’’غیر ملکی امداد اور برمودا ٹرائی اینگل‘‘‎

پیر 27 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

معروف صحافی جناب سلیم صافی نے تشویش پر مبنی انکشاف فرمایا ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کا’’ احساس پروگرام‘‘ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا گھپلا بنتا جارہا ہے‘‘ صافی صاحب نہ جانے کیسے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے چربے اور پی ٹی آئی کے اس’’ احساس پروگرام‘‘ کو تاریخ کا بڑا گھپلا قرار دے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ مذکورہ پروگرام پر خرچ کیئے جانے والے پیسوں کا کرونا وائرس کے نام پر ملنے والے اربوں ڈالرز سے کوئی تعلق نہیں ۔

احساس پروگرام فنڈ(بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام) کا پیسہ پہلے سے مختص ہے،جس میں سے پی ٹی آئی کے غریب ووٹروں کو تین ماہ کی ایڈوانس مد میں بارہ ہزار روپے دیئے جا رہے ہیں ،جبکہ آگے کا کچھ پتہ نہیں ۔ گویا مذکورہ پیسہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد سے دیا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

صافی صاحب پہلے اس بابت ریکارڈ کی درستگی فر ما لیں ۔
کرونا وائرس کے نام پر عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک، امریکی، برطانوی اور کچھ دیگر ممالک کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو اربوں ڈالرز کی غیر ملکی امداد پہلے سے دی جا چکی ہے جو الگ سے موجود ہے ۔

میں اپنی گزشتہ تحریروں میں اس غیر ملکی امداد کی امداد کی بابت تفصیل سے عرض کر چکا ہوں پھر بھی چوبیس اپریل تک وصول امداد کی مختصر تفصیل پیشِ خدمت ہے ۔ جس کے حوالے سے عمران خان تین د ن قبل کہ چکے ہیں کہ’’ مجھے تو ابھی تک ایک ڈالر بھی نہیں ملا‘‘ ۔ لہذ ا،احساس پروگرام کا گھپلا تو کرونا وائرس کے نام پر ملنے والے کھربوں روپے کے گھپلوں کا تو عشرِ عشیر ہے ۔


جاپان سے16.2ملین ڈالرکی امداد ملی ۔ امریکہ سے8ملین ڈالر،ورلڈبنک سے238 ملین ڈالر،ایشیائی ترقیاتی بنک سے350ملین ڈالر،آئی ایم ایف سے386.1بلین ڈالر ،جبکہ چین نے میڈیکل آلات کی مد میں امداد جہاز بھر بھر کر طبّی امداد دی ۔ صافی صاحب کو چاہیئے کہ ایک "جرگہ" ان حقائق پر بھی لگا لیں ۔
جنابِ صافی صاحب اور ان جیسے دیگر صحافیوں کو بھی اپنے قلم کی نوک کو اربوں ڈالرز کی غیر ملکی امداد کے ہڑپ ہونے والے اہم مسلے کی جانب زیادہ گھومانا چاہیئے ۔

وہ کیوں نہیں ملک کے عوام کی توجہ کرونا وائرس کے نام پر اربوں روپے کی عوامی امداد جس کے بارے میں ابھی تک چیف جسٹس کو دو مرتبہ پوچھنے کے باوجود بھی نہیں بتایا گیا کہ مذکورہ امداد ،کہاں اور کس کے کھاتے میں گئی ہے،کی جانب مبذول کرواتے ؟۔
صافی صاحب کا مذکورہ انکشاف پڑھ کر ایسا ہی لگا جیسا کہ سابق ڈیکٹیٹر پرویز مشرف دور میں ایک جانب ڈالرز پکڑ کر امریکہ کو ڈرون حملوں کے زریعے پاکستانی حدود میں بے گناہ شہریوں پر میزائل فائر کرنے کی اجازت دی جاتی رہی اور دوسری جانب ہلکے پھلکے انداز میں سرکاری مولویوں کے ز ریعے امریکہ کو گالیاں دلوا کر عوام کو مطمعن کرنے کی ناکام کوشیں کی جاتی رہیں ۔

ا س لیئے جلیبی کی ماند یہ سیدھی بات، دو مرتبہ اجوائن کی پھکیاں استعمال کرنے کے باوجود خاکسار کو ہضم نہیں ہو رہی ۔
دو ہزار پانچ کے زلزلے میں زلزلہ زدگان کے لیئے ملنے والی اربوں روپے کی نقد امداد تو ایک جانب، ہمیں یاد ہے کہ اس غیر ملکی امداد میں ملنے والے بچوں کے دودھ کے ڈبّے، کمبل ،صابن اور تولیئے تک نہیں بخشے گئے تھے، بیرونِ ممالک سے اس قدر امداد آئی کہ اسلام آباد ائرپورٹ پر کئی کئی دنوں تک زلز لہ متاثرین کے لیئے آیا سامان پڑا رہا اور آگے تقسیم اس لیئے نہیں کیا جا سکا کہ مذکورہ امداد کی’’ ہائی لیول‘‘ پر آپس میں بندر بانٹ کرنا مقصود تھی ۔

ابھی تک اس امداد اور فنڈ کی بابت بھی حقائق منظرِ عام پر نہیں لائے گئے جبکہ زلزلہ زدہ علاقوں میں اربوں روپے کے فنڈز کی خرد برد اور بنائے گئے اداروں ایراء،سیراء (بالاکوٹ) کے حوالے سے ایک اہم کیس بھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے ۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی اور کشمیر میں الباکستانی جہاد کی دکان داری بند ہونے کے بعد اب عوام النا س کی غربت کے خاتمے کے لیئے آئی ہوئی فارن ایڈ ہو، سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثر ہوئے لاکھوں غریب افراد کے لیئے عالمی نقد امداد ہو ۔

ڈیم فنڈ کے لیئے باہر سے پاکستانیوں کا پیسہ ہو یا پھر کرونا وائرس کے خاتمے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیئے آئی اربوں ڈالرز کی غیر ملکی امداد ہو، لگتا ہے وہ بھی کسی ’’ برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کی نظر ہو رہی ہے ۔
 جی بلکل اُسی بحریہِ اوقیا نوس(نارتھ اٹلانٹک اوشن) پر واقع برمودا ٹرائی اینگل کی طرح، جو اپنے اوپر سے گزرنے والے بڑے بڑے بحری اور ہوائی جہازوں تک کو کھینچ کر ہڑپ کر لیتا ہے ۔


وزیرِ اعظم عمران خان کسی حد تک درست فرماتے ہیں کہ دنیا سے امداد کی اپیل کرنے کے باوجود انہیں تو کرونا وائرس کے حوالے سے ایک ڈالر بھی نہیں ملا ۔ چیف جسٹس صاحب بھی دہائی دے رہے ہیں کہ کرونا کے نام پر پاکستان کو موصول اربوں روپے کا حساب دیا جائے ۔ کوئی ان دونوں کو بتائے کہ مذکورہ اربوں ڈالرز اسی پاکستانی "برمودا ٹرائی اینگل" کی گہرائیوں کی نظر ہو چکے ہیں جنہیں وہ چراغ لے کر ڈھونڈ رہے ہیں ۔


آصف زرداری اور نواز شریف تو اس "برمودا ٹرائی اینگل" اور اس کی گہرائی کو بخوبی جانتے ہیں ،لیکن جنابِ عمران خان ابھی نئے نئے آئے ہیں ، اس لیئے وہ یاد رکھیں کہ جب تک کہ عوام کے نام پر ملنے والی غیر ملکی امداد اور اس کی تفصیلات کو عوام کی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی کوششیں نہیں کی جائیں گی ،ایسی کسی بھی غیر ملکی امداد کو برمودا ٹرائی اینگل کی گہرائیوں میں جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔


وہ آئے روز ٹی وی پر دنیا سے اور ٹیلی تھون کے زریعے امداد مانگتے رہیں گے،امداد تو ملتی رہے گی لیکن ان کے ہاتھوں میں آنے کے بجائے’’ برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کی نظر ہوتی رہے گی ۔
سوشل میڈیا کے علاوہ قومی میڈیا کو بھی اب ہمّت دکھاتے ہوئے کرونا وائرس کے حوالے سے ملنے والی اربوں ڈالرز کی امداد کی بابت اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ سانپ سیڑھی کے کھیل میں پھنسے وزیرِ اعظم عمران خان کی پریشانی دور ہو سکے اور انہیں معلوم ہو سکے کہ ان کے حصّے میں ایک ڈالر بھی کیوں نہیں آ سکا ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :