پاک روس بڑھتے تعلقات

پیر 11 جنوری 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

پاکستان اورروس کے درمیان سفارتی تعلقات یکم مئی 1948ء میں قائم ہوئے،سردجنگ کے دوران تعلقات میں کافی اتارچڑھاؤدیکھنے میں آیا۔روس کے پاکستان کی ابتدائی سویلین حکومت کیساتھ تعلقات خوشگواررہے لیکن 1958ء میں مارشل لاء کے بعد تعلقات میں سرد مہری آگئی،1965ء کی پاک بھارت جنگ اور 1971ء میں سقوط ڈھاکا یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت سوویت یونین نے انڈیاکاساتھ دیاتھاکیونکہ پاکستان امریکی بلاک کاحصہ تھاجبکہ انڈیاسوویت بلاک میں شامل تھا۔


70ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات میں پھرگرمجوشی پیداہوگئی،تاہم پاکستان میں 77 کے مارشل لاء کے بعد80 کی دہائی میں سوویت یونین نے افغانستان پرفوج کشی کرکے پورے ملک پرقبضہ کرلیا،اس جنگ میں پاکستان نے امریکی امدادکیساتھ افغان مجاہدین کی بھرپورمددکی اورسٹنگرمیزائل سے سوویت ائرفورس کوشدیدنقصان پہنچایااورہزاروں روسی فوجی ہلاک ہوگئے اورسوویت یونین کوشکست کاسامناکرناپڑااورسوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیاجس سے ایک درجن کے قریب آزادریاستیں وجود میں آگئیں۔

(جاری ہے)


ملکی سیاست ہویابین الاقوامی سیاسی میدان،اس میں کوئی مستقل دوست یادشمن نہیں ہوتایعنی کل کے دوست آج کے دشمن اورکل کے دشمن آج کے دوست بنتے دیرنہیں لگتی جس کی بہترین مثال پاکستان اورروس ہیں،ماضی قریب اور بعید میں ایک دوسرے کے مخالف سمجھے جانے والے ممالک میں ان دنوں قربتیں زوروں پر ہیں۔ مبصرین اسکی وجہ عمران خان اور صدر پیوٹن کی گرمجوش ملاقاتوں کو قرار دے رہے ہیں۔

یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور حقائق بھی موجود ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں کیونکہ سوویت یونین کاشیرازہ بکھرنے کے بعدفوری تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کسی بھی طرف سے ٹھوس کوشش نہیں کی گئی تھی۔ 2003 ء میں پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف ماسکو گئے تھے ، جب کہ روس کی طرف سے وزیر اعظم کی سطح کا دورہ 2007 ء میں ہوا جب میخائل فرڈکوف نے پاکستان کا دورہ کیا ، لیکن وہ صرف معمولی دورہ تھاجس سے دونوں ممالک کے درمیان معمولی برف پگھلی۔


امریکہ نے 2012 میں افغانستان سے فوجی دستوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا تب تک روس اپنے پڑوس میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور امریکہ کے خلاف اپنے آپ کومضبوط کرچکاتھااورافغانستان کی جغرافیائی پوزیشن کودیکھتے ہوئے اور وسطی ایشیا کے وسیع خطے میں سیکیورٹی پر پڑنے والے اثرات اور وسطی ایشیا کے راستے اس کی سرحدوں میں دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ اورامریکی فوج کے انخلاء کے بعدپیداہونے والی صورتحال میں افغانستان میں دلچسپی لے رہا تھا۔

ماسکو نے افغانستان میں دولت اسلامیہ کی موجودگی سے پیدا ہونے والے علاقائی استحکام کو لاحق خطرے کو بھی وہاں اپنی دلچسپی کی نئی وجہ سمجھا اس تناظر میں پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنا اس کے اسٹریٹجک مقام اور اثر و رسوخ کوکسی طرح سے روس کیلئے روگردانی ناممکن تھی،ماسکو نے گذشتہ برسوں سے طالبان کے ساتھ اپنے روابط استوار کیے ہیں اور ہندوستان کے حمایت یافتہ شمالی اتحادکیساتھ اپنی سابقہ پوزیشن تبدیل کرکے طالبان سے تعلقات کوترجیح دی۔


پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کرنا اور شنگھائی تعاون تنظیم افغانستان رابطہ گروپ کے روڈ میپ کو حتمی شکل دینے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آگئے اورپاکستان کے ٹرمپ انتظامیہ سے خراب ہوتے تعلقات نے پاکستان اور روس کوایک دوسرے کے مزیدقریب کردیا اوردوسری طرف انڈیاکے ٹرمپ انتظامیہ سے بڑھتے رومانس نے روس کوانڈیاسے دوری پیداکرنے اورپاکستان سے تعلقات مستحکم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئے،
روسی وزیراعظم میخائل فرڈکوف کے پاکستان کے دورہ کے چھ سال کے وقفے کے بعد 2012 میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے پاکستان کا دورہ کیا ، اس کے بعد 2014 میں وزیر دفاع سیرگئی شوگو کا دورہ ہوا ، جو ان تعلقات میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔

اس کے بعد روس نے پاکستان پر اپنی طرف سے عائد پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور چار ایم آئی 35 ہیلی کاپٹروں کے علاوہ کراچی سے لاہور تک 1.7 بلین ڈالر کی گیس پائپ لائن کی تعمیر پر بھی اتفاق کیا۔اس کے بعدحالیہ برسوں میں روس اور پاکستان نے 2016 میں پہلی بار مشترکہ فوجی مشقیں کیں دوسری طرف انڈیاکی چین کے خلاف امریکی کواڈ میں شمولیت کو روس نے پسندنہیں کیا۔

اس سے بھی پاک روس تعلقات کو مزید فروغ ملا۔
جون 2019 کے وسط میں شنگھائی تعاون تنظیم کا 19 واں سربراہی اجلاس بشکیک میں ہوا ہے۔ اس اجلاس کے دوران جناب عمران خان اور روسی صدر ولادیمر پوٹن کی باہمی اور خوشگوار ملاقات دونوں ممالک کے لیے ایک نیا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ اسی ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: مجھے خوشی ہے کہ بدلتی دنیا اور بدلتے حالات میں روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔

ہاں، ہم روسی ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری عسکری قیادت پہلے ہی سے روسی عسکری قیادت کے رابطے میں ہے۔ سیاسی و سفارتی محاذ پر پاک، روس تعلقات میں بہتری آنے سے دونوں ممالک کے فوجی تعلقات بھی بڑھے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال چند ماہ قبل اس وقت سامنے آئی تھی جب پاکستانی فوجی دستوں نے روسی وار گیمز میں حصہ لیا تھا۔

اس کے بھی مثبت اثرات برآمد ہوئے ہیں اورگذشتہ سال روسی فوجی دستے دروزبا'5'میں حصہ لینے کیلئے پاکستان آئے تھے اوررواں سال پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی پاکستان بحریہ کے شہر کراچی میں روسی بحریہ کے بحری بیڑے اور بحری جہازپاک بحریہ کے امن 2021 ء بین الاقوامی بحری فوجی مشقوں میں حصہ لیں گے۔ 30 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے ، جن میں سے دس اپنے جنگی جہاز بھیجیں گے ، نے اپنی شرکت کی تصدیق کی۔

اس میں نیٹو ممالک بھی شامل ہیں میری ٹائم فورس۔ روسی بحریہ اور نیٹو جنگی جہاز اسپین کے ساحل سے ہٹ کر بولڈ مونارک 2011 کی مشق کے بعد پہلی بار مشترکہ مشق میں حصہ لیں گے۔یہ وہ باتیں ہیں جوانڈیا امریکہ سے تعلقات بنارہاہے وہیں روس بھی تاریخی طور پر انڈیاسے اتناہی دور ہو رہا ہے ا ور وہ پاکستان کے قریب ترہوتاجا رہا ہے جس کی تازہ مثال امن مشقوں میں روسی بحریہ کی شمولیت اورپاکستان کے راستے گوادرمیں گہرے اورگرم پانی تک رسائی اورسی پیک میں شمولیت ہے جوکہ روس کاگرم پانی تک پہنچناہمیشہ سے ایک خواب رہاجس خواب نے سوویت یونین کاشیرازہ بکھیردیاتھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :