پاکستانی شرلاک ہولمز اور احتساب کا ڈرامہ

بدھ 26 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

احتساب کے نام پر برپا کیا جانے والا ڈرامہ اب اپنے حتمی انجام کے جانب بڑھ رہا ہے ۔ خواجہ سعد رفیق اور نواز شریف کے چند قریبی ساتھیوں کے علاوہ اپوزیشن کے تمام لیڈران اور سیاسی عہدیدار یا تو ضمانتوں پر رہا ہو چکے ہیں یا پھر حکومت کی جانب سے قائم مقدمات میں برّی ہو چکے ہیں ۔ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ عدم ثبوتوں کے باعث اس وقت جیلوں میں موجود مذکورہ ’’ن‘‘ لیگی سیاسی قیادت بھی جلد رہا ہو گی، جن میں حمزہ شہباز اور خواجہ برادران بھی شامل ہیں ۔


موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سرِ فہرست ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا اور کرپشن میں ملوث عناصر کو سزائیں دلوانا تھا ۔ عمران خان نے وزیرِ اعظم کا حلف اٹھاتے ہی ملک میں کڑے احتساب کی شروعات کی اس ضمن میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں تیز تر احتساب اور لوٹی ہوئی دولت کو بیرونِ ملک کو واپس لانے کے لیئے اپنے ہی ایک چاہنے والے بیرسٹر شہزاد اکبر کو احتساب کا مشیر مقرر کر دیا ۔

(جاری ہے)

جنہیں اب پاکستانی شرلاک ہولمز کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ انہیں وزیرِ مملکت کا درجہ دیا گیا اور نیب و ایف آئی اے سے مشاورت کے نام پراپوزیشن کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی مقدمات بنوانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ۔ اس ضمن میں پاکستانی شرلاک ہولمز صاحب نے اپنے فراءضِ منصبی کو بھر پور احسن طریقے سے ادا کرنے کی حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کی ۔

سرکاری خرچے پرپے در پے بیرونِ ملک طوفانی دورے کیئے،برطانیہ اور امریکہ میں پرائیوٹ فرموں سے نواز شریف،آصف زرداری اور دوسرے اپوزیشن راہنماوں کی وہاں چھپائی کی دولت کو نکلوانے کی غرض سے بھاری معاوضوں پر خدمات حاصل کیں ، بعض برطانوی صحافیوں کے زریعے میڈیا ٹرائل کروایا،جھوٹے اسکنڈلز بنوائے اور پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی اپنی پریس کانفرنسوں میں بلند و بانگ دعوے کیئے کہ اپوزیشن کے فلاں فلاں لیڈر کی اتنے اربوں بلکہ کھربوں روپے کی جائیداد یا پیسہ فلانے بینک میں موجود ہے ۔


موصوف نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے چکر میں عدلیہ کے اعلی ججوں کی جاسوسی بھی کروائی ۔ ایف آئی اور نیب جیسے قومی اداروں کو اس ضمن میں ذاتی مقاصد کے لیئے بے دریغ استعمال کیا کہ کہیں سے کوئی ایسا سراغ مل سکے جس کی بنیاد پر اپوزیشن کے کامیاب احتساب کرنے کے کارنامے کا ڈھنڈھورا پیٹا جا سکے اور عوام کے سامنے اپنی فتح کا جشن منایا جا سکے ۔

یہ بات بھی زہن نشیں رہے کہ موصوف آج تک اس بات کی تردید بھی نہیں کر سکے کہ ان کے باس عمران خان اپنے اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کر سکے اور ان پاکستانی شرلاک ہولمز کے احتساب اور نیب پر پورپی یونین کی جانب سے اب سوالات بھی اٹھانے جانے لگے ہیں ۔ آج اٹھارہ ماہ گزرنے کے باوجود یہ پاکستانی شرلاک ہولمز اپنا حدف پانے میں بری طرح ناکام واقع ہوئے ہیں اور ان سے کوئی یہ پوچھنے ولا بھی نہیں کہ انہوں نے احتساب کے نام پر پبلک پراپرٹی کے جو کروڑوں روپے صرف کیئے ہیں اس کا کیا حساب کتاب ہے ۔

امیدِ قوی ہے کے آنے والی نئی حکومت اس حوالے سے اپنی پہلی ترجیح کے طور پر تحقیقات کرے گی اور ان صاحب سے پائی پائی وصول ہو گی ۔ اطلاعات کے مطابق حال ہی میں استعفی دینے والے عمران خان کے میڈیا مشیر افتخار درانی کے بعد اب اگلا وزیرِ قانون فروغ نسیم اور نمبر شہزاد اکبر کا ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ صاحبان بھی اپنے اپنے’’ احداف‘‘ کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام واقع ہوئے ہیں ۔


عمران خان چونکہ کئی ماہ تک اپنے اسپانسرڈ کنٹینر سے اپوزیشن کا احتساب کرنے اور انہیں جیلوں میں بھیجنے کا ارادہ ظاہر کرتے رہے اور اسی بنیاد پر دادِ تحسین بھی وصول کرتے رہے لہذا ان کے لیئے یہ نہایت ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اپنے ووٹرز کو وقتی طور پر ہی سہی خوش رکھنے کے لیئے اپنے مذکورہ ارادے کو عملی جامعہ پہناتے اور اپنے حق میں کچھ عرصہ مذید تالیاں بجواتے سو جنابِ عمران خان نے بغیر کسی ہوم ورک اور تحقیق کروائے دھڑا دھڑ اپوزیشن راہنماں بلخصوص مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سرکردہ لیڈران کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈلوانا شروع کر دیا ۔

احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا وہ بدترین کھیل کھیلا گیا جسے ایک عرصے تک یاد رکھا جائے گا ۔
وزیرِ اعظم عمران خان ہر قسم کی رواداری بالائے تاک رکھتے ہوئے وہ اخلاقی حدود بھی پامال کیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں ۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی مرحومہ اہلیہ کو بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے ڈرامہ قرار دیا گیا،خود نواز شریف کی بیماری کو بھی ڈھونگ قرار دیا گیا،ان کی بیٹی مریم نواز کے ساتھ جیل میں بھی توہین آمیز رویہ برتا گیا ۔

بغیر کسی ریفرنس یا ثبوت کے جیلوں میں قیددیگر ن لیگی قیادت کے ساتھ بھی انسانیت سوز سلوک کیا گیا اور جو باہر تھے ان کے خلاف بھی ہر ممکن انتقامی کاروائی کی گئی ۔ بغیر کیس ثبوت، ریفرنس کے کئی کئی ماہ جن ن لیگی راہنماوں کو قید میں رکھ کر انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور جنہیں بعد ازاں عدلتوں کے زریعے رہائی ملکی ان میں ، شہباز شریف، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، حنیف عباسی،انجینئر قمر الاسلام،مفتاح اسمائیل،کامران مائیکل،میاں نعمان،یوسف عباس، احد چیمہ، فواد حسن فواد اوراحسن اقبال نمایاں ہیں ۔


اب عمران خان صاحب کے سامنے ایک بڑا مسعلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ان ووٹرز اور سپوٹرز کو کیا بتا سکیں گے کہ جس احتساب کے نعرے پر پر انہوں نے دن رات ایک کر کے ووٹ حاصل کیئے وہ نعرہ تو کھوکھلا نکلا ؟۔ تمام تر محکمے ان کے ماتحت ہونے اور اداروں کے ایک صفحے پر موجود ہونے کے باوجود بھی اگر عدالتیں ان کے سیاسی مخالفین کو ایک ایک کر کے کرپشن کے الزمات سے بری کر رہی ہیں یا ضمانتوں پر رہا کر رہی ہیں تو عمران خان سے زیادہ ان کے چاہنے والوں کے لیئے لمحہِ فکریہ ہونا چاہیئے کہ ان کے ووٹ لینے کے چکر میں اس ملک کے ساتھ کتنا بدترین کھلواڑ کیا گیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :