وزیراعظم کے نام دورہ واشنگٹن کے حوالے سے اہل پاکستان کا خط

منگل 16 جولائی 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

محترم جناب وزیراعظم صاحب ۔ السلام وعلیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔خان صاحب ۔اللہ رب العزت نے پاک سر زمین پر بسنے والی اپنی مخلوق کے ذریعے آپ کو جو منصب اور عزت عطا کی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی فکر ،آپ کی سوچ،آپ کا علم و دانش ہم سے کہیں زیادہ ہے اسی بنا پر تو ربّ زوالجلال نے 22کڑوڑ عوام کے مسائل و مشکلات کے حل کی ذمہ داری آپ کو سونپی ہے کلمہ طیبہ کے نا م پر معرض وجود میں آنے والی ریاست کی زمام اقتدار آپ کے سپرد کی ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اس عظیم منصب کے فرائض کوآپ کتنی ایمانداری اور دیانتداری سے ادا کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جن دکھوں اور پریشانیوں سے نجات کے لئے قوم نے آپ کو مسیحا مانا تھا آپ نے کتنی سچائی،خلوص،لگن اور محنت سے عوام کی مسیحائی کی ،ملکی وقار اور قومی غیرت کی کس قدر پاسبانی کی لیکن وطن عزیز کی سیاسی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جس کو بھی عوام نے اپنا راہبر مانا وہی راہزن نکلا۔

(جاری ہے)

 اپنی ،،امامت ،، کاحق جس کو سونپا اس نے امامت کے معنی ہی بدل ڈالے۔جس کو صادق اور امین مانا اسی نے خائن بن کر قومی امانتوں کو لوٹا،ہر بار مایوسی ہی قو م کا مقدر ٹھہری،وطن عزیز کے سب سے معتبر منصب پر بیٹھنے والے ہر شخص نے ذاتی مفاد کو ملکی و قومی سے زیادہ مقدم جانا۔ خان صاحب اسی منصب کی بدولت آپ 22جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی دعوت پر امریکہ جا رہے ہیں جہاں آپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے معاشی،اقتصادی،علاقائی،باہمی اور عالمی امور بالخصوص افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ، طالبان افغان حکومت اور امریکہ مذاکرات پر خصوصی بات کریں گے۔

 ہمارا خیال ہی نہیں بلکہ ہمیں قوی امید ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب تمام معاملات کو قومی مفادات کے تابع رکھتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے برابری کی بنیاد پر بات کریں گے مگر وزیراعظم صاحب آپ کے اس دورہ واشنگٹن پر ہمارے ذہنوں میں بہت سے خدشات اور اندیشے سر اٹھا رہے ہیں اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ سابق حکمرانوں نے عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ بہادر کی خوشنودی کے حصول کی خاطر ہمیشہ امریکی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی اپنی زندگیوں اور حکومتوں کو ملک و قوم سے زیادہ عزیز جانا اس کی دوسری وجہ وزارت اعظمیٰ کا منصب نبھالنے کے بعد آپ کے انداز سیات اور طرز حکمرانی میں بدلاؤ اور عوام مخالف پالیسیوں کا نفاذ ہے۔

 انتخابات سے قبل آپ نے جن سیاسی اصولوں،آدرشوں،اقدار اور روایات کا پرچار کیا تھا حصول اقتدار کے بعد آپ نے ان سب اصولوں اور آدرشوں کوبھلا دیا ہے جس سیاسی فلسفے، نظریے اور منشور کی بنیاد پر عوام سے خق حکمرانی مانگا تھا اس سے آپ منحرف ہو گئے ہیں جو دعوے اور وعدے آپ نے قوم سے کئے تھے ان سے آپ مکر گئے ہیں اپنے بیانات ،ارشادات ،اقوال اور خیالات سے منکر ہو کر انہی سیاسی روایات کی آبیاری کر رہے ہیں جن مکروہ سیاسی نظریوں کی بدولت آج ہمارا سیاسی، معاشی ،معاشرتی اور جمہوری ڈھانچہ تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے ۔

 بیمار ہوئے جن کے سبب میر
 اسی عطار کے لونڈے سے مرض کی دوا لیتے ہیں 
ہمارے وزیراعظم صاحب ۔الیکشن سے قبل آپ نے کہا تھا کہ میں قرضہ نہیں لوں گا ،آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں کی چوکھٹ پر ماتھا نہیں ٹیکوں گا ،ریاست سے فریب اوردھوکہ کرنے والوں کو ایمنسٹی نہیں دوں گا ،وزیراعظم ہاؤ س کو لائبریری بناؤں گا ،مختصر کابینہ تشکیل دوں گا ،کسی بدکردار،بدقماش اورپکھنڈی کو عہدے سے نہیں نوازوں گا ،ریاست مدینہ کی طرز پر،،،نیا پاکستان ،،، کی تشکیل کروں گا اور ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا مگر آپ نے تو سلامتی کونسل میں غیر مستقل ارکان کی نشست کے لئے بھارت کی حمایت کرکے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ہے ،
 غضب کیا تیرے وعدوں پہ اعتبار کیا 
 راہبرکے ایسے رویوں سے قوم کے دلوں میں اندیشوں اور وسوسوں کا پنپنا فطری عمل ہے اس کے باوجود ہم کو امید ہے کہ ہمارا وزیراعظم قومی امنگوں،جذبات اور احساسات کو محترم جان کر ڈونلڈ ٹرمپ سے برابری اور باہمی عزت و احترام کی بنیاد پر بات کرے گا کیونکہ ٹرمپ کے سیاسی اور ذاتی مفادات اس ملاقات سے وابستہ ہیں تبھی تو امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان کو اس دورے کی دعوت دی ہے امریکی صدر کی خواہش ہے کہ اکتوبر سے پہلے طالبان سے کوئی ایسا معاہدہ تشکیل پا جائے جس کو بنیاد بناکر وہ اگلے برس صدارتی مہم میں تفاخرانہ انداز میں یہ کہہ سکیں کہ میں نے 18سالہ جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے۔

 ویت نام جیسی شرمناک شکست امریکہ کا مقدر نہیں بنی امریکی افواج کو افغانستان سے با عزت طریقے سے نکالا ہے اور ٹرمپ صاحب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر اپنے اس مقصد میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے اب یہ خان صاحب کے تدبر ،دانش اور حکمت پر منحصر ہے کہ وہ اس سیاسی بساط پر کس طرح کھیلتے ہیں لیکن ہم آپ کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جس دیس کا اب دورہ کرنے جا رہے ہیں اس دیس کی بے وفائی،کج ادائی اور بے نیازی سے ہماری سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے اس نے ہمیشہ ہماری وفاؤں ،قربانیوں اور سر فروشیوں کا صلہ دھوکے اور فریب کی صورت میں دیا ہے اس نے ہمیشہ ہمیں ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا دوستی کے لبادے میں ہمیشہ ہم سے منافقت کی ہم نے قیام پاکستان کے بعد ا س وقت جب سابق سوویّت یونین( ماسکو) کے خوف ے دنیا عالم میں جمہوریّت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا کوئی بیڑہ نہیں اٹھاتا تھا ہم نے اس وقت واشنگٹن سے دوستی کا عہد استور کیا تھا ہمارے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے امریکہ میں کھلے عام سوویّت یونین کے شوشلزم اور ماسکو کے کمیونزم کو ردّ کرتے ہوئے امریکہ کے جمہوری اصولوں اور روایات کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔

 انہوں نے ایسا کسی مفاد یا معاشی پیکج کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ امریکہ سے دو ستی کی بنیاد پر کیا تھا اور ابھی تک ہم اس عہد پر قائم ہیں وفا کی قدرو ں سے نا آشنا ہمارے اس دوست نے جب اور جس شکل میں ہم سے تعاون چاہا ہم نے دیا ،،،سیٹو سے لیکر سینٹو تک آر سی ڈی سے لیکر افغانستان میں سوویّت جارحیّت تک،،،نائن الیون سے لیکر قطر کے دارلحکومت دوحہ تک ،،،احمد شاہ ابدالی کی سر زمین پر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی نام نہاد عالمی جنگ کی وجہ سے ہمارا وطن دہشت گردی کی زد میں آ گیا۔

70ہزارکے لگ بھگ ہمارے پیارے اس دہشت گردی کی نذر ہوئے دس ہزار فوجی جوان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے لڑتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہماری معیشت تباہ و برباد ہو گئی اس کے باوجود ہم ہی معتوب ٹھہرے ہم کو ہی دہشت گرد گردانا گیا ہم سے ،،، ڈو مور ،، کے بار بار مطالبے کئے جبکہ دوسری طرف ہندوستان مقبوضہ وادی میں کھلم کھلا دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے مْقبوضہ وادی میں سات لاکھ ہندوستانی فوج نے کشمیریوں پچھلے چالیس سال سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

 معصوم کشمیری سنگینیوں کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں انسانی حقوق بوتوں تلے روندے جا رہے ہیں کشمیری عورتوں کی عزتوں سے کھلواڑ ہو رہا ہے بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں ڈالا جا رہا ہے آزادی کا حق مانگنے کی پاداش میں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے ہندوستان کی وحشتّ و بربریّت اور سفاکی کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کا پورا خطہ سلگتے ہوئے شعلوں کی زد میں ہے مگر حقوق انسانی کے اس علمبردار اور عالمی امن کے اس ٹھیکیدار نے نہ تو ہندوستانی وحشتّ و بر بریّت کی کبھی مذمت کی اور نہ کشمیر میں ہونے والے انسانیّت سوز مظالم اور حقوق انسانی کی پامالی پر کبھی کوئی آواز اٹھائی جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے ہندوستان کو کشمیر میں انسانیّت سوز مظالم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے اب تو امریکہ کے سب سے معتبر جریدے نیو یارک ٹائم نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ ہندوستانی فوج اپنی سفاکانہ کاروائیوں سے نہتے کشمیریوں سے جینے کا حق چھین رہی ہے اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔

وزیراعظم صاحب ۔ہم کوامید ہی نہیں بلکہ ہمیں اپنے وزیراعظم صاحب کی دانش،تدبر اور حکمت پر کامل یقین ہے کہ ہمارے وزیراعظم تمام سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر امریکی صدر کو یہ بتانے میں ،،انشاء اللہ،،ضرور کامیاب ہونگے کہ جس طرح امریکہ کو اپنا وقار اپنی عزت، آزادی و خودمختاری عزیز ہے اسی طرح پاکستان کو بھی اپنی سلامتی ،آزادی و خودمختاری اور پاک دھرتی کی خوشحالی و استحکام اتنا ہی محترم ہے جتنا کہ امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کو۔

 نائن الیون کے واقعہ میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا اس کے باوجود ہم نے عالمی امن کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا دہشت گردی کی اس اٹھارہ سالہ جنگ میں دنیا میں امن تو قائم نہ ہوا لیکن افغانستان کی سر زمین پر ہندوستان کی سر پرستی میں دہشت گدی کے بے شمار اڈے ضرور تشکیل پائے جن کا مقصد پاکستان کا امن و سکون برباد کرنا ٹھہرا اور پھر ایسا ہی ہوا ہندوستان کے ایماء پر دہشت گردوں کی ظالمانہ،بہیمانہ اور سفاکانہ کارروائیوں سے وطن عزیز کا ہر کونہ آگ اور سرخ ہو گیا۔

 ہمارے معصوم بچے اور بے گناہ لوگ اس آگ کا ایندھن بننے لگے دہشت پسندانہ کاروائیوں سے ہماری مسجدوں کے منبر و محراب نمازیوں کے خون سے سرخ ہو گئے ہمارے مندروں میں خوف اور دہشت کے سائے چھا گئے ہمارے گرجا گھر سنسا ن ہوگئے امام بارگاہیں، خانقاہیں ،مقدس ہستیوں کے دربار کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ہمیں معاشی طور پر اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادو کے وہ اعترافی بیانات ہیں جو اس نے حراست کے بعد پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو دیے ہیں۔

اسکے باوجود ہماری بہادرفوج نے انتہائی دلیری،جوانمردی اور استقامت سے ان دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور دس ہزار فوجی جوانوں کی قربانیاں دیکر پھر سے وطن عزیز میں امن قائم کر دیا جو امریکہ اور ا س کے حواریوں کے لئے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے۔
 پاکستان جو بات برسوں سے کہہ رہا کہ جنگو ں سے مسائل نہیں ہوتے بلکہ مسائل و مشکلات بڑھتی ہیں امریکہ کو اس کا ادراک کھربوں ڈالر جنگ میں جھونکنے اور ہزاروں فوجیوں کو مروانے کے بعد ہوا ،دیر آئید درست آئید،،، افغانستان کا قضیہ افہام و تفہیم سے حل ہونے کے بعد ، نفرت مسلم سے بھرے مودی کے،،،نکے دماغ،،،میں بھی یہ بات آ جائے گی کہ اگر جدید ٹیکنالوجی سے لیس میزائلوں،توپوں اور ٹینکوں سے امریکی فوج افغانستان میں اپنی ،،فتح،،کا پرچم نہیں لہرا سکی تو ہندوستان کی کیا اوقات ہے کہ وہ سات لاکھ بزدل فوج کے بل بوتے پر کشمیریوں کے جذبہ حریّت کو کچل سکے ۔

جناب خان صاحب۔پچھلے برس ٹرمپ کے ایک انٹرویو کے جواب میں ،جس میں ٹرمپ نے پاکستان پر من گھڑت اور بے سروپا الزام لگائے تھے ،آپ نے افغانستان میں امریکہ کی پے در پے ناکامیوں کا جس احسن انداز سے پردہ چاک کرکے ٹرمپ کو آئینہ دکھایا تھا ہمارا پختہ یقیں ہے کہ اب واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات میں ہمارے وزیراعظم ملکی خودمختاری ،سلامتی اور قومی وقار کو سب سے مقدم مانتے ہوئے قوم کے جذبات و احساسات کی احسن انداز سے ترجمانی کریں گے۔

 خان صاحب آج آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ مذاکرات کی میز پر انتہائی بردباری،تحمل،متانت اور ڈپلومیٹک سلیقے سے ٹرمپ انظامیہ کو ، طالبان اشرف غنی حکومت اور امریکہ مذاکرات ،،کی کامیابی کے لئے پاکستان کی اہمیت پر قائل کرکے ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے لئے مجبور کر سکتے ہیں۔
اب کی بارامریکہ کو پاکستان کو استعمال کرواور پھر اس پر الزام لگاؤ کی پالیسی کو ترک کرنا ہو گا ۔

آپ افغان مفاہمتی عمل کے خاطر بچھائی جانے والی اس بساط کے توسط سے امریکہ بہادر کو یہ بھی باور کرا سکتے ہیں کہ علاقائی امن ،ترقی ،خوشحالی اور پائیدار استحکام کے لئے کشمیر مسئلے کا حل بھی بہت ضروری ہے ۔یہ بجا ہے کہ کمزور پاکستانی معیشت و اقتصاد نے ہمارے حوصلوں اور جذبوں کو بڑی حد تک کمزور کر دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم امریکہ کی جائز خواہشات کے ساتھ اس کے ناجائز مطالبات کو تسلیم کر کے اپنی آزادی ،بقاء ،سلامتی ،خودمختاری اور عزت و آبرو پر کوئی سمجھوتہ کر لیں۔

 زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
 عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں
 جناب خان صاحب ۔آپ کے پیش نظر یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ آپ کی قوم ایک خوددار،زندہ،جفاکش اور محنتی قوم ہے جس کو اعتماد میں لے کر نہ صرف آپ معاشی بحران پر بآسانی قابو پا سکتے ہیں بلکہ ہر طوفان کابڑی استقامت کے ساتھ مقابلہ بھی کر سکتے ہیں مگر خدا را کوئی ایسا فیصلہ نہ کی جیئے گا جو پاکستانیوں کی عزت و وقار کے منافی ہو اور آُپ کی چھوٹی سی لغزش کی سزا آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے۔

 وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
 لمحوں کی خطاؤں نے صدیوں کی سزا پائی
 خان صاحب۔22کروڑ پاکستانیوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔عفت مآب ماؤں،بہنوں،بیٹیوں،سراپا رحمت بزرگوں اوردرخشاں مستقبل کی آس لگائے نوجوانوں کے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھے ہوئے ہیں ۔ہر دل کی تمناء اورآروزوایک ہی ہے کہ ہمارا ،،،کپتان،، دورہ واشنگٹن سے کامیاب و کامراں لوٹے۔۔
 اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :