غریب کی غربت کا رونا ،مگرمچھ کے آنسو ہیں

منگل 30 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 پختون معاشرے کی ایک مثال ہے کہ چھاننے نے کوزے سے کہا تم میں دوسوراخ ہیں یعنی چھاننا اپنے اندر کے سینکڑوں سوراخ نہیں سوچتا ۔کوزے کے دوسوراخ سوچتا ہے ایسی ہی صورتحال آج کل ہماری قومی سیاست میں اپوزیشن اور شکست خوردہ قیادت کا ہے ۔پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری اطلاعات مرتضیٰ وہاب ہوں یا مسلم لیگ ن کی واحد ترجمان مریم اورنگزیب ،واحد اس لےے لکھا کہ مسلم لیگ ن کے تمام درباری میاں نواز شریف کو احتسابی عمل میں دیکھ کر اپنے کل سے پریشان بلکہ خوفزدہ ہیں اس لےے اُن کی بولتی تقریباً بند ہوچکی ہے البتہ مریم اورنگزیب ابھی تک نمک کا حق ادا کر رہی ہیں ۔

محترمہ کو وزیر اعظم عمران خان کی بہن لٹیری نظر آرہی ہیں اورجہانگیرترین لٹیرا!! لیکن اپنی قیادت کا گزرا کل بھول جاتی ہیں جس کا حساب احتساب عدالت میں لیا جارہا ہے ایسی ہی صورتحال سے سندھ کے وزیر اطلاعات دوچار ہیں اُس کے بیانات اور تقاریرمیں ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا دور اقتدار فرشتوں کا تھا اور پاکستان جنت نظیر ،دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو عمران خان کے دوراقتدار میں خشک ہوگئی ہیں ۔

(جاری ہے)


دراصل بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست کی لگام اُن ہاتھوں کے ہاتھ میں ہے جنہیں پاکستان تحفے میں ملا انہوں نے تحریک پاکستان دیکھی نہ ہجرت کے درد دیکھے اور نہ ہی آزادی کی جدوجہد میں خون ریزی دیکھی پاکستان کی سیاست پر جاگیردار ،سرمایہ دار ،وڈیرے قابض ہیں انہوں نے غریب کو اپنی جاگیرمیں مشقت کرتے ضرور دیکھا ہے لیکن غریب کی غربت کو نہیں سوچا ۔

البتہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اُن کے لبوں پر غریب ضرور رقصاں ہوتا ہے بدبخت غریب کے نام پر کماتے ہیں خود عیاشی کرتے ہیں غریب کو خون رُلاتے ہیں ۔
 2018ءکے عام انتخابات میں عوامی عدالت سے سزا یافتہ انتخابی عمل میں شکست خوردہ ،سیاسی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان ،سراج الحق اور مصطفی کمال حکمران جماعت پر لفظوں کی گولہ باری کرکے جانے اپنا گریبان کیوں بھول جاتے ہیں لیکن لگتا ہے ان کا کوئی گریبان نہیں اور اگر ہے تو گردن میں خود غرضی اور خودپرستی کا سریاہے اس لےے گردن جھک نہیں سکتی کاش یہ لوگ اپنے گریبان میں دیکھتے تو ان کو اپنی شرافت ،اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا دامن تارتار نظر آتا اگر یہ لوگ اپنے قول وفعل میں شاداب ہوتے تو الیکشن میں خزاں کے پتوں کی دربدر نہ ہوتے ۔

آج اگر یہ لوگ حکمران جماعت پر اُنگلی اُٹھا کر غریب کی غربت کا رونا رورہے ہیں اگر اپنے گزشتہ کل میں روتے تو عوام ان کو سینے سے لگاتی لیکن ان کو غریب کی غربت سے کوئی سروکار نہیں اگر ان کو غریب کی غربت کا احساس ہوتا غریب کی غربت کو قریب سے دیکھا ہوتا تو عوامی عدالت الیکشن میں شکست کی رسوائی میں رسوا نہ ہوتی
     حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اور صرف اپنا دکھ پیٹ رہے ہیں ۔

عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں نہ اُن کو عوام سے کوئی ہمدردی ہے نہ پاکستان سے محبت ہے اور نہ ہی استحکام پاکستان چاہتے ہوس اقتدار میں نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ قوم کو سکون کی زندگی بسر کرتے دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ان کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی سابقہ عیاشیوں کا غم کھائے جارہا ہے او رجو اسمبلیوں میں جماعتی اکثریت کھوکر اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی آجکل غریب کی غربت کا رونا رونے لگے ہیں دراصل یہ لوگ اپنے ماضی کے جرائم کا حساب دینے پر ماتم کر رہے ہیں ان کے چہروں سے قیادت اور شرافت کے نقاب اُتر چکے ہیں ۔

یہ لوگ اپنے مستقبل سے پریشان ہیں ظاہر ہے پریشان وہ ہوتا ہے جو ضمیر کا مجرم ہو ۔اگر واقعی! یہ لوگ جیسا کہہ رہے ہیں پاکدامن ہیں اگر یہ لوگ ضمیر کے مجرم نہیں تو روتے کیوں ہیں پریشان کیوں ہیں لیکن پوری قوم جان گئی ہے کہ ان کی سیاست اُن کی اپنی ذات خاندان اور درباریوں کے گرد طواف کیا کرتی ہے اگر یہ مداری حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اگر ان کو پاکستان ،استحکامِ پاکستان ،جمہوریت کی عظمت اورپاکستان کی عوام کی حالت ِزار کا احساس ہوتا اگر ان کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تقدس کا احساس ہوتا تو قومی سیاست اور اسمبلیوں کے تقدس کا احترام کرتے لیکن ایسا سوچنا بھی ان کیلئے گناہِ کبیرہ ہے اس لےے کہ ان کو اپنی ذات کے سوا باہر کی دنیا میں کچھ نظر نہیں آیا اگر غریب کی غربت کا رونا روتے ہیں تو یہ مگرمچھ کے آنسوروتے ہیں ۔

    بدقسمتی سے شکست خوردہ اور سابق حکمران شعوری اور مادی طور پر یہودی کے پرستار ہیں ۔اُن کی غلامی میں زندہ ہیں لیکن بے شعور ہیں ،یہودی قوم سے محبت تو کرتے ہیں لیکن اُن کے قومی طور طریقے اپنانے سے گریزاں ہیں اس لےے کہ یہودی کے قومی طور طریقے قوم اور عوام کیلئے ہوتے ہیں وہ وطن اور اہل وطن سے پیار کرتے ہیں ۔اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن اُن کے پاکستانی پرستار اُن کے قومی نظام حکمرانی اور وطن دوستی کو عزیز نہیں جانتے ۔


امریکہ میں اپنے قیام کے دوران میں نے امریکہ کے تین انتخابات میں امریکی عوام کو قریب سے دیکھا پرسکون انتخابی عمل دوبڑی جماعتوں کی قیادت اپنے منشور پر عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں ۔دورانِ الیکشن ایسا کوئی تماشہ نہیں دیکھا جو اپنے پاکستان کے طول وعرض میں دیکھتا ہوں ۔امریکی عوام ضمیر کی آواز پر ووٹ دیتی ہے الیکشن کے دن دونوں جماعتوں کی قیادت اپنی پوزیشن دیکھتی اور سوچتی ہے الیکشن کے دن ان میں ایک کو اپنی شکست کا یقین ہوجا ئے تو کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرکے عوام کے فیصلے کی تائید میں جیتنے والے کے ساتھ قومی استحکام اورعوام کی خوشحالی کیلئے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آگے بڑھتے ہیں اس لےے آج وہ دنیا پرحکمران ہیں لیکن میرے وطن میں انتخابی عمل سے قبل سیاسی قیادت اخلاقی قدروں کا خون کرکے ضمیر کی لاش پر پاﺅں رکھ کر اپنے چاہنے والوں کی لاشوں پر رقص کرتے ہیں ،۔

انتخابی عمل میں شکست کے بعد دھاندلی کا شور مچا کر عوام کے فیصلے کو مسترد کردیا کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :