
نواز شریف ڈیل کیوں نہیں کر رہے؟
اتوار 2 جون 2019

عمار مسعود
(جاری ہے)
سنیئر صحافی جناب ضیاء الدین نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں بہت واضح طور پر یہ بات کہہ دی ہے کہ "ڈیل کی ضرورت اس وقت غیر جمہوری قوتوں کو ہے نواز شریف کو نہیں"۔ دو ہزار اٹھارہ کے متنازعہ انتخابات جس طرح سے ہوئے اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ن لیگ کے بغض میں تحریک انصاف کے ساتھ واضح جانبداری برتی گئی۔ اس بات کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ منصوبہ سازوں نے جو چاہا وہ ان متنازعہ انتخابات میں کر دکھایا۔ ن لیگ پنجاب میں بھی حکومت نہ بنا سکی۔ وفاق میں بھی انکی نشستوں کی تعداد بہت کم ہوئی۔ دیگر صوبوں میں بھی انکا کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔ خیبر پختون خواہ میں ناقص کارکردگی کے باوجود تحریک انصاف کو فتح نصیب ہوئی۔ سندھ ہمیشہ سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں تقسیم رہا وہاں بھی تحریک انصاف نےا چھی خاصی نشستیں لے لیں۔ ان نتائج کے حصول کے لیئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ منصوبہ سازوں نے ایک ایک نشانہ درست لگایا اور ہر مہرہ درست جگہ آ کر بیٹھا۔ مطلوبہ نتائج حاصل ہو گئے اور کہنے کو ایک نئے جمہوری دور کا آغاز ہو گیا۔
اس سارے منصوبے میں بس دو باتیں ایسی تھیں جو توقع کے برخلاف ہوئیں۔ باقی توسب " آل اوکے" کی رپورٹ رہی۔ ان دو باتوں میں سے پہلی بات نواز شریف کی لندن سے واپسی تھی۔ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ کرپشن کے اتنے الزامات کے باوجود ، جیل اور قید کی دھکمیوں کے باوجود ، کلثوم نواز کی شدید علالت کے باوجود نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے۔ مشرف کے دور میں جب دس سال کے لیئے سعودیہ چلے گئے تھے تو اب کہاں واپس آئیں گے۔ نواز شریف نے ان تمام افواہوں کے برخلاف وطن واپسی کا سفر کیا ۔ جانتے بوجھتے ایک نام نہاد مقدمے میں بار بار عدالت میں پیشیاں بھگتیں۔ شدید علالت میں قید کو برداشت کیا مگر ڈیل کا لفظ زبان پر نہیں لائے۔ نواز شریف کا یہ طرز عمل منصوبے سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس سے سارے منصوبے میں جھول آگیا ہے۔ دوسری بات جو منصوبے کا حصہ نہیں تھی وہ یہ کہ ارادہ تو یہ تھا کہ تحریک انصاف کی کمزور حکومت کو لا کر پیچھے سے خود حکومت چلائی جائے۔ اس کٹھ پتلی حکومت میں اتنا دم نہیں کہ کسی بھی بات پر سوال کر سکے ، مزاحمت کر سکے۔ یہی ہوا اور کابینہ میں حالیہ ردوبدل اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ حفیظ شیخ ، فردوس عاشق اعوان ، زبیدہ جلال ، رزاق داود اسکی دلیل ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ حکومت غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ نہ کوئی مزاحمت کرتا ہے اور نہ ہی کسی میں مخالفت کی جرات ہے۔ کمزور حکومتوں کی یہی خوبیاں ہوتی ہیں۔ بیساکھیوں پر برسر اقتدار آنے والے یہی فرمانبردارنہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ لیکن جو بات منصوبے کے برخلاف ہوئی وہ یہ تھی کہ جمہوریت کا ڈھونگ چل نہیں سکا۔ مخفی قوتیں چھپ نہیں سکیں۔ آپ پاکستان کے کسی گلی کوچے میں جا کر دریافت کر لیں کہ عمران خان کو برسراقتدار کون لایا تو پتہ چل جائے کہ جو بات خفیہ رکھنی تھی وہ عیاں ہو گئی ہے۔
اس راز کے افشاء ہونے میں تحریک انصاف کی بے مثال معاشی کارکردگی کو مورود الزام ٹھرانا چاہِے ۔ اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے سے اگر شرح ترقی پانچ اعشاریہ آٹھ سے سات فیصد ہو جاتی تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا مگر بدقسمتی سے یہ شرح ترقی اب دو اعشاریہ نو فیصد ہوگئی ہے ۔ ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور روپے کی قدر پاتال میں چلی گئی ہے۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتیں روز بڑھ رہی ہیں۔ سٹاک مارکِٹ کبھی سانس لیتی اور کبھی نیم مردہ سی پڑی رہتی ہے۔ ترقیاتی بجٹ ختم ہو چکا ہے۔ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں اور اگر سیاسی جماعتیں کوئی تحریک نہیں چلاتیں تو حکومت سے نجات کی آوازعوام کی طرف سے آئے گی جس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
اس صورت حال میں جیل میں قید نواز شریف کو اس بات کا اچھی طرح ادارک ہے کہ اس طرح حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اسطرح معیشت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اس طرح ملک زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ جلد یا بدیر اس ملک میں ری الیکشن کا غوغا مچے گا اور اگر صاف، شفاف اور منصفانہ الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ ن کو فتح سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ پیپلز پارٹی اگرچہ بلاول کی قیادت میں بہت درست بیانیئے کی ساتھ چل رہی مگر بری گورننس کا جو تجربہ پاکستانیو کو ہو چکا ہے اس کے بعد ووٹر دوبارہ اس چال میں نہیں آنے والا۔ پنجاب میں اگر منصفانہ انتخابات ہوں تو اب بھی سب سے بڑی قوت مسلم لیگ ن ہے۔ تحریک انصاف کی عبرتناک معاشی کارکردگی کے بعد انکا مستقبل ملکی سیاست میں بہت تاریک ہے۔ نواز شریف کو اس بات کا بھی پتہ ہے کہ پارٹی میں اختلافات کے باوجود کوئی ایک شخص بھی نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ تو صاحبان نواز شریف اس لیئے کوئی ڈیل نہیں کر رہے کہ انہیں پتہ ہے کہ آنے والا دور ان کاہے۔ جعلی مقدمات ماضی میں بھی سیاستدانوں کے خلاف اسی شدت سے قائم ہوئے ہیں مگر ہم نے دیکھا کہ بیک جنبش قلم ایسے مقدمات اور سزائیں ہوا ہو جاتی ہیں۔ جیل میں قید نواز شریف کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ انکا جیل میں گذرا ایک ایک دن عمران حکومت کے لیئے بھاری ہے ۔ اور یہی نواز شریف کی فتح ہے۔ یہی نواز شریف کے بیانیئے کی فتح ہے۔ یہی ڈیل نہ کرنے کی وجہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.