مشرف کے ہا تھوں جمہو ریت کی بساط لپیٹے جا نے کے بعد بڑے شد و مد سے ہمارے سیاست داں کہتے پا ئے گئے ، اب ذاتیات کی سیاست سے توبہ ہی بھلی ، سیاست کے نباض بھی اس امر پر متفق ٹھہرے کہ اگر ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر خوش حالی کی راہ پر ڈالنا مقصود ہے پھر اہل سیاست کو انا اور ایک دوسرے کو فنا کر نے کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن کر نی ہو گی ، 70ء کی دہا ئی سے لے کرنو ے کی دہا ئی تک وطن عزیز میں سیا سی انتقام کا دور دورہ رہا ، سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کے لیے وہ ہنر آزما ئے کہ بیاں سے باہر ہے ، بھینس چو ری ، بکری چوری اور پانی چوری مقدمات اسی دور کی سیاست کی ” تابندہ مثالیں “ ہیں ،نو ے کی دہا ئی میں ن لیگ اور پی پی پی میں ذاتیات کی سیاست بام عروج پر رہی ، سیاست دانوں کی آپس کی انہی ریشہ دوانیوں نے ہمیشہ جمہو ریت کاڈھر ن تختہ کیا ، ننانوے میں دونوں جما عتوں کی پیدا کر دہ سیاسی ابتری کے نتیجہ میں ن لیگ کو اقتدار سے نہ صرف ہا تھ دھو نا پڑے بلکہ بعد میں ن لیگی قیادت کو آزمائشوں کی چھلنی سے بھی گزرنا پڑ ا، بہت سو ں کے خیال میں مشرف حکو مت سے سیاسی جماعتوں نے بہت کچھ سیکھا ، سیاست پر عقا بی نظر رکھنے والوں کے خیال میں اب پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاست داں ” تکلف “ والی سیاست کا دامن ہا تھ سے جا نے نہیں دیں گے مگر اقتدار کی خواہش بھی کیا بری بلا ہے ، زمام اقتدار جیسے ہی سیاست دانوں کے ہا تھوں میں آیا ، کو چہ سیاست میں پھر سے اخلاق باختہ سیاست کا چلن عام ہو ا، پی پی پی اور ن لیگ کے دور اقتدار میں متذکرہ دونوں جماعتوں کے رہبر ایک دوسرے کے کپڑ ے حسب سابق دھو تے رہے ، اس کا ر خیر میں 2013ء سے تحریک انصاف بھی شامل ہو ئی ، 2013ء سے 2018ء تحریک انصاف کی قیادت نے پی پی پی اور ن لیگ کو خوب آڑے ہا تھوں لیا ، جناب عمران خان سے لے کر تحریک انصاف کے کا رکنوں تک سبھی نے ن لیگ اور پی پی پی کو ناکو ں چنے چبوائے ، اصولوں کی داعی تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد کہا اور سنا یہ جا رہا تھا کہ اب ذاتیات کی سیاست کا خاتمہ ہو جا ئے گا لیکن ذاتیات کی سیاست کا در اب بھی کھلا ہے اور خوب کھلا ہے ، قوم کن سے سیکھتی ، اپنے حکمران قبیلے سے بہت سے اقدار سیکھا کر تی ہے ، خود ملا حظہ کیجئے اس وقت پا کستانی سیاست میں ہو کیا رہا ہے ، قوم کو اخلاقیات اور سیاسی بر داشت کا درس دینے والے سیاست داں اور سیاسی جماعتیں صبح و شام ایک دوسرے سے دو دو ہا تھ کر نے میں مصروف ہیں ، اسی سیاسی کشا کش کے دوران بزرگ عر فان صدیقی کو بھی نہیں بخشا گیا ، کرایہ داری قانون کے آڑ میں قبلہ عر فان صدیقی کے ساتھ جو سلو ک کیا گیا ، تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اسے حب نوازشر یف سے جو ڑ رہے ہیں ، عرفان صدیقی کا معاملہ اس حد تک نازک ہوا کہ خود تحریک انصاف کے وزراء کے پاس کہنے سننے کے لیے کچھ نہ تھا ، معاملہ صرف تحریک انصاف کی حد تک ہی محدود نہیں ، جمہو ریت کی ماں اور جمہو ری اقدار کی سر خیل پی پی پی کا رویہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کے باب میں کچھ ایسا ہی ” تیکھا “ ہے ، پڑھے لکھے اور خوب صورت گفتگو کر نے کے ہنر سے آشنا سعید غنی کے دفتر کے قرب و جوار میں مظاہرے کر نے والوں پر جس طر ح سے سندھ پو لیس ٹو ٹی اور تو اور تحریک انصاف کے ایم این اے عالمگیر خان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ، کیا اسے سیاسی آداب کے عین مطابق قرا ر دیا جاسکتا ہے ، سیاسی جماعتوں کے رہبروں کی آپس میں جاری ” سیاسی چشمک “کے کیا خوف ناک نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ، سیاسی رہنما ؤں کے دیکھا دیکھی سیاسی جماعتوں کے کا رکنوں میں بھی عدم برداشت کے رویے بڑی تیزی سے پر وان چڑ ھ رہے ہیں ، دانا فر ما گئے کہ سیاست کو سیاست ہی جانیے اسے دل کا روگ نہ بنا ئیے ، اب مگر معاملہ سیاست سے ذاتی عدواتوں کی جا نب جا رہا ہے ، سیاسی مخالفت اب ذاتی دشمنیوں میں بد لتی جا رہی ہے ، کتنے ہی گھر سیاست کے ہا تھوں بر باد ہو چکے ، کتنے ہی رشتہ دار وں میں دوریاں سیاست کے ہا تھوں پیدا ہو چکیں ، سیاست میں عدوات کے بیج بو نے کا سہرا کس کے سر جا تا ہے ، ہما رے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے سر ، یہ وطن ہے تو اسی کے صدقے سیاست بھی ہے اورزمام اقتدار بھی آپ کے ہا تھوں میں ہے ، وطن عزیز کی بقا اس میں ہے کہ ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ذاتیات اور انتقام کی سیاست ترک کر کے قومی سیاست کو پر وان چڑھا ئیں ، یاد رکھیے کہ دوسروں کے چراغ بجھا نے سے اپنا چراغ بھی روشن نہیں رہتا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔