”واحد قومی نصاب-خدشات اور توقعات “

شوریٰ ہمدر دکے اجلاس سے ماہرینِ تعلیم کا خطاب

بدھ 23 ستمبر 2020

Wahid Qoumi Nisab
سید علی بخاری
کسی بھی ملک کی ترقی کا راز تعلیم و شعوری ہم آہنگی پر مشتمل ہوتا ہے اگر نظام تعلیم ہی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو جائے تو اس کے سنگین اثرات پوری قوم پر مرتب ہوتے ہیں اورملک وقوم مختلف طبقات میں تقسیم در تقسیم ہو جاتی ہے، ترقی پذیر ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں مختلف نظام تعلیم چل رہے ہیں۔

ذمہ اران نے بھی کبھی واحد قومی نصاب و نظامِ تعلیم پر مخلصانہ توجہ نہ دی جسکی وجہ سے سرکاری اور غیرسرکاری تعلیمی اداروں میں یکساں نظامِ تعلیم رائج نہ ہو پایا۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی ایک (واحد)نظام تعلیم کے بغیر ممکن نظر نہیں آتی،ریاستی سطح پر معیار تعلیم بہتر ،امتحانی نظام اور بورڈ کے معاملات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنایا جائے اورایسا نصاب تشکیل دیا جائے جسمیں امیر وغریب دونوں کو ایک جیسی تعلیم میسر ہو،نظام تعلیم کو تقسیم کرنے والی اردومیڈیم ، انگلش میڈیم اوراے لیول ،او لیول کی سوچ کو ختم کیا جائے ،یکساں نظام تعلیم کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ یکساں تعلیمی نظام کو رول ماڈل کے طور پر اپنایا جائے،تعلیمی اداروں میں علمی تربیت یافتہ اساتذہ کرام کا انتخاب کیا جائے اور انہیں تعلیم و تربیت تک محدود کرتے ہوئے انکی تعداد کو بھی پورا کیا جائے ،حکومتی سطح پر اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ بچوں کو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک معزز اور مفید شہری بنانا ہے لہذا ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جس سے نونہالان اپنے دین ،ثقافت اورتاریخ سے آشنا ہو سکیں ۔

(جاری ہے)

گذشہ دنوں شوریٰ ہمدرد کا اجلاس ”واحد قومی نصاب -خدشات اور خطرات“ کے موضوع پر ہمدرد مرکز لاہورمیں ہوا۔ اجلاس میں صدر تنظیم اساتذہ پاکستان پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم،صدر ٹیکسٹ بک پبلیشرزایسوسی ایشن محترم فواد نثار،صدر آل پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ محترم کاشف ادیب جاویدانی،صدر پاکستان قوی زبان تحریک محترم جمیل بھٹی،محترم بشریٰ رحمن ، جسٹس (ر)سخی حسین بخاری،برگیڈیئر(ر)ریاض طور،برگیڈیئر(ر)اشفاق احمد،میجر (ر)خالد نصر،پروفیسر خالد محمود عطاء،محترمہ خالدہ جمیل چوہدری ،محترم شعیب مرزا،محترم شاہد نذیر چوہدری،ماہر قانون رانا امیر احمد خاں،پروفیسر نصیر اے چوہدری،محترم طفیل اختر،پروفیسر ایس اے صدیقی،محترم ممتاز شفیع،محترم منشاء قاضی، محترمہ شائستہ ایس حسن ودیگر شامل تھے۔

کورونا کے سبب -پانچ ماہ کے بعد ہونے والے اجلاس میں دانشور ،ماہر تعلیم اور مبصرین کے ساتھ ساتھ طلباء و طالبات کی ایک شریک ہوئے ۔اسپیکر شوریٰ ہمدرد نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ہم کسی صورت بھی انگریزی کو الزام نہیں دے رہے مگر اردو ہماری قومی زبان ہے جو ساری دنیا میں سنی جاتی یہ نصاب تعلیمی کو ترتیب دیتے وقت اسکو ہر سطح پر اہمیت دی جانی چاہیے،
ایسا کرنے سے تعلیم عام ہونے کا موقع بھی ملے گا ،انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت یکساں نظام میں تمام صوبائی نظاموں کو بعد از تحقیق و مشاورت شامل کیا جائے ۔

ڈاکٹر پروفیسر میاں محمد اکرم نے کہا کہ واحد قومی نصاب دراصل یکساں نظام تعلیم کا ہی ایک پہلو ہے ان دونوں نظاموں کا مطالبہ بھی ایک ہی ہے کہ اس ملک میں نظامِ تعلیم ایک ہونا چاہیے ،چاہے طالب علم کسی بھی طبقے کا ہو ،پوری قوم ایک ہی نظام تعلیم سے گزرے جہاں نصاب وکتاب بھی ایک ہو ،ذریعہ تعلیم ،سہولیات تعلیم اور جائزہ (Assessment)کے ذرائع بھی ایک ہوں ،اگر یہ چیزکسی قوم کے اندر موجود ہے تو آپ ایک قوم تیار کر سکتے ہیں ،اشرافیہ اور غریب والی تفریق /سوچ اور نظام کی نفی کرنا ہو گی ،انگلش میڈیم اردو میڈیم کے فرق کو ختم کرنا ہوگا،مدرسے کے طالب علم کو بھی جدید تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں ،فرقہ وارت-لسانیت-برادری -ذات اور علاقے کے تعصبی خانہ بنا کر جو ہم نے قوم کو الگ کیا ہوا ہے اسکو ختم کیا جائے ۔

نصابِ و نظامِ تعلیم کر ہر پہلو سے قرآن و حدیث کو سامنے رکھنا چاہیے ۔انہوں ے مزید کہا کہ دفعہ 31-Aکے تحت پوری قوم کو ایسی دینی تعلیم دینا ہو گی جس کے ذریعے وہ اسلام کی تعلیمات سے اچھی طرح روشناس ہو سکیں ،اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے دو طریقے اپنانا ہوں گے ایک اسلام اور دوسراا ردوزبان کا نفاذ۔جناب پروفیسر صاحب نے بتایاکہ تمام تر مشاورتوں اور تجاویز کے بعد موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ نومبر 2020ءء تک نصاب تیار کر لیا جائے گا ،مارچ 2021ءء تک پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک نصاب کو نافذ العمل کر دیا جائے گا ،اسکے بعد چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک نصاب تیار کیا جائے گا ،2022ءء تک نافذ کر دیا جائے گا ،اسکے بعد 2022ءء تک نافذ کر دیا جائے گا ،اسکے بعد نویں جماعت سے لے کر بارویں جماعت تک کا نصاب تیارروایا جائے گا جو 2023ءء میں نافذ العمل کیا جائے گا،محترم پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ نصاب میں چار اہم عناصر ہوتے ہیں ،مقاصد،نفس مضمون،طریق تدریسی اور جائزہ جبکہ تین بنیادیں ہوتی ہیں فلسفہ حیات ،معاشرتی بنیاداورنفسیات ۔

اٹھارویں ترمیم سے قبل نظام تعلیم مرکز کے پاس ہوتا تھا ،لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد تمام تر ذمہ داریاں صوبوں کو سونپ دیں گئیں ،اٹھارویں ترمیم کے عمل سے نظام تعلیم مزید تقسیم کا شکار ہو گیا،اُس وقت 2010ءء میں شوریٰ ہمدرد وہ واحد تھنکر فارم تھا جس نے اس سے متعلق پہلا پروگرام کیا اور ان خدشات سے بھی آگاہ کیا ، انہوں نے کہا کہ انسانیت اور انفرادیت دونوں ہی اسلام میں سموئے ہوئے ہیں ،پس مسلمان کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنا ہے انہوں نے بتایا کہ ہم نے واحد قومی نصاب کی کمیٹی کے سامنے سوال اُٹھایا کہ اسلامی فلسفہ حیات اس نظام کی بنیاد کیوں نہیں بن سکتا دستور پاکستان کہتا ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں پاکستان کی تربیت کرنی ہے جبکہ دوسری طرف Humanismکی بات کی جا رہی ہے ۔


انہوں نے مزید بتایا کہ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ واحد قومی نصاب بنانے کیلئے برطانیہ اور امریکہ کے اداروں کو شامل کیا گیا ہے ،کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسا ادارہ یا ماہرین نہیں جو اس نظام کو مرتب کر سکیں ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حال ہی میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ذمہ دارنے پانچ سو کتابوں کا جائزہ لیا جن میں سے سو عدد کتب میں پاکستان کا نقشہ غلط بنا ہوا تھا جبکہ قرآنی آیات بھی تحریف شدہ تھیں ۔

اب ہمیں خدشات ہیں کہ کہیں یہ ادارے پاکستان کی اسلامی شناخت کو مسخ نہ کردیں۔انہوں نے مزید کہا کہ واحد قومی نصاب میں توحید ،رسالت ﷺاور آخرت جیسے اسلامی اُصولوں کو لازمی شامل کیا جائے جس سے بڑھتے ہوئے جرائم ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔صدر ٹیکسٹ بک پبلیشرزایسوسی ایشن محترم فواد نثار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ Single National Curriculm سے متعلق پرویز مشرف نے 2006ءء میں کام شروع کیا لہذا ہمیں آج بھی اس واحد قومی نصاب کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ یہ رائج ہونا چاہیے،انہوں نے مزید کہا کہ ہم پبلشرز بھی مسلمان ہیں اورہم اسلام کے خلاف کو منفی قدم اٹھنے نہیں دیں گے اور نہ ہی اس کی اشاعت سے متعلق سوچ سکتے ہیں اور اُردو زبان کے فروغ کے حوالے سے بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

صدر آل پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ محترم کاشف ادیب جاویدانی نے کہا کہ اس ملک میں کم و بیش سوا دو لاکھ پرائیویٹ اسکولز ایسے ہیں جن کی فیس چار سے ہزار سے کم ہے ،ان میں واحد قومی نصا ب کے رائج کرنے کے سلسلے میں ایک مثبت لائحہ عمل پیش کرنا ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ یکساں نظام تعلیم اور واحد قومی نصاب کے عمل کے پیچھے کن محرکات کا ہاتھ ہے اسکو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا،اساتذہ کی ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے انکو صرف تعلیم و تربیت کے حوالے سے مخصوص کر دیا جائے اور دیگر مردم شماری جیسے کاموں کے لیے نئی بھرتیاں کیں جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مدارس کے حوالے سے تمام مسالک اور مکاتب فکر کا مشترکہ نصاب تیار کیا جائے گو کہ یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن کوشش کی جائے جبکہ غیر مسلم مذاہب کے لیے اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی مناسب نصاب تشکیل دیا جائے تو واحد قومی نصاب میں بآسانی شامل ہو سکے ۔انہوں نے مزید کہاکہ پبلشرز کے مسائل ہیں انکا بھی Check & Balanceرکھا جائے اور اگر انڈیا میں اے او لیول ختم کیا جا سکتا ہے تو ہمارے ملک میں کیوں نہیں یہ نظام ختم ہو سکتا۔

صدر پاکستان قوی زبان تحریک محترم جمیل بھٹی نے کہا کہ واحد قومی نصاب اردو میں نہ ہوا تو اسکا مقصد فوت ہو جائے گا ، اگر ہم قوم کو ایک دھارے میں پیرونا چاہتے ہیں تونفاذِاردو قومی ،مذہبی اور معاشرتی نقطہ نگاہ سے بہت اہم ہے ۔انہوں نے کہا کہ نفاذ اردو کے تحت عوام اور بیورو کریسی میں رابطے آسان ہونگے اوریوں یہ فاصلہ بھی کم ہو گا، اسی طرح اردو رابطے کی زبان تشکیل پانے سے عام تعلیمی علمی بڑھو تری اوردین کیطرف رغبت میں اضافہ کی اُمید ہے مزید یہ کہ قومی یکجہتی اور اور قومی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

اجلاس میں تین نئے ممبران کا باضابطہ اعلان کیا گیا جن میں جسٹس(ر)سخی حسین بخاری،برگیڈیئر(ر)ریاض طور اور شاہد نذیر چوہدری شامل ہیں ،محترمہ اسپیکر صاحبہ تینوں کا اعلان کر کے خوش آمدید کہا۔علاوہ اس کے محترم قیوم نظامی صاحب کے بعد دوسرے ڈپٹی اسپیکر کیلئے جناب عمر ظہیر میر صاحب کا نام زیر غور آیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wahid Qoumi Nisab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 September 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.