معیشت پہ وبائی اثرات!

منگل 9 جون 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

دہشتگردی کے ہاتھوں مملکت کے بنیادی ڈھانچہ کے انہدم،غیر محدود کرپشن اورسیاسی عدم استحکام کی وجہ سے قومی معیشت پہلے ہی دگرگوں تھی،اب کورونا وباء کے ہنگام اور لاک ڈاون کی سختیوں نے گردش زر کے نظام کو بگاڑ کے ہماری معاشی مشکلات کو دوچند کر دیا۔ان حالات میں دنیا کی بڑی معیشتیں کساد بازاری کا شکار بنیں تو عالمی مالیاتی نظام اپنا توازن قائم نہیں رکھ پائے گا چنانچہ لامحالہ عالمی اقتصادی سسٹم کی تشکیل نو کی خاطر غریب ممالک کو مالی امداد کی فراہمی کا سلسلہ توڑنا پڑے گا،ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں مزید دباوٴ میں آ سکتی ہیں،مگر افسوس کہ ہمارے ہاں مشکالات سے نمٹنے کی تیاری دیکھائی نہیں دیتی۔

فی الوقت تین ماہ سے جاری لاک ڈوان کے باعث پیدوارای عمل معطل ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی خسارے کا سامنا ہے،وزرات خزانہ کی جانب سے سینٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ کورونا وباء کے تداراک کیلئے اٹھائے گئے حفاظتی اقدامات کی بدولت ملک بھر میں صنعتی شعبہ سے وابستہ دس لاکھ اور خدمات کے شعبہ سے منسلک بیس لاکھ افراد بے روز گار ہوئے،کورونا سے قبل جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 3.24 فیصد لگایا گیا لیکن مالی سال 2019-20 میں شرح نمو منفی4 فیصد رہی،ٹیکس جمع کرنے کا 4800 ارب کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا،رواں مالی سال میں اپریل سے جون تک ایف بی آر کے ریونیو میں700 سے 900 ارب روپے تک کمی آئی،یعنی ٹیکس ریونیو3905 ارب روپے گھٹ گیا،جس سے مالی خسارہ 7.5فیصد سے بڑھ کے9.4 فیصد ہو جائے گا،وزارت خزانہ کے مطابق ایسے میں غربت کی شرح 24.3 سے بڑھ کے33.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

(جاری ہے)

وباء کی وجہ سے پاکستانی برآمدات کم ہو کے 21.22ارب ڈالر رہ گئیں،بیرون ملک کام کرنے والے مزدوروں کی ترسیلات میں2 ارب ڈالر کی کمی آئی چنانچہ فرووری سے مارچ تک روپے کی قدر میں ماہانہ7.5 فیصد کمی واقع ہوئی تاہم وزارت خزانہ کی اس رپوٹ میں چیلنجز سے نمٹنے کی تیاریوں کا ذکر نہیں تھا۔
سبزی اور فروٹ مارکیٹ کھلے رہنے کی وجہ سے توقع تھی کی زرعی معیشت لاک ڈاون کے مضمرات سے بچ جائے گی لیکن بدقسمتی سے اِسی دوران ٹڈی دل کے حملے اور بے موسمی بارشوں نے زراعت کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچایا،حیران کن طور پہ ٹڈی دل کے جھنڈ کراچی کے راستے کئی ماہ کا سفر کر کے پہلے اندرون سندھ کے زرعی منطقوں میں داخل ہوئے،بعدازاں بلوچستان،پنجاب اور خیبر پختون خوا کے طول و ارض میں پھیلتے گئے لیکن ہمارا انتظامی ڈھانچہ ٹڈی دل کے تدارک کی بجائے لاک ڈاون کے اطلاق میں مشغول رہا۔

اپریل،مئی میں جس وقت پنجاب،سندھ اور خیبر پختون خوا میں کپاس و چاول کی کاشت اورگرمیوں کے میوہ جات خاص طور پہ آم کے درخت پھل لے رہے ہوتے ہیں،عین اسی موسم میں ٹڈی دل نے یلغار کر کے چاول اور کپاس کی فصلات اورمیوہ جات کے وسیع باغات اجاڑ دیئے،پنجاب کے میدانی علاقوں میں آم کی فصل کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں آلوبخارہ،آڑو،الوچہ اور خرمانی کے باغات بھی ٹڈی دل حملوں سے بچ نہ سکے۔

پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا، ٹڈی دل نے تین سو ہزار مربع کلو میٹر ایریا متاثر کیا جو مملکت کے کل رقبہ کا 37 فیصد بنتا ہے،جس میں بلوچستان کا ساٹھ فیصد، سندھ کی 25 فیصد اور پنجاب کی 15 فیصد زرعی اراضی شامل ہے،بلوچستان میں بہارکے موسم اور سندھ و پنجاب میں گرمی کے موسم میں ٹڈی دل کی افزائش نسل ہوئی،اب یہ فصلوں اور باغات کے علاوہ قدرتی چراگاہوں،کیکر،بیری اورکئی دیگر درختوں کو بھی تباہ کرنے لگی،بلاشبہ ٹڈی دل زرعی معیشت کیلئے سنجیدہ خطرہ بن گئی،جس سے خوراک کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

امسال ملک بھر میں قدرتی طور پہ گندم کی پیدوار کم ہوئی،پنجاب اور خیبر پختون خوا کے محکمہ ہائے خواراک گندم خریداری کے اہداف حاصل نہیں کر پائے،اس لئے کٹائی کے موسم ہی میں گندم کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے،خیبرپختون خوا میں سو کلو گرام والی گندم کی بوری کا ریٹ پانچ ہزار روپے تک پہنچ گیا،بہت جلد روٹی کے نرخ بھی بڑھ جائیں گے جس کا زیادہ اثر غریب طبقہ پہ پڑے گا،چنانچہ ملکی ضروریات کوپورا کرنے کیلئے حکومت کو 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔


قبل ازیں سعودی حکومت ہمیں تین ارب ڈالر کا تیل قرض پہ دے دیتی تھی،جسے فروخت کر کے حکومت بھاری رقوم اکھٹا کرتی،جس سے مملکت کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملتی لیکن اب تیل کے عالمی بحران اور حج و عمرہ پہ پابندی کی بدولت سعودی سلطنت خود مالی مشکلات میں گھر گئی،اس لئے دوست ممالک سے ملنے والی مالی معاونت بھی محدود ہو جائے گی۔

آئی ایم ایف،جو ،جی 20 ،ممالک کے اشتراک سے کام کرنے والا مالیاتی ادارہ ہے،امریکہ کے معاشی و سیاسی مفادات میں تبدیلیوں اور یوروپی ممالک میں کساد بازاری کی بدولت دنیا کے غریب ممالک کو زیادہ مدت تک مالی معاونت دینے کے قابل نہیں رہے گا۔اس وقت مجموعی صورت حال یہ بن رہی ہے کہ حکومت کے پاس ٹڈی دل کے تدارک کی منصوبہ بندی تھی نہ ایسی ٹیکنالوجی اور وسائل موجود ہیں جس سے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے میں مدد ملتی،ٹڈی دل کے لشکر فصلات پہ حملہ آور ہوئے تو ہمارا انتظامی ڈھانچہ ریسپانس نہ کر سکا۔

بے موسمی بارشوں اور ٹڈی دل حملہ نے زراعت سے ملنے والی آمدنی کا بڑا حصہ تباہ کر دیا۔لاک ڈاون کی وجہ سے کاروبار اور صنعتی اداروں کی بندش کے باعث ٹیکس ریکوری بند اور بے روزگاری بڑھ گئی،جس نے قومی معیشت کی شرح نمو کو منفی سطح تک پہنچا دیا،عالمی مالیاتی بحران نے دوست ممالک سے قرض کی صورت میں ملنے والی امداد کا حصول بھی ناممکن بنا دیا۔


بحران سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف نے مشورہ دیا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے مملکت کے ڈھانچہ کو مختصر کرکے انتظامی اخراجات گھٹائے لیکن حکومت سرکاری ملازمین کی مرعات میں کمی کی جرات نہیں کرپائے گی،سابق صدر جنرل مشرف نے کہا تھا”We are drowning pay and pension“لیکن انہوں نے بھی اس بھاری پتھر کو چوم کے رکھ دیا،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمار ریاستی ڈھانچہ میسر وسائل سے میل نہیں کھاتا،قومی معیشت اب سرکاری ملازمین کے ہجوم کا بوجھ اٹھانے کی سکت کھو رہی ہے،ذرا اندازہ کیجئے کہ ان ممالک میں بھی ہمارے سفارت خانے موجود ہیں جن ملکوں سے تجارتی تعلقات ہیں نہ وہاں ہماری مین پاور کی کھپت ہے،ایسی بیکار کی ایمبیسیز پہ گورنمنٹ ماہانہ کروڑوں ڈالرز خرچ کرتی ہے ۔

مغرب کی ترقی یافتہ ریاستوں کے حجم مختصر اور ٹیکسیز کا نظام فعال و مضبوط ہے، وہاں جوڈیشری،فوج اور پولیس سروسیز کے سوا مستقل ملازمتوں کا تصور مفقود ہے،ڈیلی ویجز نظام کے تحت وہاں چھٹی کے دن تنخواہ ملتی ہے نہ پنشن کی روایت قائم کی گئی۔چین میں بھی جہاں نشنل اکانومی کا نظام رائج ہے،چھٹی کے دن سرکاری اہلکار کو تنخواہ نہیں ملتی، اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے کھانے پینے اور علاج معالجہ کی سہولت تو دی جاتی ہے لیکن ان دنوں کی تنخواہ نہیں ملتی،دنیا میں کہیں بھی ہماری طرح کا لارڈ صاحب سسٹم موجود نہیں جسں میں سرکاری اہلکار بھاری تنخواہوں،غیر محدود مرعات اور غیر معمولی اختیارات کے ساتھ بڑی کاروں اور بنگلوں کوٹھیوں میں ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزاریں لیکن ڈلیور کچھ نہ کریں۔

حالات کا جبر اس امر کا متقاضی ہے کہ ریاست کے انتظامی ڈھانچہ کو میسر قومی وسائل سے ہم آہنگ کرنے کے علاوہ تنخواہوں اور پنشن کے نظام میں اصلاحات کی جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :