یہ پاکستان ہے اور قانون ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس

جمعرات 11 فروری 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

چھ سابق اور موجودہ اراکینِ خیبرپختونخوا اسمبلی کی مبینہ طور پر پیسے وصول کرنے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد خیبرپختونخواہ کے موجودہ وزیرِ قانون سلطان محمود خان نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وڈیو پرانی ہے یا نئی، اراکین ِ اسمبلی حکومت کے ہیں یا اپوزیشن کے ! یہ وڈیو عمران خان کے اس موقف کی تائید ہے قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ہم عوام جن کو اعتماد کو ووٹ دیتے ہیں وہ کس بے رحمی سے ہمارے اعتماد کو دھوکہ دیتے ہیں وڈیوز سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ سینٹ انتخابات میں ضمیروں کو خریدا جاتا ہے اب بال سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہے اگر سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ پاکستان میں بقول میاں محمد نواز شریف کے ووٹ کو عزت دی کر چانگا مانگا کی سیاست اور ضمیر فروشی کے لنڈابازار کو بند کردیا جائے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ مشروط صدارتی آرڈیننس کی روشنی میں پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے حسن کے لئے حکومت کے حق میں فیصلہ کرے اس لئے کہ یہ دونوں ایوانوں کے وقار کا مسلہ ہے ۔

(جاری ہے)

آئینی ترمیم حکومت کے ذاتی مفاد کے لئے نہیں پارلیمانی جمہوریت کے حسن اور بقا کا مسلہ ہے سپریم کورٹ کو وزیر ِ اعظم کے اس بیان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے!
   وزیرِ اعظم عمران خان نے سینیٹ انتخابات میں مبینہ خرید وفروخت سے متعلق پاکستان کے سیاسی نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ان ویڈیوز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیاست دان سینیٹ میں کس طرح سے ووٹوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ 'ہماری سیاسی اشرافیہ پیسے کی مدد سے اقتدار میں آتی ہے اور پھر طاقت کے ذریعے بیوروکریٹس، میڈیا اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں کو خرید کر اپنی اجارہ داری قائم کرتی ہے اورپھر قوم کا پیسہ لوٹ کر اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونِ ملک اکاو ¿نٹس، غیرملکی اثاثے بنانے میں استعمال کرتی ہے۔“اس لئے حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات 2021 اوپن بیلٹ سے کرانے کی تجویز دی گئی ہے لیکن اپوزیشن کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم اس کرپشن دوست نظام کی حمایت کر کے اسے بچانا چاہ رہی ہے۔ لیکن ہم کرپشن اور منی لانڈرنگ کے اس نظام کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہیں !
یہ ویڈیو بظاہر 2018 میں سینیٹ انتخابات سے پہلے بنائی گئی تھی جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف مطلوبہ تعداد میں ووٹرز ہونے کے باوجود اپنے دو افراد کو سینیٹر منتخب نہیں کرا پائی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی جس کے پاس مطلوبہ تعداد میں اراکین اسمبلی نہیں تھے لیکن ان کے امیدوار کامیاب ہو گئے تھے۔اس واقعہ کے بعد صوبائی سطح پر تحقیقات کی گئیں جس میں 14 ایسے اراکین تھے جن پر رقم لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ان کی پارٹی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔!!!    
  ایک مضمون میںصابر شاہ لکھتے ہیں کہ انتخابی بدعنوانیوں اور دھاندلی کے واقعات دنیا میں عام ہیں بلکہ تقریباً اس وقت سے ہی چلے آ رہے ہیں جب سے انتخابات شروع ہوئے ہیں بھارت جیسے ملکوں میں ایسے واقعات سامنے آ نے پر قانون نے گرفت کی اور سنگین نتائج برآ مد ہوئے لیکن پاکستان میں اب تک معاملہ کبھی استعفوں سے آ گے نہیں بڑھا.

جولائی 2008میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے ایک سکینڈل نے بھارت کے سیاسی نظام کو ہلا ڈالا تھا. اس کے نتیجے میں کم از کم چھ ارکان پارلیمنٹ گرفتار ہوئے تھے اور بی جے پی اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے کانگریس کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا تھا. ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد سے محفوظ رہنے کے لئے ارکان کی ہتھیلیاں گرم کیں.
  سونیا گاندھی کی قیادت میں حکمران یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے خلاف 22 جولائی 2008 کو تحریک عدم اعتماد کے موقع پر انہیں ووٹ دینے کیلئے آ مادہ کیا.

کمیونسٹ پارٹی آ ف انڈیا مارکسسٹ کی قیادت میں ایک گروپ نے امریکہ سے ایٹمی معاہدے کی وجہ سے حکمران اتحاد کا ساتھچھوڑ دیا تھا جس پر بی جے پی نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا. ٹائمز آ ف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس مطالبے پر بحث جاری تھی کہ بی جے پی کے کچھ ارکان نے کھڑے ہوکر نوٹوں کی گڈیاں لہرانا شروع کردیں اور الزام لگایا کہ یہ انہیں رشوت دی گئی ہے.

سپیکر سوم ناتھ چٹرجی نے دہلی پولیس کے سربراہ کو بلا لیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں. بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ تین چار دن سے کانگریس اور اس کے سپور ٹر ہمارے ارکان پر دبا ﺅ ڈال رہے ہیں کہ وہ رقم لیں اور تحریک پر رائے شماری میں غیر حاضر رہیں یا حکومت کے حق میں کو ووٹ دیں.اب یہ بات کھل گئی ہے. اس سے پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوا ہے.

ہماری پارلیمنٹ کی تاریخ میں ایسے شرمناک سکینڈل کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی. اسی دوران بی جے پی کے رکن اشوک ارگل نے نوٹوں سے بھرے کچھ بیگ دکھائے جن میں تین کروڑروپے تھے. انہوں نے کہا یہ رقم انہیں رائے شماری میں حصہ نہ لینے کیلئے دی گئی ہے .
صابر شاہ نے خوب یاد دلایا لیکن پاکستان میں ابھی ضمیر مردہ ہیں ان کی آنکھوں کی بھو ک نہیں مٹتی ۔ وہ کھاتے بھی ہیں للکارتے بھی ہیں وہ چور بھی ہیں اور سینہ زور بھی ہیں ،ووٹ کو عزت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ووٹ کو عزت دینے کے لئے قانون سازی کی حمایت نہیں کرتے اس لئے کہ یہ لوگ انتخاب ذاتی مفاد کے لئے لڑتے ہیں قوم اور قومیت کے وقار سے ان کا کوئی سروکار نہیں ، جہاں تک ہماری عدالتوں کا تعلق ہے تو وہان کون سے فرشتے بیٹھے ہیں۔ وہ حقائق سنتے ہیں اور نہ دیکھنا پسند کرتے ہیں فیصلہ کرتے وقت کان بند کرکے آنکھوں پر سیاہ پٹی باند ھ لیتے ہیں ان کے حضور سرکار یا مدعی کا وکیل جھوٹا اور ملزم کے وکیل ہی سچا ہوتا ہے پاکستان کی عدالتوں میں مجرم کو نہیں اس کے کیس کو لٹکائے رکھنے کا قانو ن ہے اس لئے کہ یہ پاکستان ہے اور قانون ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :