علامہ اقبال کا محکوم و مجبور کشمیر

منگل 10 نومبر 2020

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

حق کے مقابلے طاقت راج میں آجکل دنیا کی سپر پاور امریکہ پر نظریں جمی ہیں، ہائیڈن نے میدان مار لیا، لیکن بحثیت سیاسی تجزیہ کار اپنی تقدیر سنوارنے کیلئے خود ہمیں نئے راستے تلاش کر نے ہیں، اپنی دنیا و آخرت سنوارنی ہے، اپنی کو تاہیوں اور کمزوریوں کی بناء پر ہمارا انحصار غیروں پر ہے ہمیں اخلاقی و روحانی طور بھی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے، موجودہ جیو پالیٹکس میں مسلم ممالک بر بادی کیطرف اور مسلمانوں کو مسائل و مسائب کے گرداب میں دھکیلا جارہا ہے، شام، عراق، لیبیا، یمن، افغان ۔

۔مسلم ممالک کی تباہی کے بعد ہم فلسطین و کشمیر جیسے قضیے حل کرانے کیلئے نا انصاف دنیا سے پرامید کیسے ہو سکتے ہیں، اسلئے قران و سنت کے غلاف میں علامہ اقبال  جیسے دینی اکابرین کی رہنمائی سے فیض لینا ضروری ہے، علامہ اقبال  سے رہنمائی لیتے ہو ئے حق پر مبنی تحریک کا حصہ، گواہ اور ظالم کا شکار ہو نے کی بنیاد پر حالات و واقعات کا گہرا مطالعہ و عملی تجربہ کی بنیاد پر یہ کہنے میں کو ئی عار محصوص نہیں کر رہا ہوں کہ ۔

(جاری ہے)

۔ بت ہے جماعت کی آستینوں میں، مجھے ہے حکم اذان لا الہ الاللہ۔ حق پر مبنی تحاریک میں بھی اکثر حق یعنی ایمانداری، خود ڈاری، اخلاص، سرشار لگن، صلاحتوں کی قدر نہیں کی جاتی ، اسکے باوجود کہ تحریکوں کی کا میابی کا راز اخلاص ایمانداری، قیادت ، مشیر ،نمائندوں اور اگلی صف میں کھڑے افراد کی صلاحتوں اور اخلاص پر بہت زیادہ منحصر ہو تی ہے، کبھی حادثاتی افراد قیادت کے اردگھرد عہدے حاصل کر تے ہیں جس سے اصل شناخت مجروع ہو تی ہے۔


خصوصی حیثیت ختم کر نے کے بعد کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار بہت زیادہ گرم ہے، پندرہ لاکھ فوج کے علاوہ دمسلح افراد کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ہر گلی میں متحرک ہیں، ہزاروں حریت کارکن جیلوں میں ڈالے گئے اور تحریکی نوجوانوں کے والدین اور رشتہ داروں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، مجاہدین کے والدین، انکے بھائیوں، بہنوں کو بھی زد کوب یا گرفتار کیا جارہا ہے، آرمی کسی بھی جگہ اپنے کیمپ منتقل کر سکتے ہیں اور افسا ء جسکے تحت پہلے ہی کشمیریوں کے جان کی کو ئی قیمت نہیں رہی تھی اب حکومت یا آرمی زمین بھی چھین سکتے ہیں، رکاوٹ ڈالنے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، کئی نوجوانوں کو گھروں سے گرفتار کر کے انکی لاشیں سڑکوں پر ملتی ہیں۔

حریت قائدین کے علاوہ بھارتی الحاق کے حامی قائدین کو بھی پابند سلاسل رکھا گیا، چند قائدین جیسے جموں و کشمیر پیپلز لیگ کے چیرمین غلام محمد خان سوپوری ، جو سالوں جیلوں میں اذیت ناک حالات سے گزر کر اب موت و حیات کی کشمکش میں ہے،کو پرانے مقدمات کا سامنا کر نے کے علاوہ، ان کے حرکات و سکنات پر بھی کڑی نظر رہتی ہے۔
ناجائز قبضے کے خلاف مصروف عمل مختلف نظریات کے حامی تنظیمیں اور قائدین کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتا ہوں ۔

سب آزاد پیدا ہو ئے ہیں اور آزادی ہمارا پیدا ئشی حق ہے، بھارت کے خلاف مصروف عمل پاک نوازوں کی طرح خود مختار کے حامی بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں ، امان اللہ خان کی قبر کی توہین کر نے والے دشمن کے ایجنٹوں کے خلاف کاروائی کرنا حکومت کی اولین ترجیع ہے، یہ دشمن کے ایجنٹ نفرتیں پیدا کر نے کی سازشین کر رہے ہیں۔بھارت سے الحاق کے حامی آٹے میں نمک کے برابر افراد کو بھی میں مجرم نہیں سمجھتا، اگر وہ بھارتی ظلم و جبر میں انکے شریک نہ ہو۔

کشمیر کشمیریوں کا ہے اور اسکے مستقبل کا فیصلے کر نا کشمیری مسلمان اور غیر مسلم دونوں کا حق ہے،مسلہ کشمیرایک سیاسی انسانی مسلہ ہے، ، مسلہ کشمیر حل کر نے کیلئے سیکورٹی کونسل کی قراردادوں پر عمل کر نا آسان نسخہ ہے، یا سہ فریقی سنجیدہ مذاکرات۔مقبوضہ کشمیر میں زرعی اصلاحات کی بنیاد پر چھینی ہو ئی اپنی وراثتی زمین واپس لینے کا ارادہ آج بھی زندہ ہے،لہذا آرزو ہے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلم اکثریتی اپنے خطے کشمیر کی آزدای کیلئے حکومتی سطح پر پاکستان تحریک آزادی کشمیر کو آئینی طور قبول کر کے عملی بھر پور آبیاری کرے ۔

بھارت کا کشمیرپر ناجائز قبضے کو طول دینے کیلئے ظلم و بر بریت جاری رکھنا اور کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا، خصوصی حثیت ختم کر کے وہاں بھارتیوں کو بسانا،کشمیریت، انسانیت اور جمہوریت کی توہین ہے۔ کشمیر کے مسلے کی بنیاد اگر دو قومی نظریہ ہے، تو پھر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر اتنا ہنگامہ کیوں؟ سیاسی مقاصد کیلئے عجلت میں کئے گئے فیصلے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، نجی ٹی وی میں گلگت پر خصوصی پروگرام میں احقر نے تجویز دی تھی کہ گلگت میں الیکشن کے بعد منتخب اسمبلی کے ارکان، کے علاوی لوکل و عالمی امور کے ماہرین ایسا منصوبہ تیار کریں جسے گلگت کی حقوق بھی بحال ہو اور یو این قرار دادوں کے بارے میں کئی لوگوں کے خدشات بھی محدود ہو۔


تاریخ کے اوراق پلٹنے سے ثابت ہو تا ہے کہ کشمیری علامہ اقبال کو اپنے کشمیر سے کتنا لگاؤ تھا، 13جولائی 1931 اکیس میں کئی کشمیری مسلمان شہید ہو ئے۔ اس بر بر یت سے ، جموں و کشمیر کے ہر کو نے میں نئے جوش و جذبے سے تحریک آزادی شروع ہو ئی، 31جولائی 1931مہاراجہ کے ظلم و جبر کی بناء پرکشمیر کانفرنس کی مٹینگ 25جولائی کو بلائی گئی ۔ جسمیں علامہ اقبال بھی شامل تھے اور علامہ  کو اس کانفرنس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

اس مٹنگ میں ایک کمیٹی کی بنیاد ڈالی گئی اس کمیٹی نے مہاراجہ کے خلاف نئے سرے سے احتجاجی مہم شروع کی جس احتجاج میں مجلس احرار نے بھی تعاون دیا۔ اس احتجاج کے حوالے سے مہاراجہ نے انگریزوں سے شکایت کی اور مجبورا مہاراجہ کو1934 میں ایک آزاد اسمبلی کی بنیاد ڈلنی پڑی ۔امن و خوشحالی کیلئے آپسی منافرت منفی رحجانات کو کم کر نے کی کو شش میں سر فہر ست علامہ اقبال کا نام ہے اور علامہ  نے عظیم مقصد کے حصول کیلئے با صلاحیت با کردار قیادت قائد اعظم کے سپرد اس نیک مشن کو دیا اسطرح قائد اعظم ْکی دانائی و تدبر کے سایہ میں مسلم لیگ کے جھنڈے تلے پاکستان کا قیام عمل میں آیا جوہر گز ایک معمولی واقعہ نہ تھا ۔

دنیا کے نقشے پر وقت کی عظیم تحریک و قیادت کے زیر سایہ عظیم ترین مسلمان مملکت کا وجود میں آنا حکمت خداوندی میں کسی بڑی تدبیر کے سلسلے کی کڑی ہے
 کشمیری نہ صرف اپنی بہادری، بھائی چارگی بلکہ روحانی کردار اقدار و گفتار میں اپنا اعلی مقام رکھتے ہیں۔ روحانی شاہراہ حق کے اعلیٰ اکابرین میں سے کئی اعلیٰ روحانی نسل سے وابستہ افراد نے کشمیریوں کی اقدار سے متاثر ہو کر کشمیری نظر آنے کوہی ترجیع دی۔

معی الدین چستی اور نظام الدین اولیا  نے کشمیری نہ ہو نے کے با وجوداپنے ناموں کے ساتھ خواجہ رکھنے کو ترجیع دی۔ کشمیر ی نسل سے عالم میں کئی مفکر اور دانشور پیدا ہو ئے، جنمیں علامہ اقبال  جیسے مفکر اسلام کا نام بھی شامل ہے۔ علامہ اقبال اور کئی انسان دوستوں کی کاوشوں سے انجمن کشمیری مسلمانان لاہو رکی بنیاد 1900میں ڈالی گئی۔علامہ اقبال کے قریبی ساتھی تاریخ دان منشی محمد دین فوق نے1906 میں جب مسلم لیگ بنی تو علامہ اقبال کے کہنے پر کشمیر گزٹ کے نام سے ماہانہ میگزین شائع کر نا شروع کیا۔

1912 سے 1924تک کشمیر گزٹ نئے نام اکبری کشمیری کے نام سے ہفتہ وار شائع کیا گیا۔ 1908 کو انجمن کشمیری مسلمانان لاہو ر کو آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس میں تبدیل کیا گیا اور اسکے پہلے سیکٹرری جنرل علامہ اقبال کونامزد کیا گیا۔1912میں علامہ نے کشمیر کا دورہ کیااور مہاراجہ کے ظلم و جبر کے خلاف ازسر نو مہم شروع کی، مہاراجہ کے ظلم و جبر سے متاثر ہو کر علامہ کے دل و دماغ سے نکلی آہیں پیش خدمت ہے۔


آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
علامہ اقبال عالم میں تمام انسانوں کے درمیان اسلام کے آفاقی پیغام آپسی بھائی چارگی اور اتفاق کے حامی تھے،
یہی مقصود فطرت ہے ،یہی رمزمسلمانی
اخوت کی جہاں گیری ،محبت کی فراوانی
اسکے علاوہ علامہ اقبال مسلمانوں کے درمیاں ایک جسم کے اعضاء ہو نے کی روحانی اقدار کی تشریح اسطرح کر رہے ہیں
بتاں رنگ و خون کوتوڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
 مسلمانوں کو اپنی ماضی کی عظمت کو واپس حاصل کر نے اور مسائل و مصائب کے انبار سے نجات حاصل کر نے کیلئے علامہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کو اسطرح پیش کیا ہے۔


مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زور حیدر،فقر بوزر،صدق سلمانی
ذاتی مفادات کو قومی و ملی مفادات پر تر جیع دینے والوں کے نام شرعی تقاضوں کی تشریع علامہ اس طرح کر تے ہیں
ہوس نے کر دیاہے ٹکڑے ٹکڑے نو ع انسان کو
اخوت کا بیان ہو جا ،محبت کی زباں ہوجا
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنگ یا بی
افق سے آفتاب ابرا گیا دور گراں خوابی
طاقت کے مقالے حق کے راج میں حق پرستوں اور غاصب اقوام کے خلاف بر سر پیکار مظلوموں کے نام علامہ کا پیغام ہے
غلامی میں نہ کام آتی ہے شمشیریں نہ تد بیریں
جو ہے ذوق یقین پیدا تو کٹ جا تی ہیں زنجیریں
 علامہ اقبال  کو خراج تحسین پیش کر نے کیلئے اسلامی کردار،واقدار کو انفرادی و اجتماعی نصب العین بنائیں جس سے آپسی کدورتیں ختم ہواورزمینی و آسمانی نصرت ملے ۔

روحانی و جیو گرافی طورپاک کشمیر گہرے مراسم کی زنجیر کو بھارتی ظلم و جبر سے توڈا نہیں جا سکتا ۔چند برس پہلے ایک سمینار میں احقر نے کہا عالمی حالات کو مدنظر رکھکر نئی راہیں تلاش کر کے اپنے دماغوں اور آنکھوں کو کھلا رکھنا بہت ضروری ہے ،انشا ء اللہ ظالم کے مقدر میں رسوائی ہو گی اور حق کے نصیب میں کامیابی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :