موروثی سیاست اور پاکستانی سیاستدان !!!

بدھ 11 نومبر 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

 پاکستان کواندر سے کمزور کرکے توڑنے کےلیے سازشوں کے نئے جال بننے کا وقت ہواچاہتاہے ۔ ایک طرف PDM کا قیام اور حکومت مخالف تحریک کا آغاز اور دوسری جانب اچانک پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر !!! پھر PDM کا بھارتی بیانیہ اور کبھی آزاد بلوچستان , کبھی اردو کے خلاف اشتعال انگیزی , کبھی سندھو دیش کی دھمکی , کبھی خیبر پختونخواہ کو افغانستان کا حصہ قرار دینا , کبھی افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف زہر اگلنا, کبھی امریکہ کو پاکستان تباہ کرنے دعوت , کبھی پاکستان کی واضح فتح کو شکست میں بدلنے کےلیے تاریخ مسخ کرنے کی کوشش , کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟؟؟ کیا مہنگائی کے خلاف احتجاج اس انداز سے کیے جاتے ہیں ؟؟؟ کیا حکومتی کارگردگی پر تنقید کا یہ طریقہ ہوتا ہے؟؟؟ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ عمران خان ابھی تک نیا پاکستان نہیں بنا پائے یا تبدیلی نہیں آسکی ہے۔

(جاری ہے)

تو کیا اب ملکی سالمیت اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ازلی دشمن ملک بھارت کی زبان استعمال کی جانے لگے ؟؟؟یہ محض زبان کا پھسلنا نہیں مانا , کیا حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے تمام نمایاں ناموں کی زبان بیک وقت ہی پھسلنا تھی ؟؟؟ چنانچہ سنجیدہ حد تک " غداری " کی بو آرہی ہے۔ یہ تحریک عمران خان یا حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے۔

کئی محب وطن لوگ تحریک انصاف کی حکومت سے اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں اور حکومت اصلاحات نہیں لا پارہی ہے۔ تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہم اپنے ہی ملک کے خلاف ہوجائیں ۔ چنانچہ حزبِ اختلاف سے ریاست کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اور اب نرمی سے مزید کام نہیں چل سکتا , وہ تمام لوگ جو ریاست سے بغاوت کا بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں , ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ضروری ہے۔

یاد رکھ لیں کہ جب بھی کبھی پاکستان کے خلاف بھارت کھل کر کھیلتا ہے تو وہ اکیلا میدان میں نہیں اترتا بلکہ اسے عالمی سامراج کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اور لگتاہے ہے کہ  پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی عالمی سازش کہیں نہ کہیں تیار ہوچکی ہے۔ اور اس کا پہلا نشانہ افواجِ پاکستان ہیں ۔ پاک فوج پر ہونے والے حالیہ حملے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاک فوج کو ایسے دہشتگرد حملوں سے کمزور کرنے کی خواہش کہیں نہ کہیں کارفرما ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک سیاسی تحریک PDM کے ذریعے میدان میں اتاری گئی ہے کہ جس کا مقصد عوام کو حکومتی کارگردگی پر تنقید کی آڑ میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف اکسانا ہے اور یہ بتدریج ذہن سازی کی سوچی سمجھی کاوش ہے تاکہ عوام اپنے ملک اور اپنے محافظوں سے بدظن ہوجائیں ۔ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کےلیے عوام کو بغاوت کی دعوت دی جارہی ہے تاکہ مشرقی پاکستان جیسے حالات جنم لے سکیں۔

لہٰذا ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ بلوچستان اورسندھ  کا استحصال کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل رہے ہیں جو آج بلوچ اور سندھی عوام کے احساس محرومی پر مگرمچھ کے آنسو بہارہےہیں ۔ اردو زبان سے نفرت کی آڑ میں صوبائی عصبیت کا زہر اگلا جارہا ہے تاکہ عوام قومی کی بجائے صوبائی طرزِ فکر اپنائیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔

عوام کو مہنگائی اور محصولات کے اضافی بوجھ سےنجات دی جائے ۔ کیونکہ عام  آدمی کو ضروریات زندگی فراہم کیے بغیر آپ مطمئن نہیں کرسکتے , جسے صرف روزی روٹی , علاج معالجے اور بچوں کی پڑھائی کےلیے روزگار چاہیے , چنانچہ عام آدمی کو نعروں اور وعدوں کی بجائے سہولیات زندگی فراہم کیں جائیں ۔ حکومت اصلاحات کےعمل کو سنجیدگی سے مکمل کرے ۔ اور اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئےبھارت کا مقابلہ کرنےکیلیئے مئوثر سفارتکاری کو یقینی بنائے۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لینا چاہیے , جن  کا خمیازہ آج ملک و قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔  ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے , ماضی قریب کو ہی دیکھ لیجئے کہ  نوازشریف کے ملک سے جانے کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئ , آج دیکھ لیں کہ غلطی گلے پڑ گئ ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کوئی نیا این آر او دے کر PDM سے جان چھوٹ جائے گی تو یہ سوچ غلط ہے۔

مزید ڈھیل اور ڈیل کا مطلب  کھلی چھوٹ دینا ہے۔ اس سے انہیں خود کوسیاسی طورپر نئے سرے سے منظم کرنے کا مزید وقت مل جائے گا ۔ اگرحزبِ اختلاف کی قیادت کو معافی مل جائےگی تو اگلے عام انتخابات کےلیے تیاری کرنا ان کےلیے نسبتاً آسان ہوجائے گا ۔ کیونکہ وہ کسی این آر او کا وجود ماننے سے صاف انکار کریں گے۔ اورعوام کو اپنی بے گناہی کا یقین دلاتے پھریں گے۔

اور ہماری بھولی عوام ایک پلیٹ بریانی کے عوض مان بھی جائےگی ۔ چنانچہ ان سب مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ کڑے احتساب کا سنجیدگی سے اطلاق کیا جائے اور بلاتفریق قومی چوروں , قاتلوں اور غداروں کو سزائیں دی جائیں ۔ تاکہ روایتی  سیاسی جماعتوں کو نئی , اہل , اور محب وطن قیادت نصیب ہوسکے ۔ اس طرح  روایتی سیاسی جماعتوں کے معاملات بھی وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوں گے اور موروثی سیاست کی بھی نفی ہوگی    ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :