ڈھنگ ٹپاؤ نعرے نہیں، انتخابی اصلاحات

بدھ 27 نومبر 2019

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

جمہوریت کی بقا ء اور اسکا تسلسل منصفانہ اور صاف شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہی مضمر ہے ،جمہوری عمل جتنامضبوط اور شفاف ہوگا ملک اتنا ہی خوشحال ہوگا۔انتخابی اصلاحات کا مقصد ایسا صاف شفاف ،غیرجانبدار الیکشن کا نظام تشکیل دینا ہے جس میں عام آدمی سوچ و پسند کے مطابق صحیح معنوں میں عوامی وجمہوری حکومت منتخب ہو ۔مگر ہمارے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ شفاف انتخابات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے ۔

ماضی میں ملک میں انتخابی قوانین موجود ہونے کے باوجود نہ تو ان قوانین کودرخور اتنا سمجھا گیااور نہ ہی ان کی پابندی کا لحاظ رکھا جاتا رہا ۔ اندریں حالات مسائل کا حل یہ ہے کہ نظام میں اصلاحات کا ایسا میکنیزم بنایا جائے جس سے شفافیت ،غیرجانبداریت کی عملی جھلک نظر آئے ۔

(جاری ہے)

انتخابی دھاندلی و اصلاحات کے لئے بننے والی کمیٹی کے اجلاس شاذونادر ہی ہوتے ہیں ، اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ منتخب نمائندے اصلاحات اور پارلیمنٹ کے تقدس میں کتنے سنجیدہ ہے ۔

2013اور 2018کے الیکشن کے بعد انتخابی نظام میں اصلاحات کی آواز بلند ہوئی ،اور دھاندلی کا خوب شور شرابہ ہوا 2014 میں بات چار حلقے کھولنے سے شروع ہوئی ،پھر 126 دن تحریک انصاف کا دھرنا اور بالآخر سپریم کورٹ کے کمیشن کے فیصلے پر ختم ہوئی تھی ۔ نظام میں خامیوں کی اصلاح کے لئے آواز اٹھانا اور کوشش کرنا جمہوریت کا خاصہ ہے مگر یہاں بات وزیراعظم کے استعفا اور پورے الیکشن کو کالعدم قرار دینے کے مطالبوں تک پہنچ جاتی ہے ۔

2018 الیکشن کے بعد ہارنے والوں نے دھاندلی کا الزام لگایا اور حکومت کو سلیکٹیڈ قرار دے دیا جو گذشتہ حکومت میں سابقہ اپوزیشن قائدین کے بیانات ہوتے تھے وہ حکومت کے لوگ دینے لگ گئے اور اپوزیشن والے بیان اس وقت کی حکومت والے لوگ دے رہے تھے صرف کردار بدلے تھے بیان وہی تھے کہ دھاندلی ہو گئی ہے مگر لگتا ایسا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک میں حقیقی جمہوریت اور انتخابی نظام میں اصلاحات نہیں چاہتی ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سب جماعتوں کے ساتھ موجود سرمایہ دار،وڈیروں اور جاگیرداروں کے مفادات اسی نظام انتخاب کے ساتھ وابسطہ ہیں یہ سب اس کے محافظ ہیں اور نعروں کے علاوہ عملااصلاحات نہیں چاہتے ۔ جمہوریت کا حسن جہاں رواداری،برداشت اور دوسرے کے نکتہ نظر کوسننا ہے وہیں اس نظام کے گدلا پن کو دور کرنے کے لئے Inbuilt نظام میں اصلاح کا پہلو اسباب خود بخود پیدا ہونے کا میکنیزم ہونا بھی ضروری ہے ۔

وطن عزیز میں رائج انتخابی قوانین میں انتخابات سے متعلقہ آٹھ پرانے قوانین جن میں الیکٹورل رول ایک مجریہ 1974 ،انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق ڈی لمیٹیشن آف کونسٹی ٹونسی ایکٹ 1974 ،سینیٹ الیکشن ایکٹ 1975 ،ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ ،الیکشن کمیشن آرڈر سنہ 2002 ، عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق 2002 قانون اور پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 ء کو یکجا کرکے یہ قانون بنایا گیاہے ۔

2017 میں جوترامیم ہوئی تھیں ان میں خوش آئیند بات الیکشن کمیشن کو مزید مالی وانتظامی خودمختاری دینا ،الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے اختیارات ،کمیشن غیر قانونی عمل کے خلاف ازخود نوٹس لینا ، سیاسی جماعتوں کو 5 فیصد نشستیں خواتین کے لئے مختص کرنا ، انتخابی تنازعات نمٹانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ، مذہب و فرقے کو استعمال کرنے والوں کو تین سال قید کی سزا ،ایک سے زائد ووٹ ڈالنے والو ں کے لئے 6 ماہ قید ا کی سزا ، اگر کسی حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد سے کم خواتین کے ووٹ پول ہوئے وہاں پر تحقیقات کی جائیں گی جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی تو عائد نہیں کی گئی اگر ایسا ثابت ہوا تو حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا جیسے اقدامات قابل ستائش تھے مگر عملی طور پر صورتحال یکسر مختلف ہے ۔

اسی وجہ سے 2018 الیکشن کے بعد تمام جماعتوں نے تحفظات ظاہر کئے ۔اپوزیشن تو اس پورے الیکشن کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے وہ تو حکومت کوالیکٹیڈ کی بجائے سلیکٹیڈ کہتے ہیں ۔ ۔ الیکشن کمیشن کو بہت سے معاملات میں مکمل خودمختار نہیں بنایا گیا جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں الیکشن کمیشن مکمل خود مختار ،آزاداورغیر جانبدار ہے ۔ مگر ان انتخابی اصلاحات میں بھی ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے پر پابندی بھی نہ لگانا، اقلیتوں کاکوٹہ نہ بڑھانے پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا ۔

سینیٹ الیکشن کے عمل پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آتے ہیں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے کوئی ترامیم نہیں کی گئیں ۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں شخصی وخاندانی طرز سیاست پر کا م کرتی ہیں سیاسی جماعتوں میں گراس روٹ لیول تک جمہوری نظام واضع کرنے کے اقدامات نہیں کئے گے ۔ سب سے اہم مسئلہ الیکشن میں اخراجات کاہوتا ہے اب قومی اسمبلی کے امیدوار کے اخراجات کی حد 40 لاکھ ، صوبائی اسمبلی 20 لاکھ ،سینیٹ کے لئے 15 لاکھ مقرر کی گئی ہے اور سیاسی جماعت 5 کروڑ روپے اخراجات کرسکتی ہے مگر عملی طور پر قومی اسمبلی کے حلقے پر اخراجات بڑے شہروں میں 10 سے 20 کروڑ ہوتے ہیں جن کو کنٹرول کرنے کی بجائے یہ ترمیم کردی گئی تھیں کہ امیدوار کا سپورٹر اگر اخرجات کرے گاتو اس امیدوار سے نہیں پوچھا جائے گا اب امیدوار کروڑوں روپے کے پوسٹرز،فلیکس،بینرزاور بورڈز سپورٹرز کے نام سے لگوائے گا ۔

الیکشن ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے کاغذوں کی حد تک تو قوانین بہت دلکش اور آئیڈیل ہوتے ہیں مگر عملدرآمد میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے یہ قوانین صرف فائلوں کی زینت بنے رہتے ہیں ۔ عملی طور پر سیاست اتنی مہنگی کردی گئی ہے کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے ۔بڑے شہروں میں سرمایہ دار ،تاجر اور دیہی علاقوں میں جاگیردار ،وڈیرے سیاسی حلقوں پر قابض ہیں ۔

ان حالات میں عام آدمی بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں 95 فیصد آبادی غریب ،متوسط طبقے پر مشتمل ہیں جن میں مزدور ،کسان ،چھوٹے دکاندار ،چند ایکڑ کے مالک کسان ،طالبعلم ،وکلاء ،اساتذہ ،مظلوم ومجبور طبقات ہیں ۔ ہمارا معاشرہ پہلے ہی قبائلی ،فیوڈل اور برادری کلچر کی زنجیروں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے ۔ برطانوی طرز کے پارلیمانی نظام کوچلانے کے لئے جاگیردرانہ کلچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے ۔

اس وقت پاکستان کی سیاست electables کے گرد گھومتی ہے جو اپنے حلقے میں خاندانی اثرورسوخ ،برادری اور پیسے کے بل بوتے پر جیتتے ہیں یہ وننگ ہارسز سیاسی جماعتوں کی بھی مجبوری بن جاتے ہیں ۔ انتخابی نظام میں بے انتہا اسقام پائے جاتے ہیں قوم امید کرتی تھی کہ انتخابی اصلاحات کے لئے کوئی ایسا جامع و موثر بل لایا جائے جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو اور سول سوسائٹی و تمام سٹیک ہولڈرز کو بھی اس پر اعتماد میں لیا جائے ۔

اور ان انتخابی اصلاحات میں کاغذی کاروائی و رسمی چیزوں سے ہٹ کر ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جن سے الیکشن کا پورا پروسیس صاف شفاف ہوسکے اور اس پر کسی بھی فریق کو اعتراض نہ ہو ۔ افتخار چوہدری صاحب کے دور میں سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کے لئے ایک تفصیلی فیصلہ دیا تھا اس میں بہت قابل عمل تجاویز ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا ۔ اس وقت پارلیمنٹ میں موجود تمام ممبران کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی و سیاسی لڑائی جھگڑوں سے باہر نکل کر ملک کے وسیع تر مفاد میں انقلابی اصلاحات کیلئے ملکر سنجیدہ کوشش کریں ۔

اپوزیشن جو اس وقت شور شرابہ و احتجاج کررہی ہے اس کو بھی چاہئیے کہ وہ جزوقتی جذباتی ،خالی نعروں اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے نکل کر لانگ ٹرم اس مسئلہ کا مستقل حل نکالیں اور ایسا نظام لائیں کہ اگلے الیکشن کے بعد دھاندلی کا الزام نہ لگے پھر کسی کو دھرنا دینے کی ضرورت نہ پڑے ۔عمران خان صاحب آپ نے تو ووٹ ہی اصلاحات کے نام پر لیا ہے کہاں ہے آپ کی اصلاحات ؟۔

جووعدے آپ نے الیکشن سے پہلے کئیے تھے وہ عملی طور پر عوام کو نظر آنے بھی چاہئے ورنہ اگلے الیکشن کے بعد آپ کو پھر دھرنا دینا پڑے گا ۔جوملک وقوم اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔
عوام کا نظام پر کم ہوتے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ موجود اسقام کو دور کرکے نظام کو عوامی امنگوں کے مطابق بنایا جائے تاکہ عام آدمی نظام سے مایوس نہ ہو ۔

عام شہری کو تقویت صرف اس وقت مل سکتی ہے جب وہ معنی خیز انتخابی اصلاحات کے ذریعے سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔ جمہوریت پر شکوہ عمارتوں اور اس میں بیٹھنے والے چند سیاسی خاندانوں کا نہیں بلکہ عوام الناس کو حقوق دینے اور جمہور کو جمہوری عمل میں شریک کرنے کا نا م جمہوریت ہے ۔ وطن عزیز میں جمہوریت کی جو شکل نظر آتی ہے اس میں عوام کا عمل دخل صرف پولنگ ڈے پر ووٹ بھگتانا رہ گیا ہے ، الیکشن جیتنے میں کروڑوں کا سرمایہ ،غنڈہ گردی ،برادری ازم اور دیگر منفی ذرائع شامل ہیں اور اس میں پارٹی منشور نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔

اس لئے ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے انتخابی نظام میں بہت زیادہ اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کے لئے لانگ ٹرم میکنزم کی ضرورت ہے ۔ملک میں کچھ حلقے متناسب نمائندگی کے نظام کی تجویز بھی دے رہے ہیں ان کی تجویز کو بھی پارلیمانی کمیٹی برائے نتخابی اصلاحات یا پارلیمنٹ کے فورم پر ضرور زیر بحث لانا چاہئیے اور اس کے فوائدو نقصانات کو دیکھ کر اس کو آزمانے میں بھی حرج نہیں ہے ۔

متناسب نمائندگی نظام کا سب سے مثبت پہلو لوگ پارٹی کے منشور کو ووٹ دیتے ہیں اور ووٹ پارٹی وپارٹی لیڈر کے نام پر ملتا ہے ۔الیکشن سے قبل ہر سیاسی جماعت ترجیحی امیدوراوں کی لسٹ جمع کروادیتی ہے اس فہرست کے مطابق ٹوٹل ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں الاٹ ہوجاتی ہیں ۔ اس سے جماعتوں میں بھی جمہوریت وجمہوری کلچر پرموٹ ہوتا ہے ۔جماعتیں گراس روٹ لیول تک اپناتنطٰمی نیٹ ورک بنانے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔

اس نظام کا انحصار الیکٹیبلز وحلقوں پر اجارہ داری رکھنے والے چند لوگوں کی بجائے جماعت کے منشور ونیٹ ورک پر ہوتا ہے ۔مختصرا ! تمام سٹیک ہولڈرز کو روایتی طریقوں سے نکل کر آؤٹ آف دی باکس حل تلاش کرنا ہوگا ۔ قدرتی وسائل اور ذہین ترین افرادی قوت کے باوجود ہمہ جہت بحران پاکستان کو جکڑے ہوئے ہیں ان چیلنجز سے نکلنے کا واحد راستہ نظام میں شفافیت اور احتساب کے لئے اصلاحات ہیں جن اصلاحات کے بعد عام آدمی بھی صلاحیت ،قابلیت کے بل بوتے پر سیاسی عمل کا حصہ بن سکے ۔ورنہ یہ نظام جمہوریت نہیں غریب عوام کیلئے مجبوریت ہی ہے اس کو حقیقی جمہوریت بنانے کے لئے سب کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :