مال کھال کی ڈھال

جمعہ 18 دسمبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

عجب بات ہے مال اور کھال بدن کی ڈھال ہوا کرتے ہیں ۔ مگر آج خود مال اور کھال جب ڈھال ڈھونڈ رہے ہیں تو عوام حیراں ہیں کہ کس کے ساتھ برہنہ بدن کھڑا ہوا جائے ۔ گوجرانوالہ سے نکلا بیانیہ کراچی ، کوئٹہ ، ملتان سے ہوتا ہوا راوی کے کنارے ہچکولے کھاتا آج اپنا دفاع کر رہا ہے ۔ پاکستان کے قیام کے وقت گاندھی جی کی زلف کے اسیر مسلم لیگ ن کے ساتھ فوج ، بلوچستان اور اب لاہور پہ کیچڑ اچھال کے مال کھال کی فکر میں نئی ڈھال کی تلاش میں ماضی پہ وار کرتے نہ جانے کس کو خوش اور کس کو عندیہ دے رہے ہیں کہ ابھی وہ ہیں ۔

مولانا صاحب کے جنازے سے غم کے ماروں کو فوٹو شاپ کر کے جلسے کو کامیاب دکھانے کے لئے کیلیبری فونٹ پھر حرکت میں ہے ۔ لیکن بات تکلیف کی یہ ہے کہ لندن سے ہوتی تقریر کے دوران جلسہ گاہ کو نہ تماش بین بھر سکے اور نہ ہی فوٹو شاپ کوئی کام آ سکی ۔

(جاری ہے)

استعفے دینے والے اب لندن کی قوت کے سامنے اپنی صفائی دے رہے کہ وہ کیوں لوگ نہیں لا سکے ۔ کراچی میں بابائے قوم کے مزار پہ اودھم مچانے والے مینار پاکستان کو یوں روندھ گئے کہ ٹوٹے پودے ، ٹوٹے بینچ اور ٹوٹی آہنی دیوار اپنے کمزور ہونے کی داستاں سناتے اوندھے منہ پڑی ہے ۔

بقول سربراہان پی ڈی ایم اپنے اسمبلی اراکین کے استعفے جیب میں رکھے وہ خود کو بہت مضبوط محسوس کر رہے ہیں ۔ کیا کسی کا استعفی یوں اپنی جیب میں ڈال کے رکھنا اخلاقی ہے یہ بھی تو جواب طلب ہے اور کیا اراکین اسمبلی نا منتخب نمائندوں کے غلام ہیں یا منتخب اسمبلی کے اراکین ان سے زیادہ عوام میں مقبول اور ان کی دل کی آواز ہیں ۔ کیا استعفے دینے والوں میں سے کسی نے اپنے حلقے کی عوام اے بھی مشورہ کیا ہے یا یہ عوام بس ضرورت کا مال ہیں اور ایک دفعہ ووٹ دینے کے بعد جمہوریت میں ان کی آواز پھر سننے والا کوئی نہیں ہوتا ۔

ڈائس سے آتی نا منتخب آوازیں کہ جو استعفی نہیں دیتے ان کا گھیراؤ کیا جائے گا دھمکی ہے یا اس کی کوئی قانونی دلیل بھی ہے ۔ جیل کی ملاقات میں نیب کا قیدی ان استعفوں کو استعمال نہ کرنے کی تجاویز دے رہا ہے ۔ ایک گھنٹہ کی اس ملاقات میں ایک دوسرے پہ طعنہ کسنے والے یوں مل بیٹھے کہ مال ، کھال کی ڈھال کے متلاشی نظر آئے ۔ مفاہمت کے بازی گر کی ان حالات میں انٹری شاید اپنے مختلف ہیٹس سے کوئی کبوتر نکال کے چمتکار کرنے کے حوالے سے کوئی حل پیش کرے ۔

سیاسی منظر نامہ یوں دھندلا سا گیا ہے کہ حکومت بھی کسی گھبراہٹ کی شکار جلدی میں سینٹ کے انتخابات پہ قانونی مدد چاہ رہی ہے ۔ 126 دن دھرنا دینے والے دھرنے کو غیر جمہوری کہہ رہے ہیں لیکن جو ان دنوں اسمبلی میں اسے غیر قانونی کہتے ڈٹ گئے تھے آج اس کو کیسے قانونی کہہ رہے ہیں یہ بھی قابل غور ہے ۔ کل اداروں نے ان کی حکومت کو اسلام آباد میں تحفظ دیا تھا تو اگر آج وہ منتخب حکومت کے پیچھے کھڑے ہیں تو ان کے کردار کو کیوں متنازعہ بنایا جا رہا ہے سمجھ سے باہر ہے ۔

لندن میں موجود پارٹی کے قائد کس سے مشاورت کے ساتھ پہلے مکھنڈی حلوہ کے رسیا اور دوسری باری سندھ کے زردار کو دے رہے ہیں اور خود وزارت عظمی کے امیدوار نہیں ہیں ۔ کیا یہ فیصلے بھی ماورائے عوام نہیں ۔ گلگت بلتستان انتخابات میں ایک سیٹ پہ ایک ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ ہی اب تک اسی شد و مد سے عوام کی نمائندہ پارٹی ہے جب کہ اس دفعہ بریانی کھانے والے بھی باہر نہیں آئے ۔

ان نمائندہ گیارہ جماعتوں کے حاصل ووٹ اگر شمار کئے جائیں تو کیا یہ 2018ء کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹ کا ایک فیصد بھی کہیں سڑکوں پہ لا سکے ۔ بھلا ہو مدرسوں کا جن کے طالب علموں اور ڈنڈہ برداروں نے ان کا بھرم قائم رکھا ۔ خود ڈنڈہ برداروں کی تربیت میں مشغول مولانا صاحب ایک عرصہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں ۔ انگلش نہ بول سکنے کی وجہ سے وہ دوسروں ممالک کو کشمیر کے متعلق کتنا بتا سکے ہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں کیونکہ ملکی اوراق پہ تو ان کی ایک بھی بین الاقوامی فورم پہ خطاب کی گواہی نہیں ملتی۔

لیکن اس سے ہٹ کے ان کی ملا قاتوں کے چرچے آج کل ہر جگہ ہورہے ہیں۔ والد گرامی تو ہمیشہ دو  کپڑوں کے سدا محتاج رہے کہ ایک پہن لیا اور دوسرا دھو لیا  مگر مولانا کی نکلتی اربوں کی جائیدادیں وراثتی تو نہیں ہو سکتیں پھر اس مال کے منبع کی وضاحت بھی تو انہیں ہی کرنی ہے۔
لندن میں ٹھہرے صاحب جو سب کو اکسائے ہوئے ہیں کہ اداروں کو یوں متنازعہ بنا دو کہ پھر کچھ بھی نہ بچے وہ لندن بیٹھے ان فلیٹس کا ہی بتا دیں کہ وہ کس کے ہیں کیونکہ جب پاکستان میں تھے تو ان کی ملکیت سے لا علم تھے لیکن شاید پچھلے ایک سال میں ان کی ملکیت جان گئے ہوں ۔

ملک ، خطے اور بین الاقوامی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ملک کو اندر سے کمزور نہ کیا جائے لیکن آپ کیا سمجھیں اس وقت کی ضرورت کو ۔آپ کو تو  بس مال اور کھال کی فکر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :