لداخ، چین، بھارت اور پاکستان

پیر 1 جون 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

 ہم بطور آزادی شہری اسلامی جمہوریہ پاکستان، نجانے آزادی کو کس قدر فار گرانٹڈ لے کر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، مطلب یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس پر ہمارا پیدائشی حق تھا، بس ہمیں مل گئی۔ ہمیں کبھی ان قربانیوں کی قدر ہی نہیں ہوتی جو ہمارے بزرگوں نے اس دیس کو حاصل کرنے کے لیے دیں یا پھر وہ قربانی جو سرحدوں پر ہمارے محافظ دے رہے ہیں۔ اکثر موٹروے پر گاڑی بھگاتے،جب جنوب کے علاقوں کا رخ کروں تو راستے میں راجن پور، کشمور، گھوٹکی جیسے علاقوں کے نام نظر آتے ہیں۔

عالمی سطح کی شاہ راہ ،کہ جس پر آپ کو ایسا لگنے لگے کہ آپ یورپ یا امریکہ کے کسی ہائی وے پر ہیں،وہیں ایسے شہروں کے نام نظر آنا کہ جن کو کبھی ملک کے پسماندہ ترین علاقے تصور کیا جاتا تھا، کہ جن کے راستوں پر کبھی ڈکیتوں کا راج ہوا کرتا تھا، یقینا اس بات کا یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ہمارا ملک ترقی کررہا ہے۔

(جاری ہے)

ہم جن تبدیلیوں کو چھوٹا سمجھ رہے ہیں ،وہ ہماری سوچ کے زاویوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔


 یہ ترقی ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہے جو جلد اس ملک کی تقدیر بدلنے کو ہے اور جس نے ہمارے دشمن ملک بھارت کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔یہ المیہ آج کا نہیں ،آزادی کے فوراََ بعد کا ہے کہ بھارت پاکستان کی ترقی کے سب راستے مسدود کرنے کی راہ پر گامزن رہاہے۔پاکستان کسی بھی ترقیاتی منصوبے کی جانب ذرا سی پیش رفت کرے بھارت کے دل میں پھانس کی طرح اٹک جاتی ہے وہ آہنی دیوار بن کر راستے میں کھڑا ہوجاتا ہے اور اس دیوار کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی زندگی موت کا مسئلہ ہو ،ان تینوں قوتوں کا تازہ ترین مسئلہ یہی منصوبہ سی پیک ہے جو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی شہ رگ کی حیثیت کا حامل ایک تابناک منصوبہ ہے جو ہماری آئیندہ نسل کے روشن مستقبل کا نشان راہ گردانا جاتا ہے۔

جو اپنے اندرپاکستان کی غربت سمیٹنے کی امید کی ایک رمق رکھتا ہے۔ میں نے ہمیشہ کشمیر کو وہ واحد مسئلہ جانا کہ جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں اتنی بدترین دشمنی ہے۔ مگر آر ایس ایس کے وجود،مودی سرکار کے کارناموں نے میری سوچ یکثر تبدیل کردی۔ بھارت میں موجود مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے،اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ تناؤ کی اصل وجہ صرف کشمیر نہیں۔

یہ تو ہندوتا اور ہندوؤں کا دیس ہندوستان کا وہ نظریہ ہے کہ جس نے آج کے بھارت کو بجائے مضبوط کرنے کے پہلے سے کئی گنا زیادہ کمزور کردیا ہے۔
 بھارت دنیا کے سامنے سیکولر ،مگر اندرونی طور پر ایک انتہائی انتہاپسند ریاست ہے ،جس کی اصل آئیڈیالوجی آر ایس ایس ہی ہے، جو جناح کے دو قومی نظریے کو تاریخ کا سب سے صحیح فیصلہ قرار دیتی ہے۔ہندوستان ہندؤں کا ہے ،یہاں ہندو مت رہے گا،وہی پروان چڑھے گا اور یہ سلسلہ وہ بڑھا کر ہمسایہ ممالک کی سرحدوں تک لے جانا چاہتے ہیں،جس کا آغاز انہوں نے کشمیرکی خود مختار حیثیت بدل کردیا ہے اور اب ان کا اگلا نشانہ لداخ کے راستے کشمیر کا وہ حصہ ہے جو پاکستان کے پاس ہے۔

رپورٹس کے مطابق بھارت اس کا آغاز ایک False Flag آپریشن کے ذریعے گلگت بلتستان سے چاہتا ہے۔
 False Flag کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کو ایک غلط جھنڈا دکھائے گا، پلوامہ طرز کا جھوٹ بولا جائے گا۔اپنی سرحدوں کے اندر کاروائی کرکے اس کا الزام پاکستان پر لگایا جائے گا اور پھر لداخ کے راستے آزاد کشمیر پر حملہ کیا جائے گا۔ بھارت یہ پالیسی صرف آزاد کشمیر تک محدود نہیں ہے، بھارت ایسی ہی کاروائی اکسائی چن میں بھی کرنا چاہتا ہے،یعنی کشمیر کا وہ علاقہ جو چین کے پاس ہے ،وہ اسے بھی بھارت میں شامل کرنا چاہتا ہے اور ایسی جنگ کا براہ راست راستہ بھی لداخ ہی ہوگا۔

 لداخ 31 اکتوبر 2019ء سے پہلے جموں کشمیر کا حصہ تھا، پھر بھارتی پارلیمنٹ نے ایک کالا قانون پاس کرکے،اس کو الگ یونین کا درجہ دے دیا۔کشمیریوں سے ان کی آزادی کا حق چھین لیا گیا،خود مختاری اور پرچم چھین لیا گیا۔ بھارت کی منافقانہ پالیسیوں، ہندو مت کے فروغ اور مودی سرکار کی مسلم کش پالیسی نے لداخ کو تاریخی سطح پر ایک ایسا مقام دے دیا کہ یہ جنگی ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بلند پہاڑوں پر مشتمل یہ وادی ،شاید تیسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگی۔

لداخ میں ایک دو نہیں تین ایٹمی طاقتیں ٹکرائیں گی اور اس میں دو آپس میں اتحادی ہیں۔ لداخ 1962ء سے چین اور بھارت کے درمیان ایک وار زون کی حیثیت لیے ہے۔ لداخ ،سلک روڈ سمیت، گلگت بلتستان سے گزرتے سی پیک پر بھارتی حملے کا ممکنہ علاقہ ہے۔ 
لداخ ہی اکسائی چن تک بھارت کو رسائی دیتا ہے۔یوں بھارت اور چین کی موجودہ کشیدگی بھی اسی مقام پر ہے۔

یہ کشیدگی اب اس حد تک بڑھ گئی کہ چین لداخ سے ملحقہ علاقے میں اپنی باقائدہ سب سے بڑی ائیر بیس قائم کررہا ہے اور یہ ائیر بیس یقینا بھارت کو بہت بڑا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اکثر لوگ پاک چین دوستی کے نعرے بلند کرتے، چین میں چینی مسلمانوں کے خلا ف نفرت کا کارڈ استعمال کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی کی بنیاد مذہب نہیں ہے۔

میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، اور اس دوستی کو جغرافیائی قرار دیتا ہوں۔ اس دوستی میں بھی سب سے اہم کردار کشمیر کا ہی ہے، کیونکہ بھارتی تسلط اور کشمیر کو لے کر بھارت پر سوار جنگی جنون ،بھارت کو شدید نقصان پہنچانے کو ہے۔ ادھر چین یہ بات بھی جانتا ہے کہ بھارت سپر پاور امریکہ کا پاکستان سے کئی گنا زیادہ گہرا اتحادی ہے، جبکہ پاکستان کا جھکاؤ ہمیشہ سے چین کی طرف ہے۔

اس میں 1963ء کا وہSino-Pakistan Agreement بھی شامل ہے ،جس میں چین پاکستان کے مشترکہ بارڈر کا معاہدہ کیا گیا تھا اور شمالی کشمیر اور لداخ کا کئی سو ایکڑ علاقہ چین کے کنٹرول میں دے دیا گیا تھا۔ اس معاہدہ کو بھارت ہمیشہ غیر قانونی کہتا آیا ہے کہ پاکستان کشمیر کا کوئی فیصلہ خود نہیں کرسکتا، مگر خود اس نے کشمیر کی انفرادی حیثیت تک ختم کرڈالی اور اب چین کے اکسائی چن پربھی نظریں جمائے ہے اور ادھر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر حملے کی تیاری کررہا ہے۔

اس سارے معاملے میں نیپال اور بھوتان کا ذکر بہت اہم ہے۔ نیپال اور بھارت کا چارسو کلومیٹر کے علاقے کالا پانی پر جھگڑا ہے ،یہ بھی بارڈر کا تنازعہ ہے اور اس میں چین بھی اپنا حصہ ڈالے ہے،بلکہ وہ نیپال کو ہر لمحہ بھارت کو آنکھیں دکھانے کے لیے نیپال کی پشت پناہی کرتا ہے۔ 
اسی طرح 1959ء میں چین کے لداخ سے ملحقہ علاقے تبت میں سورش کے لیڈر دالائی لاما کو بھارت میں پناہ دینا پر بھی چین اور بھارت کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔

بھارت اور چین کے درمیان اور تنازعہ بھوتان کے علاقہ ڈوکلام کا بھی ہے۔اس میں بھوتان بھارت کا اتحادی ہے اور چین وہاں ایک تجارتی سڑک بنانا چاہتا ہے۔ اس پر 2017 ء میں بھارت آپریشن جونیپر کے نام سے اپنی فوجیں بھی ڈوکلا م داخل کرچکا ہے اور چین اور بھارتی فوجیں یہاں ایک سٹینڈ آف پوزیشن پر ہیں۔ چین ڈوکلام پر اپنا حق ایک معاہدہ کی روح سے جتاتا ہے،بھوتان اس دعوی کو مسترد کرتا ہے اور بھوتان کو اس پر بھارت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

یہ نیپال جیساہی معاملہ ہے، مگر یہاں بھارت بھوتان کا اتحادی دن کر چین کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہے۔
یہ ساری جنگ انڈیا،پاکستان کے شمالی بارڈر پر ہے،جہاں ہمالیہ ہے ،کشمیر ہے اور سی پیک کی پاکستان سے گزرتی چین میں راہداری ہے اور اسی سب میں لداخ موجود ہے۔لداخ یونین ڈسٹرکٹ بننے کے بعد جموں کشمیر سے علیحدہ ڈسٹرکٹ ہے اور یوں بھارت نے اسے مسلم اکثریتی علاقے تو الگ کر لیا ہے،مگر اس کو یقینا وارزون فیز میں داخل کردیا ہے۔

حالیہ بھارت چین کشیدگی کا مرکز بھی لداخ ہی ہے اور اس میں چین کی طرف سے لداخ میں پیش قدمی ہوئی ہے۔چین لداخ سے ملحقہ اپنی سرحد کے اندر بڑی جنگ کی تیاری کررہا ہے اور بھارت اس پر سخت پریشان ہے۔ایسی جنگ اگر بڑھ گئی تو پاکستان یقینا اس کا حصہ ہوگا اور ایسی صورت میں یہ امکان موجود ہے کہ بھارت کشمیر کا ایک بڑا حصہ کھو دے گا ، یہ حصہ لداخ ہوا تو بھارت کا False Flag آپریشن کے ذریعے پاکستانی کشمیر پر حملے اور سی پیک راہداری کو تباہ کرنے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا اور سی پیک وہ واحد راستہ ہے،جس کی حفاظت کا ذمہ خود چین نے لیا ہوا ہے۔

 لداخ میں پیش قدمی کسی طور چین اور بھارت کی آپسی جنگ نہیں ہے۔یہ براہ راست پاکستان اور کشمیر کی جنگ ہے۔ بھارت ،افغانستان کے راستے پاکستان کو بدترین نقصان پہنچانے اور لداخ کے ذریعے گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا جو ماسٹر پلان بنا رہا تھا، وہ دونوں طرف سے ختم ہوچکا ہے۔ لداخ میں چین اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ اور امریکی فوج کی رخصتی نے پاکستان کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنا دیا ہے۔

اب صرف بلوچستان میں موجود راء کی سورش پاکستانی سلامتی کو واحد خطرہ ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے کہ اپنی ساری قوت بلوچستان میں لگا کر،ملک دشمن عناصر کا سوات طرز آپریشن پر مکمل خاتمہ کردے۔بلوچستان میں امن ہونے سے پاکستان ہر طرف سے محفوظ ہوجائے گا۔ بھارت چین کشیدگی اس موڑ پر آچکی ہے کہ مستقبل قریب میں کسی طور تنازعات کا حل نظر نہیں آتا۔

چین اور بھارت بہت سے سرحدی مسائل پر جنگ کے قریب ہیں اور لداخ میں چین کی پیش قدمی یقینی طور پر بھارت کے ہندوتا خواب کو کبھی پورا نہیں ہونے دے گی۔
 مودی سرکار نے بظاہر تو ایک دو سال میں کشمیر کا انفرادی درجہ ختم کرکے اور بھارت کے اندر مسلمانوں کے لیے شہریت کا قانون لاکر آر ایس ایس آئیڈیالوجی کو تقویت دی ہے، مگر بین الاقوامی بارڈرز پر یہی جارحانہ رویہ بھارت کے منہ کو آرہا ہے۔

ایسے میں بھارت کو امریکہ اور اسرائیل کی مکمل حمایت درکار ہوگی اور لداخ کی چٹانوں میں امریکہ کسی طور موجودہ حالات میں بھارت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ممکنہ سپر پاور سے سرد جنگ کا آغاز نہیں کرے گا۔ امریکہ روس کے ساتھ ایسی ہی شرارت کا خمیازہ اپنی اکانومی کی مکمل تباہی کی صورت میں کئی دہائیوں سے بھگت رہا ہے ،وہ اب ایسی غلطی نہیں کرے گا کہ جس کی آگ اس امن معاہدے کو بھی نقصان پہنچا دے جو اس کو عزت کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کا موقع دے رہی ہے۔

 ہمارا دائمی اتحادی چین ہے۔چین کو ہماری اور ہمیں چین کی ہمیشہ ضرورت ہے اور سی پیک صرف راجن پور،گھوٹکی سے گزرتا راستہ نہیں ہے۔یہ حقیقی طور پر ایک ترقی یافتہ پاکستان کا نیا روپ ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت نے ہمیشہ پاکستان کو گیم چینجر کا درجہ دیا ہے، اب کی بار مقام لداخ ہے،اور دشمن ہمارا روایتی حریف بھارت،مگر اس کی جنگ اس سے کئی گنا بڑی طاقت سے ہے اور ہم اس طاقت کے مضبوط ترین حلیف۔لگتا ہے قسمت ایک بار پھر ہمارے دروازہ پر دستک دے رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :