بندر کہانی اور حکومتِ وقت‎

منگل 21 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ملک بھر میں آٹے کے شدید بحران کی بابت جب ایک صحافی نے صدرمملکت عارف علوی سوال کیا تو ماضیِ قریب میں کراچی کو بند کروانے والے فاتح کراچی موصوف نے جواب میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اس کا پتہ نہیں لیکن پتہ ہونا چاہیئے‘‘،جبکہ ابھی کچھ ہی روز قبل صدر صاحب نے اپنی قابلیت اور انتہائی مصروفیت قوم کو دکھانے کے لیئے ایک تصویر وائرل کروائی تھی جس میں وہ اپنے دفتر کی میز پر بوٹ کے بجائے سرکاری فائلوں کے انبار کے ساتھ بیٹھے قوم کو اپنی ذمہ داراریاں گنوا رہے تھے ، حیرت ہوئی کہ انہیں چند دنوں میں اتنے ذمہ دار حکمران کو آنے والے آٹے کے بدترین بحران کا علم کیوں کرنہ ہو سکا؟ ۔


محکمہِ زراعت راولپنڈی کے گیٹ نمبر چار سے نازل ہونے والے ایسے کٹھ پتلی حکمرانوں کے بارے میں ہی ایک بات مشہور ہے کہ ‘‘کوئی بھلا مانس کسی جنگل سے گاڑی میں گزرتے ہوئے جا رہا تھا کہ اچانک اس پر بندروں نے حملہ کر دیا اور اس کی گاڑی پر قبضہ کر کے اسے چلانے کے لیئے گاڑی کے چھت پر بیٹھ گئے ۔

(جاری ہے)

بندورں کے چیخنے چلانے پر بھی جب گاڑی نہیں چلی تو وہ تھک ہار کر لیکن گاڑی کا جنازہ اور ستیاناس نکال کر اور اسے چھوڑ کر دوبارہ چھلانگیں لگاتے ہوئے واپس درختوں پر چڑھ گئے ۔

ڈینٹل سرجن صدرِ مملکت اور ایک سابق کرکٹر نے اس ملک کے ساتھ مذکورہ گاڑی والا حشر کیا ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ۔
آٹے کے سنگین ترین بحران کے بارے میں لاعلم اس ملک کے صدر کی اگر یہ حالت ہو گی تو پھر دیگر حکومتی وزیروں اور مشیروں کا کیا حال ہو گا ۔ ہمیں توخدشہ یہ تھا کہ صدرِ محترم قوم کو آٹے کے بجائے بسکٹ اور ڈبل روٹی کھانے کا مشورہ دیں گے مگر وہ بھی اپنے وزیرِا عظم کی طرح ملک کو درپیش سنگین ترین مسائل سے لا علم نکلے ۔

لیکن خیر سے اس ملک کے وزیرِا عظم جن کی ساری توجہ صرف اور صرف عثمان بزدار کو ہی وزیرِا علی پنجاب رکھنے پر مرکوز ہے بھی تو وہ عظیم ہستی ہیں جنہیں بقول خود ان کے ان کی بیگم بتاتی رہی ہیں کہ آپ ہی ملکِ پاکستان کے وزیرِا عظم ہیں ۔ بڑھتے ڈالر کا ریٹ اور دیگر اہم قومی مسائل اور حکومتی معاملات بھی انہیں میڈیا کے زریعے پتہ چلتا ہے ۔ لگتا ہے اب باقی وزیروں کو بھی روزانہ بتانا پڑتا ہو گا کہ وہ ابھی بھی وزیر ہیں ۔


ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جب ٹماٹر تین سو روپے فی کلو فروخت ہو رہے تھے تو اس وقت وفاقی مشیر خزانہ ٹماٹر کو سولہ روپے کلو قرار دے کر ملکی مسائل سے اپنی لاعلمی خود ثابت کر رہے تھے ۔ گویا ایسا لگ رہا ہے کہ پوری حکومت کسی روحانی سفر پر روانہ ہے ۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ آج سینیٹر سراج الحق نے سینٹ میں بتایا کہ’’ ایک بزرگ آٹے کی لائن میں لگے رہے لیکن رش کے باعث آگے بڑھ کر آٹا نہ لے سکے تھک ہار کر جب گھر پہنچے تو انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور انتقال کر گئے آج ان کے بچے دھاڑیں مار کر رو رہے ہیں کہ ہمارا باپ ایک آٹا کے تھیلے کے لئے اس دنیا سے چلا گیا‘‘ ۔


حکومت کی بے حسی اور ڈھٹائی کا عام بھی دیکھئے کہ ایک وزیر بیان دیتا ہے کہ لوگ سردیوں میں زیادہ آٹا کھاتے ہیں ، دوسرابے شرم کہتا ہے کہ پٹواری زیادہ روٹیاں کھا کر عمران خان کی حکومت کو بدنام کر رہے ہیں ، تیسر قوم کو چاول کھانے کا مشورہ دیتا ہے اور کوئی ٹیوٹ کرتا ہے کہ ایک روٹی کھا لو ۔ واضع رہے کہ وہی بے شرم حکمران ہیں جنہیں لندن میں چائے پیتا نوازشریف نظر آ جاتا ہے لیکن آٹے کے لیے تین کلومیٹر لمبی لائن میں لگا غریب عوام نظر نہیں آتا ۔


اس ضمن میں حکومت یا حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ متعلقہ اداروں نے حکومت کو ریڈ الرٹ تک جاری کر دیا تھا کہ آٹے کا بد ترین بحران سر اٹھائے کھڑا ہے اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن چونکہ حکومت کے سرمایہ کاروں کی مال بنانے کی پلانگ پہلے سے طے تھی اس لیئے آنے والے آٹے کے بحران پر جان بوجھ کر کوئی توجہ نہ دی گئی ۔

لہذا اب اربوں روپے کی چار لاکھ ٹھ گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے اصل ڈکیتوں اور چوروں کے لیئے لمبا مال بنانے کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کے صدر عاصم رضا کا بیان بھی حکومتِ عمرانیہ کا بھیانک چہرہ بے نقاب کرنے کے کافی ہے کہ’’ گندم کا کوئی بحران نہیں آٹے کے بحران کے پیچھے پی ٹی آئی کے ایک وزیر ہیں جن کا یہی کاروبار ہے‘‘ لیکن اس ہوشربا بیان کا نوٹس کون لے گا جب چوروں کو پکڑنے والے خود ہی چوروں کے ساتھ ملے ہوں۔

عوام کی آہوں اور بدعاوں کے بعد اب جبکہ حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے عمران خان کو انگوٹھادکھانے کے بعد پہلے پنجاب اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی حکومت یعنی سلطنت شغلیہ کا صفایا ہو گا، تواس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلوں کو اب اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے کہ جس زیبرے پر سرمایہ کاری کی تھی وہ تو درِ حقیقت گدھا نکلا ہے جس نے انہیں بھی رسوا کیا ہے ۔
آخر میں عرض کر دوں کہ یاد رکھئے گا عنقریب جب ملک سے یہ منحوسیت کے بادل چھٹیں گے خود ہی دیکھئے گا ملک میں کسی قسم کاکوئی بحران نہیں رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :