
"ہزارہ برادری کا دکھ اور بے حس حکمران"
جمعرات 14 جنوری 2021

ڈاکٹر راحت جبین
بلوچستان کے ابھرتے ہوئے ادیب و افسانہ نگار فارس مغل اپنی کتاب "سو سال وفا" میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ " بلوچستان میں قبائلی جھگڑوں نے مہر گڑھ کے قدیم تہذیبی آثار دفن کردیے. کسی بھلے مانس نے ہزار خزانے دفن کردیے. خدا نے معدنیات دفنا دیں اور اب لوگ عدم برداشت کی مثالیں قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دفن کر رہے ہیں. یہاں ہر شے دفن کیوں ؟؟؟"
اس اقتباس کو اگر بلوچستان کے حال اور ماضی کے تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو یہاں رونما ہونے واقعات پر صادق آتا ہے. یہ ایٹمی ملک کا جغرافیائی لحاظ سے امیر ترین خطہ ہے مگر علاقائی حساب سے غریب ترین اور بے بس ترین صوبہ ہے. جبکہ اس صوبے کے ساتھ حکمرانوں کا رویہ پچھلے ستر سالوں سے بے حسی کا رہا ہے. اس دھرتی کے لوگوں کا کام صرف اپنے پیاروں کی خون آلود لاشیں اٹھانا اور دفن کرنا یا پھر اپنی لاشوں سمیت یخبستہ راتوں میں احتجاج کرنا رہ گیا ہے. مذہبی, لسانی اور علاقائی فرق سے ہٹ کر ہر کوئی صرف اور صرف ماتم زدہ ہی ہے. یہاں صبح گھر سے نکلنے والے کو واپس گھر آنے کی امید نہیں ہوتی.
ہم ایک ایسے ایٹمی ملک کے مکین ہیں جہاں بقول وسعت اللہ خان ایٹم بم کی سولہ سالہ دوشیزہ کی طرح حفاظت کی جاتی ہے مگر اس ملک کے عوام جن کے تحفظ کے لیے یہ اسلحہ اور ایٹم بم بنائے گئے ہیں ان کا خون ہر چیز سے زیادہ سستا ہوگیا ہے اور فراوانی سے بہایا جا رہا ہے اور سیکیورٹی برائے نام ہے. ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں سنہ 2013 سے اب تک 50 سے زیادہ صرف خود کش حملے ہو ئے ہیں۔
(جاری ہے)
8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں بلال انور کاسی نامی وکیل کو قتل کیا مگر جب لاش سول سنڈیمن ہسپتال منتقل کی گئی تو وکلاء اور میڈیا کا ہجوم جمع ہوگیا اور موقع سے فائدہ اٹھا کر خود کش حملہ کیا گیا جس میں 56 وکلاء اور 2 صحافی سمیت 73 افراد شہید ہوئے.
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
اسی تناظر میں اگر یہاں ہزارہ کمیونٹی کی بات کی جائے تو ہزارہ بیسویں صدی میں افغانستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے. ان کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے. مگر انہوں نے یہاں بھی صرف لاشیں ہی اٹھائی ہیں. جنہیں شیعہ سنی مسلک کا نام دے کر فائلوں کی دبیز تہ کی نذر کیا گیا. بات اگر شیعہ سنی فسادات کی ہی ہوتی تو ہزاراہ کمیونٹی سے ہٹ کر بھی شیعہ فرقے کی کثیر تعداد یہاں آباد ہے مگر یہ اپنے چہروں کی مخصوص نقش و نگار ہونے کی وجہ سے بھی شاید فرقہ واریت کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں.
2020 کی دہائی سے لے کر اب تک ہزارہ کمیونٹی کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پرتشدد واقعات کا نشانہ بن چکے ہیں. 10 جنوری 2013 کو اس کمیونٹی کے لوگوں پر ایک حملہ کیا گیا جس میں سو سے زائد لوگ اپنی جانوں سے گئے اور صرف سوا مہینے بعد 18 فروری 2013 کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک اور بم دھماکے کے نتیجے میں تین منزلہ عمارت منہدم ہو گئی اور کئی دکانیں تباہ ہوگئیں۔ دہشت گردی کے اس حملے میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 90 لوگ شہید ہو گئے.جس کے نتیجے یہ لوگ لاشوں سمیت دھرنا دینے پر مجبور ہوگئے. یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا. 3 اپريل 2018 کو کوئٹہ میں فائرنگ سے ہزارہ قبیلے کے مزید دو افراد لقمہ اجل بن گئے. 12 اپریل 2019 کو سبزی منڈی میں خود کش حملے میں اس کمیونٹی کے مزید بیس افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے.
سال نو کے دوسرے روز یعنی 2 جنوری 2021 کو کوئٹہ سے جنوب مشرق کی جانب ساٹھ کلومیٹر دور مچھ میں کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے ہزرہ برادری کے دس کان کن مزدوروں کو مسلح افراد نے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور ہاتھ باندھ کر انہیں بے دردی سے ذبح کیا جن میں افغانستان کے پانچ افراد بھی شامل ہیں . خبر رساں ادارے ایجینسی مطابق شدت پسند تنظیم "دولتِ اسلامیہ" نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
دکھ میں ڈوبے ان لوگوں نے ایک بار پھر انصاف کی امید اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے لاشوں سمیت دھرنا دیا.کوئٹہ کی سخت ترین سردی میں جہاں درجہ حرارت منفی نو ڈگری تک ہے, ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد اپنے عزیزوں کی لاشیں لے کر سات دنوں سے مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے بچے, عورتیں اور بوڑھے افراد بھی شامل ہیں. وہ چھوٹی بچی بھی شامل تھی. جس کے والد کی لاش ان میں شامل تھی. وہ بہنیں بھی شامل تھیں جن کے گھر کا واحد مرد سربراہ اور کمانے والے بھائی کی لاش بھی یہاں موجود تھی. بدقسمتی یہ کہ اس لاش کو کندھا دینے کے لیے صرف بہنیں زندہ تھیں.
حاکمِ وقت تیری مردہ ضمیری کو سلام
بجائے اس کے کہ وزیراعظم پہلے دن آتے اور ان کی اشک جوئی کے ساتھ ان کے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کی یقین دہائی کراتے,الٹا ان کی جانب سے انتہائی سفاکانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آیا وہ ٹویٹ کرتے رہے کہ اپنے پیاروں کی لاشیں دفنا دو, میں تب آؤنگا. یہ وہی شخص ہے جس نے 2013 میں جب اپوزیشن میں تھا تو حکمرانوں کو قصور وار ٹہرا کر مستعفی ہونے کے مشورے دیے اور وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آکر ایک ماہ کے اندر اندر ان کے مسائل حل کروں گا. مگر اب جب خود مسند پر بیٹھا ہے تو کہتا ہے کہ یہ مجھے بلیک میل کرنا چاہ رہے ہیں. مجھے بلیک میل نہ کریں. کیا ان کا کام صرف یہی کہنا رہ گیا ہے کہ "میں کسی کو این آر او نہیں دونگا". یہ تو تم سے کوئی این آر او نہیں مانگ رہے تھے. یہ تو صرف آپ کا دست شفقت, اپنے عزیزوں کے قاتلوں تک رسائی اور انہیں قرار واقعی سزا کی درخواست کر رہے تھے . پھر بھی اگر یہ بلیک میلنگ کر رہے تھے تو احتجاج اور بلیک میلنگ کا یہ طریقہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کا دکھایا گیا ہے. فرق صرف یہ ہے کہ وہ دھرنا حکومت پانے کا تھا اور یہ دھرنا اپنے پیاروں کے لیے انصاف حاصل کرنے کا تھا. وہ دھرنا ہنسی خوشی اور ناچ گانے اور ڈی جے کی تھرل پر چاپ کا تھا جب کہ یہ دھرنا اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بین کرنے کا ہے . ان کا ایک سو چھبیس دن کا بلیک میلنگ کا وقت کیسے گزرا شاید انہیں معلوم بھی نہیں ہوا . مگر ان کا ایک ایک لمحہ اذیت اور تکلیف میں گزرا تھا.
اِظہارِ غم نہ کر ، میرا قاتل تلاش کر
بات جہاں تک بلوچستان کے وزیراعلی اور ان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کی ہے ان کے لیے اہم لوگوں کا قتل ہونا نہیں لاشوں کی غلط گنتی ہے. سا تھ ہی وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی کیا بات کریں کہ کابینہ کے اجلاس میں اسامہ ندیم کے اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں قتل پر بے رحمانہ الفاظ "چھوڑیں جی ایسے معمولی واقعات تو ہوتے رہتے ہیں" اور وزیراعظم کو سانحہ مچھ والوں کے پاس دلجوئی کے لیے نہ جانے کا مشورہ دینے والے سے کسی اچھائی کی امید بھی نہیں.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.