
"لائحہ عمل 2020 "
جمعرات 8 اکتوبر 2020

عائشہ نور
میری تجاویز :
1 - سب سے پہلے پاکستان کومئوثر اقتصادی اصلاحات کرنا ہوں گی ۔ جب تک ملک میں معاشی استحکام نہیں آتا , ہم غیرملکی سودی قرضوں کے چنگل سے نہیں نکل سکتے ۔ اس مقصد کےلیے محصولات کی وصولی کے نظام کو بہتر بنانے , سود سے پاک اسلامی بینکاری نظام کو رائج کرنے , صنعتی شعبے کوترقی دینےکی ضرورت ہے۔ اقتصادی شرح نمو میں اضافے, بجٹ خسارہ, افراط زر, کرنٹ اکاونٹ خسارہ , تجارتی خسارہ جیسی مشکلات پرمکمل طورپر کنٹرول پاناہوگا ۔ خوشی ہےکہ پی ٹی آئی حکومت اس پرکام کاآغازکرچکی ہے۔ صرف اتناہی نہیں تجارتی شعبے پرخاص توجہ دیناہوگی تاکہ درآمدات اور برآمدات میں توازن قائم ہوسکے۔
(جاری ہے)
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کا مسئلہ کشمیر سے کیا تعلق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک مقروض اور کمزور معیشت کبھی بھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں اپناسکتا اورہمیشہ دباؤ کا شکاررہتاہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان معاشی طورپر اتنا مضبوط بننا ہوگا کہ خطے میں بھارتی تجارتی برتری کو چیلنج کرسکے ۔ دورِ جدید میں اقتصادی برتری کی لڑائی نہایت اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ یہ وہ لڑائی ہوگی کہ جس کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے تجارتی مفادات کا تحفظ کرسکیں گے بلکہ خطے میں بھارت کی تجارتی اجاراداری کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت کا حصول بھی ممکن بنانا ہوگا۔ کیونکہ جب تک دوسرے ممالک کاروباری مفادات کے تناظر میں بھارت کو پرکشش خیال کرتے رہیں گے , تویہ مسئلہ کشمیر پر ہماری سفارتی کاوشوں کو نقصان بھی پہنچائیں گے ۔ چنانچہ ہمارا ہدف اب صرف معاشی خود کفالت ہی نہیں بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہوناچاہیے ۔ میں پاکستان کو ایک معاشی قوت بنتے دیکھنا چاہتی ہوں ۔2 - میری دوسری تجویز یہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے کرفیو ہٹانے کےلیے بھارت پر دباؤ بڑھانے کا ہر ممکن طریقہ اپنانا ہوگا۔ چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے کرفیو ختم ہونے تک پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تر سفارتی , تجارتی , سفری اور دیگر تمام طرح کے روابط مکمل طورپر ختم کردے ۔ بھارت سے تجارتی انقطاع سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ادراک ہے کیونکہ پاک بھارت تجارتی توازن بھارت کے حق میں ہے مگر ہمیں ہمت کرنی ہوگی ۔ اور نئے تجارتی روابط اور منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی ۔ ہمارے سفارتی تعلقات منقطع رہیں اور ائیر اسپیس بھی بھارت کے بند رہنی چاہیے ۔ صرف اتنا ہی نہیں دوست ممالک سے بھی بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی اور سفری تعلقات پر نظرثانی کی درخواست کرنی ہوگی ۔جیسے ہی بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر سے کرفیو ہٹادے , تعلقات معمول پر آجائیں ۔
3 - میری تیسری تجویز یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر سے عسکریت یعنی (جہاد کشمیر) کا خاتمہ ہوناچاہیے ۔ اس قسم کی کاروائیوں سے زیادہ جانی و مالی نقصان صرف کشمیری عوام کو پہنچ رہا ہے ۔ مسلح جدوجہد نے بھارت کو بھرپور موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ عالمی فورم پر تحریک آزادی کشمیر کو دہشتگردی سے جوڑسکے اور ان کی پشت پناہی کا الزام پاکستان پر عائد کرسکے ۔ چنانچہ کشمیری عوام سے اپیل ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں تاکہ بھارت کے پاس منفی پروپیگنڈے کا مزید جواز باقی نہ رہے اور نہ ہی وہ کشمیری عوام کا طاقت کے بل بوتے پر دبانے کےلیے بہانے تراش سکے ۔ جب کہ ہم نے دیکھا کہ ایسے حیلے بہانوں سے اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہید ہو چکے ہیں ۔ ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئ اور بے شمار املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اور بھارت نے یہ کچھ سرحدپار دراندازی اور دہشتگردی کے الزامات کی آڑ میں کیا۔ بھارت نے کشمیری مجاہدین کو شہید کرکے " ٹیررسٹ انکاؤنٹر " بتانے کا وطیرہ اپنالیاہے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ چنانچہ جذباتی پہلو سے نکل کر کشمیری عوام کو عسکریت کا راستہ ترک کردیناچاہیئیے
4 - جہاں پاکستان مقبوضہ جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے , وہیں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ خالصتان تحریک کی بھی بھرپور اخلاقی اور سفارتی حمایت کرے اور ہر عالمی فورم پر خالصتان تحریک کو کچلنے کےلیے بھارتی ظالمانہ کاوشوں کا پردہ چاک کیا جائے اور دنیا کو باور کروایا جائے کہ خالصتان تحریک ایک سیاسی تحریک ہے , جسے کچلنے کےلیے ماضی میں بھارتی حکومت نے مسلح کارروائی کرکے 1984 میں سکھوں کا قتلِ عام کیا , چنانچہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام اور سکھوں کی جان و مال اور عزت وآبرو کے تحفظ کےلیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالے ۔ جیسا کہ نومبر 2020 خالصتان تحریک کےلیے فیصلہ کن ثابت ہونے۔والا ہےاور سکھ ریفرنڈم 2020 کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔ اگر سکھ ریفرنڈم میں بھارت سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو پھر وقت آن پہنچے گا جب کشمیر کی آزادی اور خالصتان کے قیام کی بھرپور سیاسی کاوشوں کا آغاز ہو۔ ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ دونوں تحریکوں کا آغاز ایک وقت پر ہو ۔ میرا مشورہ ہےکہ کشمیری عوام ریاست جموں و کشمیر میں جبکہ خالصتان تحریک کے حامی سکھ عوام مجوزہ خالصتان کے علاقوں میں اپنی اپنی سیاسی تحریک کا آغاز کریں ۔ اگرچہ یہ دونوں تحریکیں الگ ہوں گی مگر چونکہ ان کی ٹائمنگ ایک ہوگی تو بھارت کے لیے عوامی دباؤ برداشت کرنا مشکل ہوجائے گا ۔
5 - پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہر ممکنہ حد تک منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے نیٹ ورکس کو کچلنے کےلیے " ایف اے ٹی ایف " کی طرف سے دئیے گئے اہداف جلد از جلد مکمل کرکے " ؑوائٹ لسٹ " میں آنے کی کوشش کرے۔ مگر ہماری کوششیں اب صرف " وائٹ لسٹ " میں آنے سے بھی کچھ بڑھ کر ہونی چاہیں ۔ پاکستان میں مسلح تنظیموں کے تدارک کا ہدف پورا کرنے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے کےلیے مقبوضہ علاقوں میں تعینات بھارتی فوج کے کشمیری عوام پر مظالم کو " ایف اے ٹی ایف " میں بھرپور انداز میں اجاگر کرناہوگا ۔ پاکستان کو رکن ممالک کو قائل کرنے کےلیے دوست ممالک کی مدد سے مئوثر " لابنگ " کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ " ایف اے ٹی ایف " کے پلیٹ فارم پر بھارت اپنی ہی قابض افواج کے جنگی جرائم بے نقاب ہونے پر " گرے / بلیک لسٹ " ہوسکے - ( اس کےعلاوہ پاکستان کےاندربھارتی دہشتگردی کےثبوت بھی شامل کیےجائیں)
6 - پاکستان کو چاہیے کہ وہ آزادانہ خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کےلیے اقدامات اٹھائے ۔ اور اس کا مرکز و محور مسئلہ کشمیر ہی ہوناچاہیے ۔ تاہم اس سلسلے میں کافی محتاط طرزِعمل اپنانا ہوگا۔ وہ ممالک جو پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں , ان کی ڈکٹیشن قبول نہ کی جائے مگر اس کے باوجود ان سے خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارا مقصد کم سے کم دشمن پیدا کرنا ہوناچاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ نئے دوست بھی تلاش کرنے ہوں گے۔ چنانچہ روس , چین , ترکی , ایران , ملائیشیا اور قطر سے قریبی روابط استوار کیے جائیں ۔ جہاں تک ممکن ہو مجوزہ ممالک کے ساتھ ہرشعبے اسٹرٹیٹجک پارٹنرشپ قائم کی جائے۔ تاہم توازن اور اعتدال کو برقرار رکھنے کےلیے امریکہ , مغربی ممالک اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا ہوں گے ۔ ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ نئے دوست تلاش کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوناچاہیے کہ ہم اپنے پرانے دوست کھو دیں ۔ چنانچہ ہمیں کسی مخصوص بلاک تک محدود ہونے کی بجائے اپنے خارجہ تعلقات میں توازن قائم کرنا ہوگا۔ تاکہ آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کے باوجود بھی ہمارے دوستوں کی تعداد میں کمی نہ آئے
7 - جیساکہ پاکستان نے ریاست جوناگڑھ اور ریاست جموں و کشمیر کو اپنے نئے سیاسی نقشے میں شامل کرلیاہے۔ اور اب یہ نقشہ اقوامِ متحدہ میں بھی پیش ہوگا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس سلسلے میں مزید اقدامات اٹھائے جائیں ۔ اور اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر ریاست جموں و کشمیر اور ریاست جوناگڑھ کا مقدمہ باہم منسلک کرکے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست حیدرآباد دکن پر بھارتی تسلط کا معاملہ بھی ازسرنو اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے ۔ اگرچہ ریاست حیدرآباد دکن کا مقدمہ ریاست جوناگڑھ سے مختلف ہے مگر یہ مقدمہ بھی انصاف کے حصول کا بھرپور حقدار ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر یہ تینوں تنازعات زیرِ بحث آئیں اور ان بیک وقت متنازع حثیت اجاگر ہوسکے ۔ اس کے نتیجے میں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مئوقف مضبوط جبکہ بھارتی مئوقف کمزور پڑ جائے گا
8 - وقت آچکا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئےان تمام دوطرفہ معاہدوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کرے , جن میں یہ طے کردیاگیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دوطرفہ مسئلہ ہےاوردونوں ممالک اپنے تمام تصفیہ طلب مسائل باہم مذاکرات کےذریعے حل کریں گے۔ ماضی کے ایسے تمام معاہدوں کا بھارت ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور ان معاہدوں کو جواز بنا کر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونے سے فرار کے جواز کے طورپر استعمال کررہا ہےکہ چونکہ یہ ایک پاک بھارت دوطرفہ مسئلہ ہے, لہذٰا اقوامِ متحدہ مداخلت نہ کرے ۔ چنانچہ بھارت کے ساتھاعلان تاشقند , معاہدہ شملہ اور اعلان لاہور تمام دوطرفہ معاہدے ختم کیے جائیں ۔ تاکہ مسئلہ کشمیر کےحل کو ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کے قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کی طرف منسوب کیا جاسکے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایل اوسی بھی دوبارہ سیزفائرلائن قرارپائےگی -
9 - سکھ راہنماؤں کومیرامشورہ ہےکہ جب خالصتان تحریک عروج پرپہنچ جائےتو خالصتان کی آزادی کااعلان کرکے خالصتان کی ایک جلاوطن حکومت قائم کی جائے , مجھے قومی امیدہےکہ پاکستان سب سے پہلے اسے تسلیم کرےگا اور اس کے بعد عالمی سطح پر یہ جلاوطن حکومت آزاد خالصتان کی مئوثر آواز بنےگی ۔ جتنے زیادہ ممالک آزاد خالصتان کو تسلیم کرلیں گے , خالصتان کی آزادی کی منزل اتنی ہی قریب آجائے گی ۔ خالصتان کی جلاوطن حکومت اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ بھی پیش کرے اور1984میں سکھوں کےقتلِ عام کا مقدمہ بھی عالمی عدالت انصاف میں لےجانے کی تجویزپرغور کیاجائے -اقوامِ متحدہ میں جلاوطن حکومت کی رکنیت کی درخواست بھی دی جائے۔ حکومت پاکستان رکنیت کے حصول میں بھرپور کردار اداکرے۔ خالصتان کی نئ ریاست چاہےتو پاکستان کے ساتھ ایک عارضی دفاع کا معاہدہ کرسکتی ہے تاکہ ممکنہ بھارتی فوجی جارحیت کو روکاجاسکےاور بھارت کو تمام مسائل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے پر آمادہ کیاجاسکے-
10 - دوسری جانب ریاست جموں و کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر پہنچ جائے تو بھارت کو سیاسی طریقے سے اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے اپنی افواج واپس بلالے ۔ مزید یہ کہ تنازع کشمیر کے حل کےلیے بھارت کو اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ دوسرے بھارت کو ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حثیت 5 اگست 2019 سے پہلے والی سطح پر لے جانے کا کہاجائے اور آرٹیکل 370 اور 35 A کو بحال کرے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وادئ کشمیر , جموں اور لداخ کا دوبارہ انضمام کرکے ان کی الگ حثیت ختم کروائی جائے۔ اور اس کےبعد اقوام متحدہ کی امن فوج کی زیرنگرانی ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کا انعقاد کیا جائے اور کشمیری عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں اپنا مستقبل وابستہ کرلیں ۔
11 - اس مقصد کے حصول کےلیے پاکستان کو چاہیےکہ وہ ریاست جموں و کشمیر کی آئینی و قانونی حثیت میں تبدیلی (5 اگست 2019 ) کا اقدام عالمی عدالت انصاف میں فی الفور چیلنج کردے تاکہ اسے کالعدم قرار دلوایا جاسکے۔ اس کے علاوہ عالمی عدالت انصاف میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کےلیے ایک اور مقدمہ بھی دائر کیا جاسکتا ہے جس میں یہ مئوقف اختیار کیا جائے کہ بھارتی فوج مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں / جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ چنانچہ عالمی عدالت انصاف سےاستدعا کی جائےکہ ریاست جموں وکشمیر سے بھارتی فوج کا انخلاءاور اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے ۔ جب اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعنیاتی ممکن ہوجائے تو کشمیری عوام کے لیے حصول حق خودارادیت کی منزل کاحصول ممکن ہوجائےگا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عائشہ نور کے کالمز
-
میرا حجاب ، اللہ کی مرضی!!!
منگل 15 فروری 2022
-
غلام گردش!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
صدائے کشمیر
اتوار 23 جنوری 2022
-
میرا سرمایہ ، میری اردو!!!
بدھ 12 جنوری 2022
-
اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی
بدھ 29 دسمبر 2021
-
ثقافتی یلغار
پیر 20 دسمبر 2021
-
"سری لنکا ہم شرمندہ ہیں"
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
چالاکیاں !!!
ہفتہ 27 نومبر 2021
عائشہ نور کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.