سلطان کو امان

منگل 27 اپریل 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

یہ ملک اشرافیہ کے لئے وجود میں آیا ہے- جہاں پیسے کی حکومت ہے وہاں مال دار کو امان ہے- زرداری صاحب کے محترمہ بے نظیر بھٹو کو سمجھاتے کہے گئے الفاظ ہی اس ملک میں  طرز حاکمیت کی روح ہیں کہ مالدار وں کے تالاب میں مالداروں کے درمیاں مالدار بن کے ہی جیا جا سکتا ہے- پھر تاریخ  نے دیکھا کہ ٹین پرسنٹ ہی کہلانے والے ایک دن اس  ملک میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت بنے۔

مولاناصاحب کی طاقت نےعروج پایا تو للکار کے کہا  کہ ہے کوئی جو انہیں احتساب کے لئے بلا سکے- اگر مریم بی بی کو بلایا بھی تو ادارے خود گھبرا کے پیچھے ہٹ گئے اور اب یہی کچھ جہانگیر ترین صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے کہ پہلے مافیا کہا گیا اور اب صلح جوئی بھی حرکت میں ہے- جیل سے لندن کوئی کیسے جاتا ہے یہ اسی طاقت کی ہی بدولت تو ہے-  موٹر وے بنانے والا بے تاج بادشاہ پہلی ہی موٹر وے کو کیسے اپنی طاقت سے ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ  لمبا کرتا ہے  یہ بھی اسی طاقت کا کرشمہ ہے ۔

(جاری ہے)

بیکری پہ شہزادی صاحبہ کے تھپڑوں کے بعد جب میڈیا کی اشک شوئی کے لئے قانون حرکت میں آیا تو یہ تماشا سب نے دیکھا کہ اشرافیہ ہی  وہ اصل قافیہ ہے جس پہ لکھی غزل کی   ہر بحر  خود میں محبوب کا ایک مکمل قصیدہ  لئے ہوئےہے- جناب شہباز شریف صاحب کی ضمانت  کی نوید گرایک نائب قاصد کی مرہون منت تھی اور جج صاحبا ن کے درمیاں کو ئی اختلاف تھا تو سو وہ بھی دور ہوا اور ان کی ضمانت ان کی بے گناہی کا ثبوت بنی مسلم لیگ نون کی زبانوں پہ یوں سجی کہ واقعی شہباز شریف صاحب نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔

پھر کرپشن کون کرتا ہے یہ سوال سر اٹھاتا ہے ۔ اگر کرپشن کوئی نہیں کرتا تو ملک دنیا میں کرپشن کی فہرست میں سر فہرست کیوں ہے۔ کرپشن نہ تو حمزہ شہباز نے کی ہے۔ نہ سلیمان شریف نے ۔ نہ یہ سہرہ علی عمران کے سر سجتا ہے اور نہ شہباز شریف کی اہلیہ مورد الزام ہیں تو پھر لندن کو اپنی موجودگی سے ان سب نے کیوں سجایا ہوا ہے- ہر عمارت جس میں فائل تھی وہ بھی شارٹ سرکٹ سے سدا  کے لئےیوں جلی کہ ان حاکموں کی عمدہ کارکردگی اور بے گناہی  کی اسناد ہی جل گئیں۔

انصاف کے ایوانوں میں بلا تفریق انصاف ہو رہا ہے لندن سے اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ سب آئیں اور فیض پائیں۔ وحیدہ بیگم کو سرکاری زمین کی نہ الاٹمنٹ غلط تھی اور نہ ہی شمیم بیگم کی خریداری پہ کوئی شک پھر کیوں کوئی بلڈوزر جاتی امراء کی طرف جاتا شریفوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے- سندھ کی بات کروں تو انور مجید صاحب سے زرداری صاحب۔ بلاول سے فریال تالپور ۔

عزیر بلوچ سے  راؤ انوار تک ہی تو دودھ کے دھلے ہیں- احتساب کے نام پہ آنے والوں کی کرسی ان ہی شرفاء کی دین ہے ورنہ جب چاہیں اس حکومت کو الٹا دیں۔ اسلام آباد کی سڑکوں پہ کچلے شہری ہوں یا مجید اچکزئی کے گاڑی سے خود ٹکرانے والا پولیس کانسٹیبل  سب کرپٹ ہیں۔ صدیق کانجو مرحوم کے صاحب زادے کے ہاتھوں  پہ زین کا خون ہو یا  شاہ رخ جتوئی کے دامن پہ شاہ زیب کے چھینٹے  سب نے انصاف کے کٹہروں میں کھڑے ہو کے ان کی بے گناہی کو ثابت کیا  ہےاور کچھ نہ ثابت کر سکی تو وہ زین کی ماں تھی جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ با عزت گھر سدھاری۔

میں دارو سے شہد اور شربت بناتی  اس پاکیزہ اشرافیہ کی پاکدامنی کے کتنے قصے لکھوں کیوں کہ جب میں ان صاحبان کی  صاف ستھری شخصیت پہ بات کرتا ہوں تو مجھے خود سے بدبو اور کراہت آنا شروع ہو جاتی ہے اور میری کی کرپشن جس کی وجہ سے میرے ملک کا نام بدنام ہوتا   ہےیاد آنے لگتا ہے کہ اگر میں نے دھنیا یا سائیکل نہ چرایا ہوتا تو آج ملک کی نیک نامی کا باعث  ہوتا۔

پاپڑ، گولے اور پان بیچنے والوں نے منی لانڈرنگ نہ کی ہوتی تو فیٹف کی تلوار ملک کے سر پہ کیوں لٹکتی۔ بوٹ بیرکوں میں بھیجنے والے ان سے سرحد کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر نہروں کی بھل صفائی۔ بجلی کے بلز کی وصولی پہ کڑی نظر کون رکھے گا۔ کراچی کی صفائی  اورسیلاب  کی لہروں پہ کشتی کون دوڑائے گا۔  کرونا کی اس خوفناک لہر میں  عوام کو ماسک کون پہنائے گا۔

اس کے بدلے میں اگر انہوں نے مل کے کچھ ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لیں تو کیا یہ ان کا حق نہیں تھا۔ ملکی وزیر اعظم صاحب جو این آر آو نہ دینے کے دعوے دار اس اشرافیہ کے سامنے کہاں کہاں نہیں جھکے ۔ اپنی کپتانی پہ نازاں جب لائے گئے تو کہتے تھے کہ انجن درست ہونا چاہیئے منزل مل جاتی ہے لیکن وہ یہ سمجھ نہ پائے کہ انجن کے ساتھ ڈبوں کی مطابقت اور ٹیم میں اپنے کھلاڑی بھی ضروری ہوتے ہیں۔

مانگ تانگ کی ٹیم اور اڑیلو کٹوں کے ساتھ  جیت مقدر نہیں بنتی۔ کرونا میں عوام کی بھوک کے درد  میں مرے جاتے ہمارے خان صاحب جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے مگر کرونا سے بے یارو مدد گار مر جائے کوئی دکھ نہیں۔ خیرات میں ملی کرونا ویکسین نے آٹے میں نمک کے برابر لوگوں کے بازو   ضرور چھیدے ہیں  مگر ایک مربوط منصوبہ بندی سے  غریب عوام تک کوئی نہیں پہنچا۔

ہم ہر کرونا لہر میں بھارت سے  دو تین ماہ  پیچھے چل رہے ہیں ۔ آج بھارت میں جو حالات ہیں اللہ نہ کرے کل یہی ہمارے ہوں ۔ ہم اپنی آکسیجن کا نوے فیصد اس لہر کے آنے  سے پہلے  ہی استعمال  کر چکے ہیں۔ خان صاحب ہماری تو رب کے سہارے چلتی گاڑی ہے اس میں آپ کا کمال یہی ہے کہ آپ نے صاف شفاف احتساب ممکن بنایا ۔ آپ نے کہا کہ عدلیہ  گنہ گاروں کو آزادیاں دے رہی ہے۔

عدلیہ اسی صورت  میں آزادی دے گی  جب آپ کے احتساب کے ادارے اشرافیہ  پہ الزام لگانے کے بعد ان کی درست سمت تفتیش بھی کریں گے۔ آپ کے بکاؤ احتساب نے ان کے افسران یونہی تو ارب پتی نہیں بنائے ۔ ہر چیز کو رکھنے سے پہلے اس جگہ کو صاف کرتے ہیں لیکن آپ نے تو اسی گند پہ لا اکٹھا کیا  کچھ اور گند تو پھر صفائی کی امید کس سے کی جائے۔ آپ نے تین سال تیل سے لے کے گندم اور چینی  سے گیس تک کے ذمہ داران کا خوب ڈٹ کے دفاع کیا ہے۔

آپ کے غیر ملکی مشیران نے ملکی اداروں سے جو کھلواڑ کیا ہے وہ بھی جلد ہی آشکار ہونے والا ہے۔ پی ایم سی اور پی ایم ڈی سی کے درمیاں کلیم اللہ سے سمیع اللہ کا کھیل رچانے والے آپ کے ہی منظور نظر تھے اور ڈریپ چلانے والے آپ کی آنکھ کا تارا۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ نے کچھ نہیں بنایا لیکن کیا آپ ان کی قسم بھی دے سکتے ہیں جن کو آپ نے اپنا چن چن کے مشیر لگایا- خان صاحب آپ بھی اب بے معنی ہوتے جارہے ہیں ۔

آپ  کی باتوں پہ بھی لوگ کان دھرنا چھوڑ رہے ہیں۔ آپ کے دور میں بھی ہر سلطان کو امان ملی ہے اور ہر کیڑا مکوڑا گناہگار ٹھہرا کے سولی چڑھایا گیا ہے۔ آپ سے لگائیں امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور آپ بھی قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں خدا کے واسطے  خود بھی سنبھلیے اور اپنے منشور کو  بھی سنبھالیئے- 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :