میں میانمار کو برطانوی تسلط سے آزاد کرانے کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن پھر وقت کا پہیہ پلٹا اور 1988ء میں فوجی جرنیل کی بیٹی نے اپنی سیاسی جماعت ’نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘کی بنیاد رکھ کر اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔

(جاری ہے)

1990ء کے انتخابات میں سوچی کی پارٹی نے بھاری اکثریت تو حاصل کر لی مگر فوج نے انہیں اقتدار منتقل کرنے کے بجائے گھر میں نظر بند کر دیا اور اس دوران انہیں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔پھر 2016ء میں سوچی کی پارٹی کامیاب ہوئی مگر فوج کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ بھی کرنا پڑا کیونکہ میانمار کا آئین کے مطابق فوج کو اقتدار میں 25 فیصد حصہ ملتا ہے اور وزارت دفاع و داخلہ جیسی اہم وزارتیں بھی فوج کے لئے مختص ہیں۔

پھر ایسی افواہیں سامنے آنے لگیں کہ سوچی آئین تبدیل کرکے فوج کو اقتدار سے الگ کرنا چاہتی ہیں جو کہ اس بغاوت کی اہم وجہ ثابت ہوئی۔
میانمار میں فوجی حکومت کیخلاف عوامی مظاہرے دن بہ دن زور پکڑتے جا رہے ہیں،جس میں اب تک درجنوں افراد کے ہلاک ہو چکے ہیں۔میانمار میں ہونے والے مظاہروں کی روک تھام کیلئے تعینات پولیس افسران کی بڑی تعداد مظاہرہ کرنے والوں پر تشدد کرنے کے احکامات کو مسترد کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہنگاموں میں اب تک پچاس سے زائد افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔مظاہرین کے اجتماعات پر کئی بار فائرنگ کی گئی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 600 سے زائد پولیس افسران فوجی زیر قیادت حکومت کو غیر فعال بنانے کی کوشش میں شہری نافرمانی کی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف سینکڑوں افراد ملک بھر میں مظاہرے کر رہے ہیں۔

مظاہرین فوج کی حکمرانی کے خاتمے اور بغاوت کے دوران معزول اور نظر بند کیے جانے والے آنگ سان سوچی سمیت ملک کے منتخب حکومتی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ایک مقامی صحافی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ مبینہ طور پر میانمار کے علاقے مونوا میں ایک مظاہرے کے دوران چھ افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا جبکہ کم از کم 30 افراد زخمی ہیں۔


احتجاج کرنے والے ایک شخص نے روئٹرز کو بتایا:”انھوں نے واٹر کینن سے ہم پر پانی نہیں پھینکا،منتشر ہونے کی کوئی وارننگ جاری نہیں کی،انھوں نے بس اپنی بندوقیں چلائیں۔ ویڈیو اسٹریمنگ سائٹ یوٹیوب نے میانمار کی فوج کے زیر انتظام چلنے والے چینلز کو بند کر دیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یوٹیوب کی جانب سے میانمار کی فوج کے 5 چینلز کو بند کیا گیا ہے جس کی یوٹیوب نے خود تصدیق کی ہے۔

یوٹیوب کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی کمیونٹی گائیڈ لائنز کے تحت ان چینلز کو فوری طور پر ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے۔ دوسری جانب ایک بھارتی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ میانمار پولیس افسران کے ایک گروپ نے اعلیٰ حکام کے احکامات نہ ماننے پر سرحد پار کرکے پناہ لینے کی بھی کوشش کی ہے۔علاوہ ازیں اقوام متحدہ میں میانمار کے نائب سفیر نے بطور سفیر چارج لینے سے انکار کر دیا ہے،اس سے قبل میانمار کے سفیر کو فوجی قیادت کے خلاف بولنے پر برطرف کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے جاری احتجاج میں اب تک سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں 55 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس کی عالمی طاقتوں نے بھی شدید مذمت کی ہے۔یکم فروری کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا اور کئی رہنماؤں کو گرفتار کر رکھا ہے جس کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریک جاری ہے۔


فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر موجود عوام فوری طور پر فوجی حکمرانی کا خاتمہ اور آنگ سان سوچی سمیت گرفتار رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یکم فروری کی صبح جب سورج کی کرنوں نے میانمار کی زمین پر روشنی بکھیری تو وہاں بسنے والے لوگ اس دن کی تاریکی سے واقف نہیں تھے،طاقت کے ایوانوں میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ برسراقتدار جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔

پھر وہ وقت آیا جب میانمار کی فوجی قیادت نے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنا کر آنگ سان سوچی سمیت دیگر پارٹی قیادت کو گرفتار کر لیا۔اقتدار پر قابض فوجی سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے ایک سال کے اندر ملک میں نئے الیکشن کروانے اور کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کا اعلان کیا اور ملک میں اتحاد و تنظیم کی ضرورت کے گھسے پٹے فوجی نعروں کے ساتھ اپنی تقریر ختم کی۔

پھر فوجی بغاوت کے خلاف عوام کا ردعمل سامنے آیا جس کے نتیجے میں اب تک درجنوں لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔
میانمار کی حالیہ فوجی بغاوت کو امریکہ کی جانب سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔امریکی صدر نے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں فوجی بغاوت میں ملوث جرنیلوں پر ویزے کی پابندی عائد کر دی اور اب یہ فوجی جنرلز امریکہ میں اپنے ایک ارب ڈالر سے زائد کے اثاثوں سے محروم ہو گئے ہیں۔

آنگ سان سوچی کو مسلم دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے میانمار کی سرزمین روہنگیا مسلمانوں پر تنگ کی اور دنیا نے مسلمانوں پر ظلم کے دلخراش مناظر دیکھے۔میانمار میں فوجی بربریت کے نتیجے میں 8 لاکھ مسلمانوں کو انتہائی مشکل حالات میں بنگلہ دیش ہجرت کرنا پڑی۔اس سے سوچی کی عالمی شہرت متاثر ہوئی اور ان سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑا۔

برطانیہ اور کینیڈا نے میانمار کے فوجی جرنیلوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے کے الزامات لگاتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کر دیں۔ برطانیہ اور کینیڈا نے بھی میانمار میں حالیہ فوجی بغاوت کے ذریعہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے میں ملوث فوجی جرنیلوں کے اثاثے منجمد کر دیے اور ان پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔اس دوران میانمار میں حالیہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

مظاہرین میں سرکاری ریلوے کے ملازمین بھی شامل ہو گئے ہیں۔ برطانیہ نے کہا کہ وہ میانمار کے تین فوجی جرنیلوں کے اثاثے منجمد اور ان پر سفری پابندیاں عائد کر رہا ہے جبکہ کینیڈا نے نو فوجی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برطانیہ نے جن تین جرنیلوں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے ان میں میانمار کے وزیر دفاع میاٹن او،وزیر داخلہ سوئے ٹٹ اور ان کے نائب تھان لینگ شامل ہیں۔

کینیڈا نے میانمار کے وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے علاوہ سات دیگر عہدیداروں کے اثاثے منجمد کر دیے اور ان کے ساتھ کسی طرح کے مالی لین دین پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا ہم اپنے بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر میانمار کی فوج کو انسانی حقوق کی پامالیوں کا ازالہ اور عوام کے لئے انصاف کے حصول کا تقاضہ کریں گے۔

برطانیہ میں فوجی جنٹا کے رہنما من آنگ ھلاینگ پر پہلے ہی پابندیاں عائد تھیں۔برطانیہ نے ان پر روہنگیا مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتی گروہوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام عائد کیا تھا۔کینیڈا کے وزیر خارجہ مارک گارنیوٴ نے کہا اوٹاوا کا یہ قدم میانمار میں فوج کی جانب سے جمہوری حقوق کی توہین کے خلاف متحدہ کارروائی کا حصہ ہے۔

میانمار کی حکومت نے برطانیہ اور کینیڈا کی طرف سے عائد پابندیوں پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جاپان،بھارت، امریکہ اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ گروپ نے میانمار میں جمہوریت کو جلد از جلد بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔جاپانی وزیر خارجہ توشی منشو موتیگی نے کہا کہ کواڈ گروپ میانمار کی صورت حال کو طاقت کے ذریعہ تبدیل کرنے کی یک طرفہ کوشش کی سخت مذمت کرتا ہے۔

جاپانی وزیر خارجہ نے کہا کہ کواڈ کی ایک ورچوئل میٹنگ کے دوران رکن ممالک اس بات پر متفق تھے کہ میانمار میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کو جلد از جلد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔میانمار کی فوج نے حکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ایک سال کے لئے ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا ہے۔فوج ایک سال بعد پارلیمانی انتخابات کروانے کا اعادہ کر چکی ہے۔فوج نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے اور اس نے افتتاحی اجلاس کے انعقاد کے بجائے آنگ سان سوچی کی حکومت کو دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تھا۔

انتخابات میں خاتون رہنما کی سیاسی جماعت کو واضح کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
تجزیہ کاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ 1948ء سے شروع ہونے والی فوجی بغاوتوں اور حکومتی عمل میں موجودگی کی وجہ سے میانمار میں فوج کو اقتدار کا ایک انتہائی طاقتور عنصر قرار دیا جاتا ہے اور کے اثرات بدستور دیکھے جا سکتے ہیں۔اس ادارے نے برسوں کئی اقسام کے چیلنجز کا سامنا کیا۔

اس میں وسیع پیمانے پر عائد کی جانے والی بین الاقوامی پابندیاں بھی شامل تھیں لیکن ان کا فوجی جرنیلوں نے کوئی اثر نہیں لیا تھا۔ میانمار کی آزادی کے ہیرو آنگ سان قرار دیے جاتے ہیں ،جو جاپانی استعماریت کے حامی تھے لیکن بعد میں اتحادی قوتوں کے حامی بن گئے تھے۔وہ بھی فوج کے ادارے کو ناگزیر خیال کیا کرتے تھے۔آنگ سان کو 1948ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔

فوج کا نصب العین آج بھی مستعمل ہے۔جنرل نی ون نے سن 1962ء میں پہلی مرتبہ حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔انہوں نے برمی سوشلزم کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جو انجام کار ناکامی سے دوچار ہو جائیں لیکن جنرل نی ون یقینی طور پر ملکی سیاسی نظام تبدیل کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے تھے۔ان کا متعارف کیا ہوا نظام بدستور ملک پر نافذ ہے۔

1988ء میں قائم ہونے والی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی میں آنگ سان سوچی کے علاوہ تمام اراکین ریٹائرڈ فوجی افسران تھے۔سیاسی حکومت کی بحالی کے بعد سوچی کی نگرانی میں قائم حکومت نے 2017ء میں ایک قانون منظور کیا تھا اور اس کے تحت فوج کے افسران کی سول عہدوں پر تعیناتی کو محدود کر دیا گیا۔وہ شخص جس نے میانمار کے جمہوری تجربے کا تختہ الٹ کر دنیا کو دنگ کر دیا تھا،وہ اب تک صرف دو مرتبہ اپنی وضاحت کے لئے سرکاری ٹیلی ویژن پر عوام کے سامنے آئے ہیں۔

ٹیلی پرامٹر کے سامنے گھبرائے ہوئے سے نظر آنے والے جنرل من آنگ ہلینگ نے اپنی تقریر میں فوجی بغاوت، ملک کی منتخب سیاسی قیادت کو حراست میں رکھنے،ملک کے طول و عرض میں ہر شعبے زندگی کی جانب سے فوجی حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں،عالمی برادری کی جانب سے مذمتی بیانات اور ملک پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے خطرات کے متعلق کوئی بات نہیں تھی۔منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر عوامی غم و غصہ کو کم کرنے کی کوشش میں ناتجربہ کاری کے باعث ان کی واضح بے چینی کے علاوہ،من آنگ ہلینگ نے اس خطرناک بحران کے متعلق بھی کوئی آگاہی نہیں دی جس میں انھوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے اپنے ملک کو گھسیٹا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Myanmar Main Khoni Jharpoon Se America Khaef is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 March 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.